فضالہ بن عبید انصار کے بہت بلند مرتبہ صحابی تھے۔

فضالہ بن عبید
 

معلومات شخصیت
مقام وفات دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں مہمات نبوی کی فہرست ،  غزوہ احد ،  غزوہ خیبر ،  غزوہ خندق   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ترمیم

فضالہ نام، ابو محمد کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے ،فضالہ بن عبید بن نافذ بن قیس بن صہیب بن اصرم بن جحجبی بن کلفۃ بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس، والدہ کا نام عقبہ بنت محمد بن عقبہ بن الجلاج انصاریہ ہے۔
عبید بن نافذ ( فضالہ کے والد) اپنے قبیلہ کے سر برآوردہ شخص تھے اوس و خزرج کی لڑائی میں نمایاں رہے،نہایت شجاع و بہادر تھے، گھوڑ دوڑ کراتے اوراس میں سب سے بازی لیجاتے،زور وقوت کا یہ حالت تھا کہ ایک پتھر دوسرے پر دے مارتے تو آگ نکلنے لگتی، سپہ گری کے ساتھ فن میں اور شاعری کا بھی کافی ذوق رکھتے تھے۔

اسلام

ترمیم

فضالہ مدینہ میں اسلام کے قدم آتے ہی مسلمان ہو گئے تھے۔

غزوات

ترمیم

لیکن کسی وجہ سے بدر میں شریک نہ ہوئے ،غزوۂ احد اور باقی تمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہے اور بیعت الرضوان میں بھی شرکت کا شرف حاصل کیا۔[1] عہدِ نبوت کے بعد شام گئے اور وہاں کی فتوحات میں حصہ لیا، اس کے بعد فتح مصر میں شامل ہوئے،پھر شام آکر مستقل سکونت اخیتار کی اور دمشق میں اپنے رہنے کے لیے مکان بنایا بعض روایتوں میں ہے کہ امیر معاویہ نے بنوادیا تھا۔ عثمان غنی کے عہد خلافت میں قاضی دمشق ابورداء تھے،انھوں نے انتقال فرمایا تو امیر معاویہ نے وفات سے قبل ان سے پوچھا آپ کے بعد قاضی کس کو بنایا جائے؟ فرمایا فضالہ بن عبید کو ،ابودرداء فوت ہوئے تو امیر معاویہؓ نے فضالہ کوبلاکر دارالامارۃ کا محکمۂ قضا سپرد کیا۔ صفین37ھ میں امیر معاویہ مقابلہ کو نکلے تو دمشق میں اپنا جانشین انہی کو بنایا، اس موقع پر انھوں نے جو الفاظ کہے وہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں: لم احبک بھا ولکن استرت بک من النار[2] میں نے تم کو اپنا جانشین نہیں؛ بلکہ جہنم کے مقابلے میں سپر بنایا ہے۔ 49ھ میں سلطنت روم پر لشکر کشی کی،تو تمام لشکر انہی کی ماتحتی میں دیا، انھوں نے بہت سے قیدی پکڑے،اسی ضمن میں جزیرہ قبر ص پر بھی حملہ کیا۔ امیر معاویہ کی طرف سے درب (طرسوس اوربلادروم کے درمیانی علاقہ کا نام ہے) کے بھی عامل مقرر ہوئے۔

وفات

ترمیم

53ھ میں وفات پائی، امیر معاویہ مسند حکومت پر تھے،خود جنازہ اٹھایا اوران کے بیٹے عبد اللہ سے کہا، میری مدد کرو، کیونکہ اب ایسے شخص کے جنازہ کے اٹھانے کا موقع نہ ملے گا، دمشق میں دفن ہوئے مزار مبارک موجود ہے اوراب تک زیارت گاہ خلائق ہے۔

اخلاق و کردار

ترمیم

ایک شخص مصر آیا اورحدیث سننے کے لیے ملاقات کی تو دیکھا کہ پراگندہ سر اوربرہنہ پا ہیں،بڑا تعجب ہوا اور بولا کہ امیر شہر ہوکر یہ حالت؟ فرمایا ہم کو آنحضرتﷺ نے زیادہ تن آسانی اوربناؤ سنگار کی ممانعت کی ہے اور کبھی کبھی ننگے پیر رہنے کو بھی فرمایا ہے۔[3]

اولاد

ترمیم

بیٹے کا نام عبد اللہ تھا۔

فضل وکمال

ترمیم

ایوانِ حکومت کے ساتھ مجلس علم میں بھی مرجع انام تھے،لوگ دور دراز سے حدیث سننے آتے تھے،ایک شخص اسی غرض سے ان کے پاس مصر پہنچا تھا۔ [4] جو شخص رسول اللہ ﷺ کے شرف صحبت سے مشرف اورحضرت عمرؓ اورحضرت ابودرداءؓ جیسے اساطین امت سے مستفیض ہوا ہو، اس کے فضل وکمال کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے، دار السلطنت دمشق کی مسند قضا کے لیے اور پھر حضرت ابودرداء جیسے بزرگ کی رائے سے منتخب ہونا، ان کی قابلیت کی سب سے بڑی سند ہے ،لیکن بایں ہمہ فضل وکمال صرف 50 حدیثیں ان کے سلسلہ سے ثابت ہیں راویوں کے نام حسب ذیل ہیں: حنش صنعانی، عمرو بن مالک الجنبی،عبد الرحمن بن جبیر، عبد الرحمٰن بن محیریز، ابو علی ثمامہ بن شفی، علی بن رباح ،محمد بن کعب القرضی، عبد اللہ بن عامر یصبی، سلیمان بن سنجر، عبد اللہ بن محیریز ،میسرۃ،ابو یزید خولانی۔

اخلاق

ترمیم

احکام رسول کی تعمیل اور پابندی سنت کا ہر کام میں خیال رکھتے تھے۔ غزوۂ روم میں ایک مسلمان کا انتقال ہوا، تو حضرت فضالہؓ نے حکم دیا کہ ان کی قبر زمین کے برابر بنائی جائے؛ کیونکہ آنحضرتﷺ ہم کو اسی کا حکم دیتے تھے، [5] ان کے علاوہ بھی جو مسلمان روم میں شہید ہوئے،سب کی قبریں اسی طرح بنوائیں۔ [6] ایک شخص مصر آیا اورحدیث سننے کے لیے ملاقات کی تو دیکھا کہ پراگندہ سر اوربرہنہ پا ہیں،بڑا تعجب ہوا اور بولا کہ امیر شہر ہوکر یہ حالت؟ فرمایا ہم کو آنحضرتﷺ نے زیادہ تن آسانی اوربناؤ سنگار کی ممانعت کی ہے اور کبھی کبھی ننگے پیر رہنے کو بھی فرمایا ہے۔ [7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. اصابہ:5/210
  2. استیعاب:2/531
  3. مسند:6/18
  4. (مسند:6/18)
  5. (مسند:6/18)
  6. (مسند:6/18)
  7. (مسند:6/18)