فرزانہ خجندی جن کا صل نام عنایت حاجی یوا ہے اور فرزانہ کے نام سے پہچانی جاتی ہیں، ایک تاجکستانی شاعر اور لکھاری ہیں۔ آپ تاجکستان کے شہر خجند میں مقیم ہیں اور جدید فارسی شاعری کے پیشروں میں سے ایک ہیں۔

فرزانہ خجندی
معلومات شخصیت
پیدائش 3 نومبر 1964ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خجند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت تاجکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان تاجک زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

زندگی

ترمیم

فرزانہ 1964 ء میں خجند کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد خجندکی جامعہ سے شعبہ زبان و ادبیات سے فارغ التحصیل ہوئیں ۔[1]

فرزانہ کے اشعار میں فروغ فرخزاد، فردوسی اور رومی وغیرہ فارسی شعرا کا اثر پایا جاتا ہے۔ انھیں تاجکستان کی "فروغ" کہا جاتا ہے۔

ادبی خدمات

ترمیم

فرزانہ کے شعری مجموعہ جو اب تک شائع ہو چکے ہیں:[1]

نمونہ کلام

ترمیم

گل سپاس

دوست! با دستہ مژگان
اب رہا را بیا بہ پشت افق‌ها رانیم۔
در تبسم‌کدهٔ نرگس و نیلوفر صبح
گیمن* خورشید را بیا خوانیم۔
این سحر جویبار نوخط
می برآرد سواد روشن
اولین بار در برابر ناز عفیف یک گل پیچک بہ لرزہ می‌آید
در سینهٔ کسی دل تهمتن
مینهٔ** شرینکامی
در سرشاخهٔ آلوبالو
قصیدهٔ نشاط می‌گوید۔
در سر گور نوی می‌روید
علف نورس سلام و علیک
علف خیر و خوش نمی‌روید

من بہ تالار سایہ و روشن خواهم رفت
کہ در آن‌جا نیم مردم شاید
زندگانِی قیمتی خود را بهر بد دیدن من می‌بخشند۔
نیم دیگر شاید
بہ نغز دیدن من
من بہ هر یک گل سپاس هدیہ خواهم کرد
گل سپاس بہ آنی کہ دوست می‌دارد
برای چشم حبیب‌اش کہ چشم‌های مرا
درود روشن گفت
برای پیک نجیبش کہ بہ دی‌ماہ بی‌نجابت من
سلام گرم گل بهمن گفت

برای خانم دلاوری کہ چندین ماہ
می‌نهد درم بہ درم
عاقبت می‌خرد کتابک کم‌ظرف مرا۔
ضامن کفش کودکان وی‌ام
ضامن جامهٔ پشمین زمستانهٔ او۔
سحر خوش‌بختی
کہ مستجاب شود در زمین تشنهٔ دعای باران
می‌روم با سخن می‌گیرم
بار نہ چرخ را ز شانهٔ او۔

گل سپاس هدیہ خواهم کرد
بہ همانی کہ بدم می‌بیند
برای یاد مرا در دلش گذر دادن
برای سوز مرا جای در جگر دادن۔
برای آن کہ با بدی هم باشد
می‌کند ذکر نام من
یعنی می‌برارد مرا بہ عالم روشن
ز قعر دخمهٔ خاموشی۔
برای روح مرا بردنش بہ سوی نافراموشی۔
گل سپاس هدیہ خواهم کرد

گل سپاس هدیہ خواهم کرد
بہ تمام سپاسمند و ناسپاسان
بہ شناش و ناشناشان۔
بہ همانی کہ چشم‌های مرا
شیوهٔ دگر دیدن آموخت
با نگاهم چقدر تجربهٔ زیبا کرد
بہ دل تو کہ با دل من بعد از این
رابطهٔ مستقیم
پیدا کرد
گل سپاس هدیہ خواهم کرد
بہ کسی کہ تمام نیکی عالم
صفات اصلی اوست۔
بہ تو
آری بہ تو
تنها بہ تو
ای دوست۔[2]

حوالہ جات

ترمیم