فضالہ بن ایوب
فَضّالَہ بن ایوب اَزدی اہوازی امام کاظم(ع) اور امام رضا(ع) کے با اعتماد شیعہ راویوں میں سے ہیں۔ رجالیوں میں سے بعض انھیں اصحاب اجماع اور برجستہ ترین فقہا میں سے سمجھتے ہیں۔ کتاب الصلاة اور کتاب النوادر ان کے آثار میں سے گنی جاتی ہیں۔
فضالہ بن ایوب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
ولادت اور نسب
ترمیمفضالہ بن ایوب ازدی اہوازی ازد قبیلے سے اور یمنی شمار ہوتے ہیں۔ان کی ولادت کی یقینی تاریخ مذکور نہیں ہے لیکن بعض قرائن کی مدد کی بدولت کہا جا سکتا ہے کہ دوسری صدی کے وسط میں پیدا ہوئے ہیں۔
وہ ازد قبیلہ سے ہیں او ان کی ولادت کا شہر کوفہ ہونے کی وجہ سے کوفی اور زندگی کے آخری ایام اہواز میں گزارنے کی وجہ سے اہوازی مشہور ہیں۔[1]
علم رجال میں منزلت
ترمیمبعض شیعہ علما انھیں اصحاب اجماع میں سے سمجھتے ہیں۔[2] کشی ان کی روایات پر اصحاب کے اجماع کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :بعض علما نے حسن بن محبوب کی جگہ پر حسن بن علی بن فضال اور فضالہ بن ایوب کا نام ذکر کیا ہے۔[3]
شیخ طوسی اپنی رجال کی تصنیف میں انھیں اصحاب امام کاظم(ع) اور اصحاب امام رضا(ع) میں سے قرار دیتے ہیں اور ان کی توثیق کے معتقد ہیں۔[4] دیگر علما جیسے نجّاشی،[5] علّامہ حلّی[6] وغیرہ [7] بھی ان کی وثاقت، علم اور دیانت کی تاکید کرتے ہیں۔
روائی رجحان
ترمیمسانچہ:اصحاب اجماع فضالہ کے روائی رجحان کو مجموعی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- اکثر روایات کا حصہ فقہی احکام کے مسائل سے متعلق ہے۔
- روایات کا ایک حصہ ولایت کے اثبات اور اس کی حقانیت، شیعہ ائمہ کے معصوم ہونے، ان کی فضیلت، مناقب اور اہل بیت کے بلند مقامات سے متعلق ہے.
- ایک حصہ فضائل اور رذایل اخلاقی سے متعلق ہے ۔ [8]
اقوال علما
ترمیمنجاشی: فضالہ بن ایوب ازدی کوفہ کے اصیل عربوں سے ہے کہ جو کافی مدت تک شہر اہواز میں رہے ؛برجستہ محدث جانے جاتے ہیں نیز صراط مستقیم پر گامزن رہے اور ایک دیانتدار شخص تھے۔[9]
جعفر سبحانی: اسے ایک بزرگ اور صاحب نام فقیہ کہتے ہیں اور انھیں علم حدیث کا ماہر سمجھتے ہیں جنھوں نے تقریبا 1307 احادیث کا ذخیرہ چھوڑا ہے.[10]
مشائخ اور روات
ترمیمفضالہ امام کاظم(ع) اور امام رضا(ع) کے علاوہ دیگر محدثین اور راویوں سے حدیث نقل کرتے ہیں:
بہت سے افراد نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔ بعض کے اسما درج ذیل ہیں :
- عباس بن معروف
- علی بن مہزیار
- صفوان بن یحیی
- محمّد بن عیسی بن عبید
- محمّد بن خالد برقی
- احمد بن محمد بن خالد برقی
- حسین بن سعیداہوازی (لیکن ان سے ملاقات ثابت نہیں ہے، بعض علما نے کہا ہے کہ؛ کُل شیء قراءت الحسین بن سعید عن فضالة فهو غلطٌ)
- حسن بن سعید اہوازی
- علی بن اسماعیل میثمی
- محمّد بن ابی عمیر.[12]
آثار
ترمیمرجالی علما فضالہ کو دو کتابوں کا مؤلف مانتے ہیں کہ جن کا نام کتاب الصلوة، و النوادر ہے۔[13]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ نجاشی، رجال، ص310. علامه حلی، رجال، ص230.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج13، ص272.
- ↑ طوسی،اختیار معرفه الرجال، ج2، ص832-831.
- ↑ طوسی، رجال، ص342 و363.
- ↑ نجاشی، رجال، ص310.
- ↑ علامہ حلی، رجال، ص230.
- ↑ رک:جامع الرواة، ج2، ص2.
- ↑ جامع الرواة، ج2، ص3.
- ↑ نجاشی، رجال، ص310.
- ↑ موسوعہ طبقات الفقہاء، ج2، ص445-444.
- ↑ موسوعۃ طبقات الفقہاء، ج2، ص444.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث،: ج 13، ص274
- ↑ نجاشی، رجال، ص311. طوسی، الفہرست، ص201.
منابع
ترمیم- اردبیلی، محمد بن علی، جامع الرواة، منشورات مکتبہ آیہ الله مرعشی نجفی، قم، 1403ق.
- حلی (علامہ)، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، نشرالفقاہہ، 1417ق.
- خوئی، سید ابو القاسم، معجم الرجال، دارالزہرا، بیروت، 1409ق.
- سبحانی، جعفر، موسوعہ طبقاتالرجال، موسسہ امام صادق، قم، 1418ق.
- طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفہ الرجال (رجال کشی)، موسسہ آل البیت لاحیاء التراث.
- طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، نشرالفقاہہ، 1417ق.
- مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، مطبعہ المرتضویہ، نجف اشرف، 1352ق، افست انتشارات جہان، تہران.
- نجاشی، احمد بن علی، رجالالنجاشی، موسسہ نشر اسلامی، 1424ق.