لوہڑی کا تہوار مشرقی و مغربی پنجاب، راجستھان، ہریانہ اور دلی میں منایا جاتا ہے۔

لوہڑی
لوہٹری کے دوران میں روشن الاؤ
عرفیتلال لوئی
منانے والےسکھ، ہندو، مسلمان
قسممذہبی اور ثقافتی
اہمیتوَسط سرما تہوار، سرما کے انقلاب شمسی کا جشن
تقریباتالاؤ، موسیقی اور رقص (بھنگڑا اور گدا )
تاریخمگھی (مکر سنکرانتی)، 13 جنوری سے ایک رات پہلے
منسلکمگھیمکر سنکرانتی اگلے دن منائی جاتی ہے

تاریخ

ترمیم

لوہڑی کے تہوار کے شروعات کے حوالے سے کئی روایتیں ہیں۔

ہر سال جنوری کے تقریباً وسط میں 13 تاریخ کو انڈیا اور پاکستان کے پنجاب میں اور کشمیر سمیت دیگر کچھ علاقوں میں سردیوں کے خاتمے اور نئے موسم کے لمبے دنوں کی آمد کی خوشی کا ایک تہوار منایا جاتا ہے جس کا نام لوہڑی ہے۔

بسنت اور بیساکھی کی طرح پنجابی کیلینڈر کا یہ بھی ایک اہم تہوار ہے اور بہت سے دوسرے تہواروں کی طرح یہ بھی موسم کے بدلنے اور فصلوں سے جڑا ہوا ہے۔[1]

یہ تہوار الاؤ جلا کر، تہوار کا کھانا کھانے، ناچنے اور تحائف جمع کر کے منایا جاتا ہے۔ جن گھروں میں حال ہی میں شادی یا بچے کی پیدائش ہوئی ہے، ان میں لوہڑی کی تقریبات انتہائی جوش و خروش تک پہنچ جائیں گی۔ زیادہ تر شمالی ہندوستانی عام طور پر اپنے گھروں میں نجی لوہڑی مناتے ہیں۔ لوہڑی کی رسومات خاص لوہڑی گانوں کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔[2]

لوہڑی پنجاب کا ایک قدیم تہوار ہے۔ سرحد پار یہ تہوار دیگر علاقوں میں بھی منایا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں میں اس کا نام بھی مختلف ہے جیسا کہ پونگل، سنکرانتی، کھچڑی، ہاڈاگا، اگاڈی، ماگھ بیہو، اونم وغیرہ۔ لوہڑی کے تہوار سے بہت سے واقعات منسوب ہیں۔ بعض اسے ہندو مذہب کے ساتھ مخصوص بھی کرتے ہیں۔ ہندو مذہب میں یہ تہوار سورج دیوتا سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن پنجاب میں یہ زیادہ تر بطور موسمی تہوار منایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل متحدہ پنجاب میں یہ تہوار ہندو و مسلم سبھی مناتے تھے۔ لوہڑی بدلتے موسم کا سندیس ہے۔ پنجاب میں یہ تہوار عموماً دیسی مہینے پوہ کے آخری دن یا گنے کی فصل کی کٹائی کے موسم میں منایا جاتا ہے۔[3]

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ تہوار سرمائی انقلاب شمسی کے بعد دن بڑے ہونے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔

دلا بھٹی کا واقعہ

ترمیم

اس تہوار سے ایک واقعہ یوں بھی منسوب ہے کہ مغل بادشاہ، شہنشاہ جلال الدین اکبر کے اہل کار نے خوبصورت ہندو لڑکی کو اغوا کرکے حرم میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تھا، دلا بھٹی جو اس وقت کا باغی تھا کو اطلاع ملی تو وہ لڑکی کو جنگل میں اپنی پناہ گاہ میں لے گیا ، وہاں ایک ہندو لڑکے کے ساتھ اس کی شادی کی، اس شادی میں نہ لڑکی کے ماں باپ تھے اور نہ پنڈت یا ہندو گرو، دلے نے خود آگ جلائی، خود ہی باپ بن کر کنہیا دان کیا اور خود ہی پنڈت بنا، دلے نے لڑکی کو ایک سیر شکر اور تلوں کا تحفہ دیا، مسلمان دلے بھٹی کو شادی کے منتر نہیں آتے تھے سو پھیروں کے دوران یہ پڑھنا شروع کیا، جسے لوہڑی کا گیت کہتے ہیں

سندر مں درئیے (خوبصورت لڑکی ) تیرا کون وچارا (تمھارے متعلق کون سوچتا ہے؟ ) دلّا بھٹی والا ( بھٹی قبیلے کا دلا ) دلے دھی وہائ (دلے نے بیٹی کی شادی کی ) سیر شکر پائی (اسے ایک سیر شکر دی ) کڑی دا لال پٹاکا (لڑکی نے سرخ کپڑے پہن رکھے ہیں ) کڑی دا سالو پاٹا (لڑکی کی شال پھٹی ہوئی ہے ) پنجابی مسلمان، ہندو اور سکھ پورا سال لوہڑی کا انتظار کرتے ہیں، لوہڑی والے دن بچے لوہڑی گاتے ہوئے گھر گھر جاتے ہیں اور ٹافیاں، مٹھائیاں اور پیسے لیتے ہیں، شام کے وقت آگ کے گرد دلے بھٹی کی یاد میں لوہڑی کے گیت گائے جاتے ہیں،[4]

رسوم و روایات

ترمیم

اس تہوار کو “ لال لوئی“ بھی کہا جاتا ہے اور سنت کبیر کی بیوی لوئی سے جوڑا جاتا ہے، جبکہ ہندو اس کو سورج دیوتا سے بھی جوڑتے ہیں اور بڑے دنوں کے آغاز میں اس کا اہتمام کرتے ہیں، آگ جلا کر سورج کی گرمی اور تپش کو دوبارہ خوش آمدید کہا جاتا ہے اور لو“ کا مطلب روشنی اور آگ کا سیک لیا جاتا ہے اور آگ جلا کر تل اور ریوڑیاں کا میٹھا کھایا جاتا ہے، اسی لیے بعض کے نزدیک اس تہوار کا پہلا نام تل اور ریوڑیوں کے ملاپ سے تلوہڑی تھا ، جو بعد میں لوہڑی ہو گیا، جبکہ ایک اور مزے کی چیز جو اس سے جڑی ہے ، جس گھر بچے کا جنم ہو، وہ اسے بچے کی پہلی لوہڑی (لوری) کے طور پر بہت جوش سے مناتے ہیں مگر جو بھی ہو ایک تہوار جو کسان کی خوشی ، فصل کٹائی، پنجاب کی ثقافت کے ساتھ ساتھ اس خطے کے تینوں بڑے مذاہب سے بھی جڑا ہے

پنجاب میں لوہڑی کے لفظ کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ تلہوڑی کی اختراع ہے یا اس سے ہی بنا ہے کیونکہ اس تہوار میں میٹھی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر وہی کھائی جاتی ہیں اس لیے یہ لفظ بھی اسی مناسبت سے ہے۔ پنجاب میں میٹھے گڑ اور ریوڑھیوں پر اکثر تل لگایا جاتا ہے اور کبھی دونوں کو ملا کر تلہوڑی کہا جاتا تھا، جو چھوٹا ہوتا ہوتا لوہڑی بن گیا یعنی تل اور ریوڑھی سے تلہوڑی بنا اور پھر لوہڑی۔

مطلب جو بھی ہے اس لفظ میں تقریباً مٹھاس ضرور سموئی ہوئی لگتی ہے۔[5] اس تہوار کو آگ کے آلاؤ کے گرد منایا جاتا ہے۔ جس طرح قدیم زمانوں میں بھی جشن آگ کے آلاؤ کے گرد منائے جاتے تھے اسی طرح لوہڑی میں بھی آگ کا آلاؤ ایک لازمی جز ہے۔

اور کیونکہ اس کی جڑیں پنجاب میں ہیں، اسی لیے اس کے ساتھ گنا، شکر، گڑ اور گچک یا ان سے بنی ہوئی چیزیں بھی جڑی ہوئی ہیں جو اس مٹی کا خاصہ ہیں۔ جنوری میں لوہڑی کے ساتھ ہی گنے کی فصل کا جشن منایا جاتا ہے اور گھروں میں سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹیاں بنتی ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم