ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک اہم رہنما اور شاعر (ولادت: 13 جنوری 1887ء -وفات:26 مارچ 1967ء)

پیدائش

ترمیم

لالہ لال چند فلک 13 جنوری 1887ء کو اپنے آبائی وطن حافظ آباد (تب ضلع گوجرانوالہ) میں پیدا ہوئے ۔

تعلیم

ترمیم

ان کے والد کی لاہور میں غلّے اور اناج کی دکان تھی۔ چنانچہ ان کا بچپن اور تعلیمی زمانہ یہیں گذرا۔ 1904ء میں دسویں درجے کی سند حاصل کی۔

ملازمت

ترمیم

اس کے بعد کسبِ معاش کے لیے ملازمت اختیار کی اور چیف انجینئر کے دفتر میں جگہ مل گئی ۔ یہ دہ زمانہ ہے جب انگریز افسر اپنے دلیسی ماتحتوں سے بہت درشتی اور فرعونیت کا برتاؤ کرتے تھے۔ انھوں نے آئے دن اس طرح کے ناخوشگوار حالات دیکھے تو ان کے دل پر بہت اثر ہوا ۔ اس پر وہ ملازمت سے مستعفی ہو گئے اور پھر ساری عمر سرکاری نوکری کے نزدیک نہیں گئے

صحافت

ترمیم

۔کتب فروشی کا کام کیا اور امید بک ایجنسی کے نام سے ایک ایجنسی بھی کھولی ۔ بیزار عرف ہندوستان گزٹ نامی اخبار نکالا۔سردار نرائن پُر دھنی کے اخبار گلنار میں ایڈیٹر ہوئے۔فلک نے اس اخبار کا نام بدل کر ہندی رکھا۔

تحریکی زندگی

ترمیم

کانگریس کی سیاسی تحریک اب روز بروز تیز تر ہو رہی تھی۔ لال چند فلک بھی اس میں شامل ہو گئے ۔ پُرجوش تقریریں اور نظمیں پڑھنے لگے۔ نوبت قید و بند تک پہنچی۔ جون 1917ء میں بجرم بغاوت 20 سال کے لیے کالے پانی (جزیرہ انڈیمان) کی سزا ہوئی جو بعد کو 14 سال کی قید میں تبدیل کر دی گئی ۔ لیکن جب 1920ء میں دستوری اصلاحات کا نفاذ ہوا تو تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے گئے، اسی میں انھیں بھی رہائی ملی لیکن ان کا نشہ ایسا نہیں تھا کہ تعزیر و تعذیب کی ترشی اُسے اتار دیتی۔ ان کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ۔

شعر و ادب

ترمیم

شعر پر اصلاح منشی دوار کا پر شاد افق لکھنوی سے لی۔ اسی زمانے میں ان کی قومی نظموں کے متعدد مجموعے شائع ہوئے تھے جام فلک ، پیام فلک کلام فلک۔ مہا بھارت بھی بطرزِ ناول نثر میں لکھی تھی ۔ ان کا یہ مصرع ضرب المثل بن چکا ہے .

  • تو کبھی بدل، فلک کہ زمانہ بدل گیا

1904ء میں شعر گوئی کی ابتدا ہوئی۔منشی دوارکا پرشاد صاحب افق لکھنوی سے مشورہ سخن کیا۔25 سے زیادہ کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔مہا بھارت کو ناول کی شکل میں لکھا۔ان کی شاعری کی پزیرائی کرنے والوں میں دتا تریہ کیفی ،علامہ اقبال اور آغا شاعر قزلباش کے نام قابل ذکر ہیں ۔ کئی فلموں کے گیت بھی لکھے،

نمونہ کلام

ترمیم

ان کا کلام آپ بیتی اور دلی جذبات کا آمیز ہے۔

  • آگ میں پڑ کر بھی سونے کی دمک جاتی نہیں
  • کاٹ دینے سے بھی ہیرے کی چمک جاتی نہیں

سِل پر گھس دینے سے بھی جاتی نہیں چندن کی بو

  • پھول کی، مٹی میں مل کر بھی ، مہک جاتی نہیں
  • رنج میں آتا نہیں نیکوں کی پیشانی پر بل
  • دھوپ کی تیزی میں سبزے کی لہک جاتی نہیں
  • جا نہیں سکتی کٹہروں میں بھی شیروں کی دھاڑ
  • دست گلچیں میں بھی غنچوں کی چٹک جاتی نہیں
  • صاحبِ ہمت نہیں دبتا مخالف سے کبھی
  • زو ر سے آندھی کے آتش کی بھڑک جاتی نہیں
  • نعرہ زن رہتا ہے آفات و حوادث میں دلیر
  • بادلوں میں گھر کے بجلی کی کڑک جاتی نہیں
  • ملک کی الفت کا جذبہ دل سے مٹ سکتا نہیں
  • قوم کی خدمت کی خواہش اے فلک جاتی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
  • میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
  • میں اٹھالوں گا بڑے شوق سے اس کو سر پر
  • خاک اڑانے کے لیے باد صبا آئے گی
  • زندگانی میں تو ملنے سے جھجکتی ہے فلک!
  • خلق کو یاد مری بعد فنا آئے گی

۔۔۔۔۔۔۔۔

  • وطن کی پھانس جس دل میں گڑی ہے
  • خوشی سے وہ اٹھا تا ہر کڑی ہے
  • محن کا ابر ہے رحمت کا بادل
  • گھٹا آفت کی ، ساون کی جھڑی ہے[1]

وفات

ترمیم

اس بزرگ قوم پرست شاعر کا 26 مارچ 1967ء کو دلی میں انتقال ہوا۔ 80 سال کی عمر پائی۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ماخوذ از تذکرۂ معاصرین، مصنف:مالک رام
  2. ماخوذ از تذکرۂ معاصرین، مصنف:مالک رام