قرأت
نماز میں دعائے استفتاح (ثناء)کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم شیطان مردود سے اللہ تعالٰیٰ کی پناہ طلب فرماتے تھے۔ اسے تعوذ کہتے ہیں اور اس کی دعا یہ ہے:
” | أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ مِنْ نَفْخِهِ وَنَفْثِهِ وَهَمْزِهِ [1] | “ |
اسے اس طرح پڑھا بھی ثابت ہے:
” | أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ [2] | “ |
اس کے بعد آہستہ آواز کے ساتھ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھنی چاہیے۔[3]
قرأت کا مسنون طریقہ
ترمیمتعوذ اور بسم اللہ (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سورۃ الفاتحۃ کی تلاوت فرماتے تھے۔ تلاوت کا سنت طریقہ یہ ہے کہ قراءت کرتے وقت ہر آیت پر وقف کیا جائے۔ مثال کے طور پر سورۃ الفاتحۃ پڑھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھ کر وقف کرتے، پھر الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ پڑھ کر ٹھہر جاتے۔ پھر الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتے اور ٹھہر جاتے۔ پھرمَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھتے اور اس پر وقف فرماتے تھے اور اسی طرح ایک ایک آیت پر رک کر سورت پوری کرتے تھے۔ یہ معمول صرف سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے لیے ہی نہ تھا بلکہ دوسری سورتوں کی تلاوت کرتے وقت بھی یہی طریقہ ہوتا تھا کہ آیت کے اختتام پر وقف کرتے اور اسے اگلی آیت سے نہیں ملاتے تھے۔[4]
آج کل اکثر قاری اور امام مسجد اس سنت سے ناواقف یا لاپرواہ ہیں بلکہ سامعین بھی اسی قاری کو پسند کرتے ہیں جو گلا پھلا کر ایک ہی سانس میں متعدد آیات پڑھ سکتا ہو۔
ہم معنی سورتوں کو اکٹھا پڑھنا
ترمیمسنت مطہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی کبھارنماز میں ان سورتوں کو ایک ہی رکعت میں پڑھا کرتے تھے جو معانی اور ٕمضمون میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے "مفصل" سورتوں میں سے درج ذیل دو دو سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھیں۔ سورۃ ق یا اس سے اگلی سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ الناس تک کی سورتیں "مفصل" کہلاتی ہیں۔
- { الرَّحْمَن } (55 : 78 ) اور { النَّجْم } (53 : 62)
- { اقْتَرَبَتِ } (54 : 55) اور { الحَاقَّة } (69 : 52)
- { الطُّور } (52 : 49) اور { الذَّارِيَات } (51: 60)
- { إِذَا وَقَعَتِ } (56 : 96) اور { ن } (68 : 52)
- { سَأَلَ سَائِلٌ } (70 : 44) اور { النَّازِعَات } (79 : 46)
- { وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ } (83 : 36) اور { عَبَسَ } (80 : 42)
- { المُدَّثِّر } (74 : 56) اور { المُزَّمِّل } (73 : 20)
- { هَلْ أَتَى } (76 : 31) اور { لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ القِيَامَةِ } (75 : 40)
- { عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ } (78 : 40) اور { المُرْسَلَات } (77 : 50)
- { الدُّخَان } (44 : 59) اور { إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ } (81 : 29) [5]
ترتیب مصحف کا خیال رکھنا افضل ہے، ضروری نہیں
ترمیماس فہرست میں سورت کے نام کے بعد دائیں جانب سورت نمبر اور بائیں جانب اس سورت میں آیات کی تعداد لکھی گئی ہے جس پر غور کرنے سے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انھیں مصحف میں موجود ترتیب کے مطابق نہیں پڑھا جس سے ترتیب کے خلاف پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، لیکن ترتیب کا خیال رکھنا افضل اور بہتر ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تہجد پڑھتے ہوئے سورۃ البقرۃ، سورۃ النساء اور سورۃ آل عمران کو اسی ترتیب سے ایک ہی رکعت میں پڑھا تھا، یعنی سورۃ آل عمران کو سورۃ النساء کے بعد پڑھا جبکہ مصحف میں وہ سورۃ النساء سے پہلے آتی ہے ۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء۔ ارواء الغلیل جلد 2 ص 53۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 273
- ↑ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 775، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رای الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک
- ↑ صحیح بخاری کتاب الاذان باب ما یقول بعد التکبیر
- ↑ سنن ترمذی کتاب القراءات باب فی فاتحۃ الکتاب۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2927
- ↑ صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب ترتیل القراءۃ و اجتناب الھذ، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب تخریب القرآن، صحیح سنن ابی داؤدحدیث نمبر 1262