نواب فضل جنگ بہادر(سی 1894ء -1964ء) ایک حیدرآبادی سیاست دان اور سرمایہ کار ، جو نظام آف حیدرآباد میر عثمان علی خان آصف جاہ ہفتم کے دور کے تھے۔[1]

فضل نواز جنگ
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1894ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریاست حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1978ء (83–84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش Somajiguda, بنجارا ہلز،
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل حیدرآباد، دکن
مذہب اہل سنت
عملی زندگی
مقام_تدریس ریونیو منسٹر، اسمبلی کے سپیکر
پیشہ کاروباری شخصیت   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سید فضل اللہ حیدرآباد بھارت میں ایک قدیم معزز عرب گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد اپنا سلسلہ نسب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑتے تھے لہٰذا انھوں نے حیدر آبادی معاشرے میں اعلیٰ سطح کے لوگوں میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھا۔ ان کا گھرانا واحد تھا جو اپنی خدا ترسی اور خلوص کی بنیاد پر معاشرے کی تفریق کی نفی کرتا تھا۔ اگرچہ وہ اپنی امارت کی وجہ سے نہیں جانے جاتے تھے، تاہم ان کے سب سے مشہور کامیاب سیاسی کیرئیر رکھنے والے بیٹے نے اپنے حریف راج کے مقابل نظام کی سطح پر اپنے گھرانے کو متعارف کروایا۔

فضل نواز جنگ نے صاحب زادی حبیبہ سے شادی کی جو ایک شاندار اور مستحکم امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور اس کے والد حیدرآباد کے سب سے زیادہ امیر انسان تھے۔ حبیبہ کے والد، محمد فخر الدین فریدی جو مغل شہنشاہ کے وزیر اعظم اور بابا فرید گنج شکر ( جن کا مزار پاکپتن پاکستان میں ہے) کی اولاد سے تھے۔ دونوں خاندانوں میں اس تعلق نے حبیبہ کو حیدرآباد کی بہت معزز خاتون بنا دیا۔ حیدرآباد اس وقت بھی بھارت کی سب سے زیادہ شاہانہ ریاست تھی جس وقت مغلوں کے دربار زوال پرستی کا شکار تھے۔ فضل بہت خوش قسمتی کا حامل انسان تھا۔ اسے سیاست کے میدان میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس نے حبیبہ کے اثاثوں کو ملا کر سموجیگودا میں ایک وسیع و عریض جائداد خریدی اور ایک بہت بڑی ریاست تعمیر کی جس میں صرف اس کے اپنے گھرانے کے افراد اور اس کی کئی بہنیں شامل تھیں۔ اس کے پڑوسیوں میں نامور لیاقت جنگ جو مشہور لال بنگلہ کے مالک تھے اور شہزادہ اعظم جاہ شامل تھے جن کا محل بیلا ویسیٹا تھا۔ ان کی بہنوں سمیت ان کے خاندان کے مرنے والے افراد آج بھی سموجیگدا میں مسجد سبحانی میں دفن کیے جاتے ہیں۔ حبیبی بیگم سے ان کے پانچ بچے تھے جن میں عارف سجاد ، اختر بیگم، اسد ممتاز، نیر بیگم اور کشور بیگم شامل تھے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Various (1 جنوری 2000)۔ From autocracy to integration: political developments in Hyderabad State۔ Orient Longman۔ ص 232۔ ISBN:81-250-1847-6