جنوبی ہند پر سب سے پہلے 1294ء میں علاؤ الدین خلجی نے اپنے زمانۂ شہزادگی میں حملہ کیا اور خاندیش اور بہار سے گذر کر دیوگری کے راجا کو شکست دی۔ جس نے خراج کے وعدے پر صلح کر لی۔ 1306ء میں سلطان علاؤ الدین نے ملک کافور کو جنوبی ہند کی تسخیر پر مامور کیا۔ ملک کافور نے دیوگری کے باغی راجا کو شکست دے کر ورنگل فتح کیا اور دریائے کرشنا عبور کرکے دوارکا پر قبضہ کر لیا۔ ملک کافور جنوبی ساحل کے آخری سرے تک پہنچ گیا اور فتح کی نشانی کے طور پر مدورا میں ایک مسجد تعمیر کرائی۔ اور پھر دہلی کا رخ کیا۔ علاؤ الدین خلجی کی وفات پر دیوگری اور ورنگل نے بغاوت کردی۔ 1323ء میں شہزادہ جونا خاں ( محمد تغلق) نے انھیں دوبارہ سلطنت دہلی میں شامل کر لیا۔

1326ء میں سلطان محمد تغلق نے دہلی کی بجائے دولت آباد ’’دیوگری‘‘ کو اپنا دار الحکومت بنایا اور شمالی ہند سے بہت سے مسلمان جنوبی ہند میں آکر آباد ہو گئے۔ سلطان محمد تغلق کے عہد میں جنوبی ہند ’’میسور اور مالابار سمیت‘‘ مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ 1342ء میں ظفرخان نے بہمنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بہمنی سلطنت کے چودہ بادشاہ گذرے ہیں۔ انھوں نے 1518ء تک حکومت کی۔ بہمنی سلطنت کے ساتھ ہی 1350ء میں جنوبی ہند میں وجے نگر کی ہندو حکومت بنی جس کا مقصد مسلمانوں کے حملے کو روکنا تھا۔ بہمنی سلطنت اور وجے نگر کی ہندو حکومت اکثر بر سر پیکار رہتی تھی۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد اس کے آثار پر برید شاہی، عماد شاہی ،نظام شاہی، عادل شاہی، قطب شاہی پانچ چھوٹی چھوٹی اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں۔ بہمنی سلطنت کے زوال پر وجے نگر کی ہندو حکومت مضبوط ہو گئی اور دکن کے مسلمان سلاطین کو آپس میں لڑا کر انھیں کمزور کرنے لگی۔ بالاخر 1565ء میں جنگ تلی کوڑ میں مسلمان سلاطین نے متحد ہو کر وجے نگر کو شکست دی۔ اور اس کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ گولکنڈا اور بیجاپور کی سلطنتوں کے عہد میں اردو ادب اور زبان نے خوب نشو و نما پائی۔ بالآخر یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں 1636ء اور 1687ء میں اورنگزیب عالمگیر نے فتح کرکے مغلیہ سلطنت میں شامل کر لیں۔