سورہ ق مکی سورۃ ہے جبکہ اِس کی آیت نمبر 38 وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔

ترجمہ

ترمیم

یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اِس کے درمیان ہے، سب کو (صرف) چھ دِن میں پیدا کر دیا اور ہمیں تھکان نے چھوا تک نہیں O

مقام نزول

ترمیم

سورہ ق کی تمام آیات سوائے آیت نمبر 38 کے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہیں۔ اِس آیت کے نزول کا محل یہ تھا کہ یہود کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد تھکن محسوس کی (معاذ اللہ)۔ یہود چونکہ مدینہ منورہ میں میں اُس کے مضافات میں آباد تھے، اِس لیے یہ آیت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی جس میں اُن کے باطل خیال کا یکسر رد کر دیا گیا۔ یہود کا یہ نظریہ اور خیال یوم السبت کی جانب اشارہ تھا جس میں اُن کے لیے دنیوی کام اور فرائض سر انجام دینے کی ممانعت تھی، سو انھوں نے نعوذ باللہ ہفتہ کے دن کا اشارہ ذات خداوندی سے منسوب کر دیا جو محض جھوٹ کے سواء کچھ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اِس باطل خیال کا رد کر دیا۔

امام ابن منذر نے حضرت ضحاک سے یہ قول بیان کیا ہے کہ یہود نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اِن دنوں میں مخلوق کو پیدا فرمایا، اتوار، پیر، منگل، بدھ، جمعرات اور جمعہ۔ اور ہفتہ کے دن آرام کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:   وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ    [1]

امام عبد الرزاق، امام ابن جریر طبری، امام ابن منذر نے حضرت قتادہ سے روایت کی ہے کہ: یہود نے کہا:  بے شک اللہ تعالیٰ نے چھ دِنوں میں مخلوق کو پیدا فرمایا، جمعہ کے دن تخلیق سے فارغ ہوا اور ہفتہ کے دن اُس نے آرام فرمایا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے اِس قول کو جھٹلاتے ہوئے فرمایا: وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبِِ [1][2]

تفسیر

ترمیم

امام ابن جریر طبری نے حضرت عبداللہ بن عباس سے بیان کیا ہے کہ: لُّغُوْبِِ کا معنی تھکاوٹ ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب جلال الدین السیوطی: تفسیر الدر المنثور، جلد 6، صفحہ 229، سورہ ق، آیت 38۔ مطبوعہ لاہور۔
  2. امام ابن جریر طبری: تفسیر طبری، جلد 26، صفحہ 208۔ مطبوعہ دار احیاء التراث، بیروت، لبنان۔
  3. امام ابن جریر طبری: تفسیر طبری، جلد 26، صفحہ 207۔ مطبوعہ دار احیاء التراث، بیروت، لبنان۔