لیلیٰ خالد (انگریزی: Leila Khaled) فلسطینی پناہ گزین[2]اور پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلیسطین کی رکن ہیں۔وہ دنیا کی پہلی خاتون ہائی جیکر ہیں۔ ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ کی مختلف کارروائیوں کے د وران انھوں نے 6 بار پلاسٹک سرجری کرائی۔انھوں نے ایک بار نہیں بلکہ دو بار جہاز ہائی جیک کیے۔

لیلیٰ خالد
(عربی میں: ليلى خالد ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش (1944-04-09) اپریل 9, 1944 (عمر 80 برس)
حیفا، انتداب فلسطین
قومیت فلسطینی قوم
رکنیت ملی مجلس فلسطین   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  سیاسی کارکن   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فرانسیسی [1]،  عربی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تنظیم Popular Front for the Liberation of Palestine
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

لیلی خالد نے بچپن میں ہی فلسطین کی آزادی تحریک میں شمولیت اخیتار کر لی تھی۔ جلد ہی وہ اس تحریک کی محترک کارکن بن گئی۔

ہائی جیکنگ کی کارروائیاں

ترمیم

لیلیٰ خالد اور ان کے ساتھیوں نے 1968ء اور1971ء کے درمیانی عرصے میں 4 جہازاغوا کیے۔ فلسطین لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد لیلیٰ خالد نے پہلاجہاز 29اگست 1969ء کو اغوا کیا یہ بوئنگ 707جہاز تھا۔ یہ جہاز اٹلی سے اسرائیل کے دالحکومت تل ابیب جا رہا تھا۔ اطلاع یہ تھی کہ اسرائیل کے وزیر اعظم اضحاک رابن بھی اس فلائیٹ کے مسافروں میں شامل ہیں جہاز ایشیا کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی نقاب پوش لیلیٰ خالد نے جہاز کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔لیلی نے پائیلٹ کو حکم دیاکہ فلسطینی شہر حیفہ کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے جہاز کا رخ دمشق کی طرف موڑے تاکہ وہ دمشق جانے سے پہلے اپنی جائے پیدائش، وطن مالوف حیفہ کو دیکھنا چاہتی ہوں۔پائیلٹ نے حکم کی تعمیل کی۔ جہاز دمشق میں اتار لیا گیا۔ مسافروں کو یرغمال بناکرفلسطین کی آزادی کا مطالبہ کی گیا۔ پوری دنیا کی توجہ فلسطینیوں پر صیہونی مظالم کیطرف مبذول ہوئی۔ مذاکرات کے بعد اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ہائی جیکروں کی بحفاظت واپسی کی شرائط پر تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔

شہرت

ترمیم

دنیا بھر کے ٹیلی وژن چینلوں اور اخباراتنے لیلیٰ خالد کے بہت سے انٹر ویو نشر اور شائع کیے۔ وہ عالم اسلام کی آنکھ کا تارا بن گئی۔ اُن کی تصویروں کو اتنی شہرت ملی جو اس سے پہلے کسی مسلمان خاتون کو نہیں ملی تھی۔مقبولیت کا یہ حال تھا کہ یورپ میں رہنے والی لڑکیوں نے اس کے اسٹائل کو بالوں سے لے کر سکارف اور لیلی جو انگوٹھی پہنتی تھی اپنایا، اس کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی ہوا کرتی تھی جس میں کوئی پتھرنہیں گولی جڑی ہوئی تھی۔ پہلی ہائی جیکنگ کے بعد اس نے اُوپر تلے چھ بار پلاسٹک سرجری کروائی اور اپنی صورت مکمل طور پر تبدیل کر لی۔

گرفتاری اور رہائی

ترمیم

6 ستمبر 1970ء کو لیلیٰ خالد نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر ایمسٹرڈیم سے نیویارک جانے والی پرواز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ اس طیارے کو برطانیہ کے ایک ائرپرپورٹ پر اتار لیا گیا۔ لیلیٰ کے ساتھی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ ایک مہینہ بھی نہیں گذرا تھا کہ فلسطینی جانبازوں نے ایک اور طیارہ اغوا کیا۔ مسافروں کو یرغمال بنایا۔ مذاکرات کی میز پر لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ یوں لیلیٰ خالد کو قید سے رہائی ملی۔

خود نوشت اور فلم

ترمیم

انھوں نے My people shall live (میرے لوگ زندہ رہیں!) کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی لکھی ہے۔یہ کتاب 1973ء میں شائع ہوئی جب کہ لیلیٰ خالد کی زندگی پر فلم 2005ء میں بنی۔ فلم کا نام "Leila Khaled Hijacker" ہے اور ا سے ایمسٹرڈم کے فلمی میلے میں بڑی پزیرائی ملی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 22 مئی 2020
  2. "'I Had to Be the Voice of Women': The First Female Hijacker Shares Her Story"۔ VICE۔ اگست 29, 1969۔ اخذ شدہ بتاریخ ستمبر 20, 2020