قدرت نقوی
سید قدرت نقوی (پیدائش: 10 نومبر، 1925ء - وفات: 16 دسمبر، 2000ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز محقق، ماہر لسانیات، شاعر، معلم اور غالب شناس تھے۔ وہ غالب پر تحقیق کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے۔
قدرت نقوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 10 نومبر 1925ء میرٹھ ضلع |
وفات | 16 دسمبر 2000ء (75 سال) کراچی |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | فرہنگ نویس ، ادبی نقاد ، محقق |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
شعبۂ عمل | لغت نویسی ، تحقیق ، غالبیات |
ملازمت | اردو لغت بورڈ |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمقدرت نقوی 10 نومبر، 1925ء کو عبد اللہ پور، میرٹھ ضلع، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان اصل نام سید شجاعت علی نقوی تھا[1][2]۔ وہ متعدد تعلیمی اداروں میں بحیثیت معلم وابستہ رہے۔ تقسیم ہند کے بعد 1969ء میں وہ اردو لغت بورڈ کراچی سے بطور مدیر وابستہ ہوئے اور 1985ء تک اس ادارے میں خدمات انجام دیں۔[2]
ادبی خدمات
ترمیمقدرت نقوی غالب پر تحقیق کے حوالے سند تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے غالب کی شخصیت و فن پر کئی اہم کتابیں اور مضامین تحریر کیے جن میں غالبیات، گلِ رعنا، غالب آگہی، غالب شناسی، ہنگامہ دل آشوب، غالب کون ہے؟، غالب صد رنگ، نسخہ شیرانی اور دیگر مقالات اور عظتِ غالب کے نام سر فہرست ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف میں سیرت النبی، رانی کیتکی (ترتیب)، لسانی مقالات (دو جلدیں)، بحر الفصاحت، مطالعہ عبد الحق، ولی کامل اور مقالات قدرت نقوی شامل ہیں۔ انھوں نے راجا راجیشور راؤ اصغر کی مشور ہندی-اردو لغت کو بھی ازسرِ نو مرتب کیا۔[2]
تصانیف
ترمیم- نسخۂ شیرانی اور دوسرے مقالات (غالبیات)
- لسانی مقالات حصہ اول
- لسانی مقالات حصہ دوم
- اُردو-ہندی لغت (ترتیب)
- بحرالفصاحت (ترتیب)
- غالب شناسی (غالبیات)
- گل رعنا (غالبیات)
- غالب صد رنگ (غالبیات)
- غالب آگہی (غالبیات)
- ہنگامۂ دل ِ آشوب (غالبیات)
- غالب کون ہے (غالبیات)
- عظمت غالب (غالبیات)
- لسانی مقالات حصہ اول
- مطالعہ عبد الحق
- رانی کیتکی (ترتیب)
- اساس ِاُردو
- سب رس
- سیرت النبی
- ولی کامل
- مقالات قدرت نقوی
وفات
ترمیمقدرت نقوی 16 دسمبر، 2000ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے اور محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی میں سپردِ خاک ہوئے۔[1][2]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب سید قدرت نقوی، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
- ^ ا ب پ ت عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 869