فرحت عباس شاہ
فرحت عباس شاہ کا شمار دنیا کے ممتاز اور اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی میں بہت کلام تخلیق کیا۔ موضوعات کی وسعت اور کیفیات کے اظہار میں ایسی تخلقی قوت کسی اور شاعر میں نظر نہیں آتی۔ فرحت عباس شاہ نے نہ صرف معاشی بے انصافی پر قلم اٹھایا بلکہ دنیا کا پہلا اسلامک مائیکروفنانس ماڈل بنا کی اس کو عملی طور پر ثابت بھی کیا۔ فرحت عباس شاہ نے ٹرکل ڈاون اکنامک تھیوری کو رد کرکے ٹوئیسٹ اپ اکانومی تھوری پیش کی اور ہزاروں خاندانوں کو اپنے پاوں پر کھڑا۔ فرحت عباس شاہ نے فلسفہ، نفسیات، موسیقی، ادب، صحافت اور مارشل آرٹ جیسے شعبوں میں اپنی حیثیت نہ صرف منوائی بلکہ قبول عام کی سند حاصل کی۔ انھوں نے ہمیشہ، عالمی امن، محبت اور انسانیت کے نظریات کی سربلندی کو فوقیت دی ۔
فرحت عباس شاہ | |
---|---|
پیدائش | 15 نومبر 1964ء جھنگ، پنجاب، پاکستان |
پیشہ | صحافی، شاعر، ادیب، نقاد، سی ای او لاہور ٹی وی، ڈائریکٹر، ٹی وی اینکر |
قومیت | پاکستانی |
مادر علمی | گورنمنٹ کالج جھنگ (1981ء تا 1986ء)، جامعہ پنجاب (1986ء)، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمینٹ (2008ء)، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (2008ء)، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی (2009ء) |
اصناف | محبت، رومان |
موضوع | ادب، صحافت، سوشلزم، تنقید، نفسیات |
پیدائش اور ابتدائی تعلیم
ترمیمفرحت عباس شاہ بروز اتوار 10 رجب 1384ھ مطابق 15 نومبر 1964ء کو جھنگ شہر پنجاب، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ فرحت عباس شاہ نے ابتدائی تعلیم جھنگ میں ہی حاصل کی۔ جھنگ میں ہی ایم ایس سی نفسیات کی ڈگری حاصل کی۔ مزید اعلیٰ تعلیم کے واسطے لاہور چلے آئے۔ 1988ء تا 1990ء تک وہ جامعہ پنجاب میں فلسفہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ 1990ء میں جامعہ پنجاب، لاہور سے فلسفہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
بحیثیت مارشل آرٹسٹ
ترمیمفرحت عباس شاہ قومی سطح پر تسلیم کیے جانے والے مارشل آرٹسٹ ہیں۔ برما کے مشہور برمیز مارشل آرٹس میں وہ پہلے جوان ماسٹر کی تعلیم حاصل کرنے والا فرد ہیں۔ 1990ء میں قومی میلہ مویشیاں لاہور میں فرحت عباس شاہ نے عالمی تاریخ میں پہلی بار برف کے 11 بلاک توڑنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آج تک یہ عالمی ریکارڈ قائم ہے۔ تا حال 4 لاکھ سے زائد شاگرد اُن سے مارشل آرٹ کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ فرحت عباس شاہ نے مارشل آرٹ کی تکنیک کو کھیلوں میں متعارف کروانے میں اہم کردار اداء کیا ہے اور باقاعدہ اِس کو ضابطہ اختیاری اصول و قواعد کے تحت متعارف کروایا۔ وہ بحیثیت مارشل آرٹسٹ کے "پاکستانی نِنجا" کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔
امن و آشتی کے علمبردار
ترمیمفرحت عباس شاہ نے عالمی طور پر مارشل آرٹ کی تعلیم میں بردباری، امن وسکون، خود اعتمادی اور امدادی افکار جیسی بنیادی قواعدی اصولیات کو متعارف کروایا ہے جس کی وجہ سے وہ مارشل آرٹ میں امن و آشتی کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔
بحیثیت شاعر و ادیب
ترمیمفرحت عباس شاہ نے 13 سال کی عمر میں نظمیں لکھنا شروع کیں جو مختلف اخبارات میں شائع ہوئیں۔ باقاعدہ شعری مجموعہ "شام کے بعد" ماہِ جون 1989ء میں منظر عام پر آیا جس سے اُن کی شہرت میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا، تاحال اِس شعری مجموعہ کے 20 سالوں میں 100 سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہ کتاب رومانوی اور محبت پر مشتمل نظموں کا مجموعہ ہے۔ تقریباً 20 سالوں میں فرحت عباس شاہ کے قلم سے 67 کتب منظر عام پر آئیں جن میں 46 کتب صرف شاعری پر ہیں اور 3 کتب بحیثیت نقاد شائع ہوئیں۔ 40 سال کی عمر تک اُن کے 46 شعری مجموعہ جات شائع ہو چکے تھے۔ اکیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں میں وہ رومانوی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ جنگ مخالف شاعر بھی خیال کیے جانے لگے۔ 2001ء میں امریکا کے افغانستان پر حملہ سے وہ کافی متاثر ہوئے اور اُن کے شعری خیالات میں کافی حد تک تبدیلی دکھائی دی۔ سانحہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد جاری ہونے والی امریکی-افغان جنگ (2001ء – 2014ء) میں فرحت عباس شاہ کی نظموں میں مختلف تبدیلی نظر آئی، وہ امریکی-افغان جنگ (2001ء – 2014ء) کے مخالف ہونے کے سبب سے مخالفانہ نظمیں تحریر کرتے رہے۔ اِس سلسلہ میں اُن کا شعری مجموعہ "ہم اکیلے ہیں بہت" شائع ہوا۔ تا حال اُن کی ایک تصنیف کا پنجابی ترجمہ اور 4 کتب کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ انگریزی تراجم یہ ہیں:
- Sarabi
- Love
- America My Friend
- After Evening
- Critical work on Farhat Abbas Shah
شعری مجموعے اور تصانیف
ترمیم1989ء سے تا حال فرحت عباس شاہ کی 67 کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں مشہور ترین یہ کتب ہیں:
- شام کے بعد - جون 1989ء، اِس کتاب کے تقریباً 100 ایڈیشن شائع ہوئے۔
- مجھے تم یاد آتے ہو۔
- صحرا خرید لائے ہیں۔
- محبت کی آخری ادھوری نظم۔
- اداس اداس۔
- دن نکلتا نہیں۔
- مجھ سے ناراض نہ ہو۔
- بارشوں کے موسم۔
- آدھے غم اور آدھی خوشیاں۔
- میرا شام سلونا شاہ پیا۔
- اداسی ٹھہر جاتی ہے۔
- ہم جیسے آوارہ دل۔
- عشق نرالا مذہب ہے۔
- جم گیا صبر میری آنکھوں میں۔
- تیرے کچھ خواب۔
- موت زدہ۔
- محبت گمشدہ میری۔
- آ لگا جنگل دردِ دیوار سے ۔
- آنکھوں کے پار چاند۔
- سرابی۔
- محبت ذات ہوتی ہے۔
- خطوں میں دفنایا ہوا جنون۔
- آ کسی روز۔
- کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں۔
- تم اداس مت ہونا۔
- اکیسویں صدی کی پہلی نظم۔
- اِک بار کہو تم میرے ہو۔
- دل دے ہتھ مہار۔
- عشق بنایا پیر۔
- اَج دِی لوک داستان۔
- الوداع پاکستان۔
- خیال سو رہے ہو تو۔
- روز ہوں گی ملاقاتیں۔
- سوال درد کا ہے۔
- یہ عجیب میری محبتیں۔
- دکھ بولتے ہیں۔
- ابھی خواب ہے۔
- منہ پنچھی بے چین۔
- کہاں ہو تم؟ ۔
- محبت چپ نہیں رہتی۔
- ملو ہم سے ۔
- چاند پر زور نہیں۔
- اداس شامیں اجاڑ راستے۔
- جدائی راستہ روک کے کھڑی ہے۔
- مت بولو پیا کے لہجے میں۔
- اے عشق ہمیں آزاد کرو۔
- آنکھیں غزل ہیں آپ کی۔
- کبھی ملنے چلے آو۔
- میرا انتظار قدیم ہے۔
- ساتھ دینا ہے تو دے۔
- یاد آوں اگر اداسی میں۔
- ہم اکیلے ہیں بہت۔
- میرے ویران کمرے میں۔
- اور تم آو۔
- وہ کہتی ہے۔
- دو بول محبت کے ۔
- ہجر عبادت بن جائے۔
- محبت خوبصورت ہے۔
- آوارہ مزاج۔
- تم سمجھ نہیں سکتے۔
- تاجدار حرم۔
- منتخب نظمیں۔
- منتخب افسانے۔
- غزلیاتِ ساغر۔
- عصری ادب کی متوازی تاریخ۔
- تخلیقات پسند تحریک۔
- نی مائے آ کسی طور چلیں۔
- سرد سا ہاتھ ملانے والا۔