فضل پوکویا تنگل(انگریزی : Sayyed Fadal Pookoya Thangal) (سن 1820ء کیرلا-1901ء ترکی) سید فضل پاشا کے نام سے جانے جاتے ہے۔ وہ ایک اسلامی مبلغ تھے جو کیرالہ میں سرگرم تھے۔[1][2] آپ کے والد کا نام قطب الزمان سید علوی رحمہ اللہ ہے۔ بعد میں وہ حضرموت یمن سے 18 رمضان ہجری 1183 میں سترہ سال کی عمر میں اسلام کی تبلیغ کے لیے علاقہ ملیبار آئے۔[3] وہ سید علوی ممبرم رحمہ اللہ کے اکلوتے بیٹے تھے۔[4]

فضل پوکویا تھنگل
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1825  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1900 (74–75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استنبول  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن استنبول  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان باعلوی  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ انقلابی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش اور بچپن ترميم

سید فضل پوکویا تنگل 1820ء کی دہائی میں پیدا ہوئے۔ وہ ممبورم کے سید علی تنگل کے بیٹے تھے جو ماپیلا مسلمانوں کے سیاسی لیڈر اور اسلامی صوفی تھے۔ ان کی والدہ فاطمہ بیوی مسلم صوفی ابوبکر مدنی (کویالندی) کی بیٹی تھیں۔ فضل تنگل کا بچپن اپنے والد کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کرنے میں گذرا۔[5] فضل تنگل نے سب سے پہلے اپنے والد کے ذاتی معاون الحاجی چالیلکتھ کودے اور اس کے بعد پاپرنندگدی ابو بکر کویا مسلیار ، بیتھن مسلیار ویلینگود، عمر خازی، معی الدین خازی ، قلیکت خازی، زین الدین مسلیار تھیررنگادی اور شیخ سلیم عبداللہ بن عمر سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے حدیث، فقہ اور زبانوں کا علم حاصل کیا۔[4]

خاندانی پس منظر ترميم

سید فضل پووکویا کی دو بیویوں سے تین بیٹیاں اور چھ بیٹے تھے۔ ان کی دو بیٹیاں بچپن میں ہی مر گئی تھیں۔ سید سہل، سید احمد، سید محمد، سید حسن، سید یوسف اور سید علی ان کے بیٹے تھے۔ ترکی میں انہوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ شاندار زندگی گزاری۔ ان کی موت کے بعد حکومت ترکی ان کے گھر والوں کو پینشن دیتی رہی۔

بغاوت ترميم

فضل تنگل 20 سال کی عمر میں اپنے والد کی وفات سے قبل برطانوی مخالف تحریک کے رکن تھے اس وقت ممبورما میں کوئی جامع مسجد نہیں تھی۔ فضل تھن نے ایک جامع مسجد تعمیر کروائی۔ جمعہ کے خطبہ میں انہوں نے مالابار کے مسلمانوں کے موجودہ حالات پر بات کی۔ برطانویوں نے اس تحریک میں ملوث ہونے پر ان کی تفتیش کی۔[6]

حوالہ جات ترميم

  1. En. Pi Cekkuṭṭi Muhammad Abdurahman 2006- Page 82 "But even before the report was submitted, the decision to deport Fazal Pookoya Thangal was taken in February, 1852. The deportation order was issued by the Madras Government on February 12. As the news of the deportation spread, ..."
  2. Anne K. Bang Sufis and Scholars of the Sea: Family Networks in East Africa, - 2003 Page 82 "They turned to the Tannal of Mambram, i.e. to Fadl Pasha. In 1852, the District Magistrate H. V. Conolly issued a warrant for Sayyid Fadl's arrest. Unlike the case of his father, the British this time refused to let matters pass and Sayyid Fadl was "
  3. "DARUL HUDA OFFICIAL WEBSITE". 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2012. 
  4. ^ ا ب "ASHRAFNLKN'S WEBSITE". اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2012. [مردہ ربط]
  5. "MALIK DEENAR Islamic ACADEMY OFFICIAL WEBSITE". 05 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2012. 
  6. Panikkar, K. N., Against Lord and State: Religion and Peasant Uprisings in Malabar 1836-1921