عبد اللہ بن عمر
عبد اللہ بن عمر خلیفہ دوم عمر ابن الخطاب کے صاحبزادے تھے۔ حبر الامۃ (امت کا بڑا عالم) لقب ہے۔
عبد اللہ بن عمر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 610 مکہ |
وفات | سنہ 693 (82–83 سال)[1] مکہ |
قاتل | حجاج بن یوسف |
شہریت | ![]() ![]() |
اولاد | سالم بن عبد اللہ |
والد | عمر ابن الخطاب |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | نافع مولی ابن عمر، طاؤس بن کیسان، بکیر بن الاخنس السدوسی، محمد بن سیرین، ابراہیم بن ابی عبلہ |
پیشہ | عسکری قائد، محدث، مفسر قرآن، مفتی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، جنگ موتہ، غزوہ تبوک، فتح مکہ |
درستی - ترمیم ![]() |
قبول اسلامترميم
عبد اللہ ابن عمر نے اپنے والد کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ جبکہ اس وقت آپ سن بلوغت کو نہ پہنچے تھے۔
غزوات میں شرکتترميم
غزوہ بدر کے وقت آپ چھوٹے تھے، اس لیے جنگ میں شریک نہ ہو سکے۔ سب سے پہلی جنگ، جس میں آپ نے شرکت کی تھی وہ غزوۂ خندق تھی۔ غزوۂ موتہ میں جعفر بن ابی طالب کے ساتھ شرکت کی تھی۔ آپ جنگ یرموک اور فتح مصر و افریقہ میں شامل تھے۔
اتباع سنتترميم
آپؓ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بے حد اتباع کرتے تھے۔ حتٰی کہ جہاں آپٔ اترتے تھے وہیں آپ اترتے، جہاں پيغمبر نے نماز پڑھی وہاں نماز پڑھتے تھے اور یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک درخت کے نیچے اترے تھے تو حضرت ابن عمراس کو پانی دیا کرتے تھے کہ خشک نہ ہو جائے۔
فقیہترميم
ابن عمر مسلمانوں کے امام اور مشہور فقہا میں سے تھے۔ بے حد محتاط تھے اور فتویٰ میں اپنے نفس کی خواہشات کے مقابلہ میں اپنے دین کی زیادہ حفاظت کرنے والے تھے۔ باوجود یہ کہ اہل شام ان کی طرف مائل تھے اور ان سے اہل شام کو محبت تھی۔ انہوں نے خلافت کے لیے جنگ چھوڑ دی اور فتنوں کے زمانہ میں کسی مقابلہ میں جنگ نہیں کی۔ حضرت علیؓ کی مشکلات کے زمانہ میں بھی علی کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کی۔ اگرچہ اس کے بعد وہ حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہونے پر ندامت کا اظہار کرتے تھے۔
جابر بن عبداللہ کہا کرتے تھے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی طرف دنیا مائل نہ ہوئی ہو اور وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوا ہو، بجز عبد اللہ بن عمر۔ آپ سے اکثر تابعین نے روایت کی ہے۔ جن میں سب سے زیادہ آپ سے روایت کرنے والے صاحبزادے سالم اور ان کے مولیٰ نافع تھے۔ شعبی فرماتے ہیں ہ ابن عمر حدیث میں جید تھے اور فقہ میں بھی جید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد 60 سال زندہ رہے۔ موسم حج وغیرہ میں لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے۔
وفاتترميم
73ھ میں وفات پائی۔
مزید دیکھیےترميم
حوالہ جاتترميم
- ↑ عنوان : Исламский энциклопедический словарь — ISBN 978-5-98443-025-8