دلا بھٹی

پنجاب کا رابن ہڈ جس نے اکبر بادشاہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا

رائے عبد اللہ خاں بھٹی جٹ شہید ( Rai Abdullah Khan Bhatti جسے عام طور پر دُلا بھٹی (پنجابی: شاہ مکھی دُلّا بھٹى‎، پنجابی: گرمکھی ਦੁੱਲਾ ਭੱਟੀ‎) یا پنجاب کے سورما کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، خطۂ پنجاب سے ایک مشہور داستانوی مسلمان جٹ تھا جس نے ظالم مغل حکمران اکبر کے دور میں منگولوں کی نسل مغلوں کے خلاف بغاوت کی قیادت کی۔[1] وہ ایک عظیم جنگجو تھا۔ اس نے شرابی اور عیاش جلال الدین اکبر کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔ اور انصاف کا علم اٹھایا۔ اسے شیر پنجاب اور سورما پنجاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

دلا بھٹی
میانی صاحب قبرستان میں دلا بھٹی کی آخری آرام گاہ۔ لاہور
پیدائشوسط سولہویں صدی
ساندل بار, پنجاب, مغلیہ سلطنت
(موجودہ پاکستان)
وفات26 مارچ 1599ء
لاہور, پنجاب, مغلیہ سلطنت
(موجودہ پاکستان)

ابتدائی زندگی

ترمیم

دلا بھٹی پنجاب کے علاقے ساندل بار سے تھا۔ وہ جٹ مسلمان[2] تھا اور زمیندار طبقے کے موروثی مقامی دیہی سرداروں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ دلا بھٹی کا خاندان آج بھی اپنے آپ کو جٹ کہتا ہے اور وہ بھٹنیر (راجھستان) کو اپنا آبائی علاقہ مانتے ہیں۔[3] اس کے والد فرید بھٹی اور دادا بجلی ساندل بھٹی [ا] کو اکبر کے نافذ کردہ دینِ الٰہی کی مخالفت کی پاداش میں (یہ غلط ہے کہ زمین کی مرکزی مالگذاری قوانین کی مخالفت پر) سزائے موت دی گئی تھی۔ دلا بھٹی کی پیدائش اپنے والد کی وفات کے 12 دن بعد ہوئی۔ [5] اس کی والدہ کا نام لدھی تھا۔

وفات

ترمیم

آخر کار دلا بھٹی کو گرفتار کر لیا گیا اور 26 مارچ1599ء میں اسے لاہور میں پھانسی دی گئی۔ اکبر کے خیال میں اسے سر عام پھانسی عوام کے لیے ایک مثال بنانے کے لیے تھی کہ تختہ دار پر موت کا خوف دیگر مزاحمت کاروں کی ہمت توڑ دے گا، لیکن دلا بھٹی بہت ثابت قدم ثابت ہوا۔ شاہ حسین صوفی شاعر نے اس کے آخری الفاظ کو اس طرح بیان کیا۔ "پنجاب کا کوئی غیرت مند بیٹا کبھی پنجاب کی سرزمین کو فروخت نہیں کرے گا" [6][7]

میراث

ترمیم

دلا بھٹی کا ذکر آج بھی پنجابی لوک شاعری اور موسیقی میں ملتا ہے۔ [8] سالانہ لوہڑی میلہ میں آج بھی اس کا تذکرہ لڑکیوں کے محافظ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ [9] اس کی زندگی سے متاثر اہم جدید ادب میں نجم حسین سید کا ڈراما تخت لاہور مشہور ہے۔ [10] اس کے علاوہ اس کی زندگی پر 1956ء میں بنائی گئی شہرہ آفاق فلم دلا بھٹی بھی ہے۔ اسد سلیم شیخ اور سی سید علی ثانی جیلانی نے ان کی سوانح پر مستقل کتاب لکھی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Horace Arthur Rose، Sir Denzil Ibbetson (1911)۔ A Glossary of the Tribes and Castes of the Punjab and North-West Frontier Province: Based on the Census Report for the Punjab, 1883 (بزبان انگریزی)۔ superintendent, Government printing, Punjab 
  2. Ahsan (1996), p. 120
  3. "Interview of Dulla Bhatti's Descendant"۔ January 16 ,2022 
  4. Singh (2008), p. 106
  5. Gaur (2008), pp. 34, 37
  6. Gaur (2008), p. 37
  7. Ayres (2009), p. 76
  8. Singh (1997), p. 448
  9. Purewal (2010), p. 83
  10. van Erven (1992), p. 174
  1. Surinder Singh's analysis of regional folklore names Bhatti's grandfather as Sandal and suggests the possibility, given the influence that he had in the region, that the area of ساندل بار is named after him.[4]

کتابیات

ترمیم