قاتلانہ حملے اور ان کے اسباب

قاتلانہ حملے ایسے حملے ہوتے ہیں جن کا مقصد کسی شخص کی جان لینا ہوتا ہے۔ یہ حملے دانستہ ہوتے ہیں۔ حملوں میں کبھی کوئی ایک فرد شامل ہوتا ہے تو کبھی دو یا ان سے زیادہ افراد کا ہونا بھی ممکن ہے۔ ان کے پیچھے کئی بار کوئی گروہ، سیاسی جماعت، کوئی ملک کی حکومت یا پھر کوئی دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ ہونا ممکن ہے۔ چونکہ یہ قتل دانستہ اور جان لیوا ہوتے ہیں، اس لیے ان کے پیچھے کافی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے۔ ہر قاتلانہ حملہ کامیاب نہیں ہوتا۔ ناکام حملوں کی صورت میں نشانہ بنایا گیا شخص زندہ بچ جاتا ہے۔ اس کے بر عکس کامیاب حملوں میں شکار اشخاص مارے جاتے ہیں۔ جدید دور میں خود کش بمباروں کا بھی قاتلانہ حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو کسی قتل کے انجام دینے کے دوران خود بھی فنا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے فنا ہونے سے بھی ہر بار قتل کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ سیاست، تجارت اور کچھ زمینی رنجشوں کے معاملوں میں قاتلانہ حملے انجام پاتے ہیں یا کروائے جاتے ہیں۔ کروائے جانے کی صورت میں لازم ہے کہ باہر کا فریق بھی شامل ہوتا ہے جو محض مالی فائدے کے لیے کوئی قتل کو انجام دیتا ہے۔

قاتلانہ حملوں کی زد میں آنے والے راہنماؤں کی فہرست
نام شخصیت تاریخ پیدائش حملے کا مقام / اور قاتل اسباب
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 671ء 12 ربیع الاول مکہ شریف

ابو جہل اور ساتھی

درس واحدانیت
حضرت عمر فاروق 570ء ابولولو فیروز نظام ٹیکس
عثمان غنی بلوائی حملہ تبدیلی

قاتلانہ حملوں کے مقاصد اور کئی صیغہ راز میں رہنے والی باتیں کبھی منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی، پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور کئی بر سر آوردہ لوگ قتل تو کیے گئے، مگر ان کے قتل کی وجوہ یا تو سامنے نہیں آئی ہیں یا پھر جدید دور میں بھی متنازع ہیں۔ اسی طرح سے امریکی سیاہ فام قائد میلکم ایکس کا قتل ہے، جس کا شبہ امریکی خفیہ عہدیداروں پر کیا گیا ہے۔

قاتلانہ حملے، مختصر تاریخ ترمیم

ایک حملہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل پر قابیل نے کیا ، جس کی وجہ سے ہابیل شہید ہو گئے تھے،

{{پاکستان میں قاتلانہ حملے}}

16 اکتوبر 1951ء میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک فرضی مقدمہ میں پھنسا کر پھانسی دے کر عدالتی قتل کیا گیا۔ اگست 1988ء پاکستان کے اہل تشیع کے سیاسی مذہبی قائد سید عارف حسین حسینی کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ 1988ء میں پاکستان کے صدر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیاء الحق کو ایک ہوائی حادثہ بنا کر قتل کیا گیا۔ 2005ء کو پرویز مشرف دور میں نواب اکبر بگٹی کو فوجی حملہ کر کے قتل کیا گیا۔ 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی سے آٹھ سال بعد واپسی پر ایک خودکش حملے اور ایک چھوٹے بم دھماکے میں 139 افراد سیاسی قتل کا شکار ہوئے۔ 27 دسمبر 2007ء کو اسلام آباد کے نزدیک راولپنڈی میں لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد وہاں سے رخصتی کے وقت ایک خودکش حملے اور پھر فائرنگ کے ایک واقعے میں پاکستان کی سابقہ وزیر اور اعظم پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو اور ان کے تقریباﹰ دو درجن حامیوں کا قتل۔ 2009ء میں بلوچستان کے صوبائی وزیر برائے تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ میں قتل کیا گیا 2009ء میں مذہبی عالم سرفراز احمد نعیمی، کو قتل کیا گیا۔ 2009ء ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین حسین علی یوسفی کو قتل کر دیا گیا۔ 2010ء میں بلوچ قوم پرست رہنما حبیب جالب کو بھی صوبائی دار الحکومت کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ 2010ء کو پشاور میں ایف سی کے کمانڈنٹ صفوت علی خودکش حملے میں مارے گئے، 2 اگست 2010ء کو سندھ میں حکمران اتحاد میں شامل جماعت ایم کیو ایم کے صوبائی رکن پارلیمان رضا حیدر کوکراچی میں گولی مار دی گئی۔ ان کے قتل کے بعد کراچی میں شروع ہونے والے خونریز واقعات میں 40 سے زائد افراد مارے گئے۔ 16 ستمبر 2010ء کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رکن اور لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے عمران فاروق کو برطانوی دار الحکومت میں قتل کر دیا گیا ۔ 4 جنوری 2011ء وفاقی مخلوط حکومت میں شامل بڑی پارٹی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا اسلام آباد میں اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل۔ خود کو موقع پر ہی پولیس کے حوالے کر دینے والے ان کے ذاتی محافظ نے اقرار کیا کہ اس نے سلمان تاثیر کو ان کے ملک میں توہین رسالت سے متعلقہ قانون کے بارے میں بیان کی وجہ سے قتل کیا۔[1] 2011ء پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو راولپنڈی میں نا معلوم نے افراد قتل کر دیا تھا۔

حوالہ جات ترمیم