المبسوط (الاصل فی الفروع) یہ کتاب قاضی ابو یوسف کی تصنیف ہے جن کے مسائل کو امام محمد نے زیادہ توضیح اور خوبی سے لکھا ہے۔

مصنف ترمیم

اس کتاب کو الاصل فی الفروع بھی کہا جاتا ہے جو امام محمد بن حسن شیبانی نے لکھی یہ کتاب ظاہر روایت کی 6 کتابوں کا حصہ بھی ہے

اصل کہنے کی وجہ ترمیم

کتاب الاصل کے نام سے مشہور ہے۔ اس کو "اصل"اس لیے کہا جاتاہے کہ امام محمد نے سب سے پہلے اسی کو تصنیف کیا۔ اس میں آپ نے سینکڑوں مسائل سے متعلقہ امام اعظم ابوحنیفہ کے فتاویٰ جات جمع کیے ہیں نیز ایسے مسائل بھی ذکر کیے ہیں جو ان کے اور امام ابویوسف کے درمیان میں اختلافی ہیں۔ اور جس مسئلے میں امام محمد نے اختلاف ذکر نہیں کیا وہ سب کا متفقہ ہوتاہے۔

المبسوط کا اسلوب ترمیم

امام محمد نے اپنی اس تصنیف میں فقہی مسائل کے موضوعات کے لحاظ سے ابواب قائم کرنے کا اسلوب اختیار کیا جب وہ ایک موضوع کے مسائل مکمل طور پر بیان کر دیتے ہیں تو اسے کتاب کا نام دیتے ہیں مثلا کتاب الصلاۃ کتاب الزکاۃ، کتاب الرہن کتاب الشفعہ وغیرہ جب ان مختلف کتب کو جمع کرکے ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا گیا تو تصانیف کا ایک مجموعہ وجود میں آگیا یہ مجموعہ فقہی ابواب کی تفریعاتو تفاصیل پر مشتمل تھالہذا متفرق کتب کے اس کامل مجموعہ کا نام المبسوط رکھ دیا گیا اسی بنا پر فقہا اس کا تذکرہ دو طرح سے کرتے ہیں بعض اوقات وہ اسے ایک کتاب سے اور بعض اوقات اسے مجموعہ کتب سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ امام محمد نے کتاب العاریہ میں فرمایا یا امام محمد نے کتاب الودیعہ میں فرمایا تو اس سے ان کی مراد المبسوط کے مجموعہ کتب میں سے ایک کتاب ہوتی ہے۔

المبسوط کی خصوصیات ترمیم

  • المبسوط کی نمایاں خصوصیات میں سے یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کا مسلک امام ابو یوسف کا مسلک اور امام محمد اپنے مسلک کی وضاحت کر تے ہیں اور ساتھ ہی بتا دیا جس مسئلہ میں کسی اختلاف کا ذکر نہ ہو تو سمجھ لیا جائے کہ وہ ہم سب کا مسلک ہے۔
  • امام محمد نے المبسوط میں شیخین( امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف) اپنے مذہب کے مطابق فروعی مسائل بیان کیے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ابن ابی لیلی، زفر بن حسن اور اہل مدینہ کی آراء بھی بیان کی ہیں اگرچہ ان حضرات کی آراء کا حصہ بہت تھوڑا ہے
  • المبسوط میں تمام فقہا کی آراء اور اپنی خاص آراء کو صرف تحریر کر دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اس کے بعد آپ یہ آراء قبول کر لیتے ہیں یا انھیں مسترد کر دیتے ہیں
  • اپنے مناقشات و تعلیلات کے دوران میں اس حکم کی وجہ بیان کرنے کے لیے جس سے وہ مناسب سمجھتے ہیں نظائر واشباہ بیان کرنے کا خاص اہتمام کرتے ہیں یہی منہج و اسلوب آپ کی تمام تصنیفات میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے
  • اس کتاب کی اتنی بڑی ضخامت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ جن فقہی فروع پر مشتمل ہے ان کی غالب اکثریت فرضی مسائل پر مشتمل ہے
  • امام ابو حنیفہ کے تلامذہ نے امام ابو حنیفہ کے طریقہ کی پیروی کی جس میں وہ فقہ تقدیری (فرضی مسائل پر مشتمل فقہ)بیان کرتے ہیں جو ابھی وقوع پزیر نہیں ہوئے بلکہ ممکن الوقوع تھے
  • المبسوط میں دیگر کتابوں کی طرح فقہ تقدیری کے مسائل جگہ جگہ بکھرے ہوئے نہیں بلکہ وحدت موضوع وفرضیت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں ان کا باہمی ربط اور عقلی تسلسل ایسا ہے کہ ہر مسئلہ اپنے بعد آنے والے مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ایک ایک مسئلہ اپنی ممکنہ صورتوں کے لحاظ سے مذکور ہے
  • المبسوط کے دلائل کبھی تو کتب کی شروع میں مذکور ہوتے ہیں اور کبھی فصول و ابواب کی درجہ بندی کرتے وقت مذکور ہوتے ہیں
  • المبسوط میں اکثر وہ دلائل اور مسائل بیان ہوئے ہیں کہ جن کے بارے میں جمہور فقہا دلیل بیان نہیں کرتے
  • المبسوط میں بعض صحابہ اور فقہا تابعین کی آراء کی طرف آپ کا اشارہ کرنا بھی دلائل کی قسم میں سے ہے صحابہ و تابعین میں عمر بن الخطاب علی بن ابی طالب عبد اللہ بن عباس انس بن مالک عبد اللہ بن مسعودابراہیم نخعی اور سعید بن جبیرشامل ہیں

فقہ حنفی میں مقام ترمیم

جہاں فقہ حنفی کی کتابوں میں مطلق مبسوط کا حوالہ ہو اس سے مراد امام محمد کی مبسوط ہو گی اور جہاں ہدایہ کی شرح میں مبسوط ہو گا اس سے مراد شمس الائمہ محمد بن احمد بن ابی سہل السرخسی کی مبسوط ہوگی، اس کی کئی شروحات لکھی گئیں جیسے شیخ الاسلام بکر المعروف خواہر زادہ نے شرح لکھی جسے مبسوط کبیر کہا جاتا ہے اس کے علاوہ شمس الائمہ حلوانی نے بھی شرح لکھی۔[1] (الاصل فی الفروع): کے نام سے نسخہ ترکی کے شہر استنبول میں موجود ہے، دوسرا نسخہ جامع ازہر میں بھی موجود ہے لیکن ناقص ہے۔ استنبول والے نسخہ کی چھ جلدیں ہیں جن میں سے چار جلدیں دائرہ معارف العثمانیہ حیدرآباد سے شائع ہو چکی ہیں جو کتاب المعاقل پر ختم ہوتی ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. مؤطا امام محمد، امام محمد بن حسن شیبانی، صفحہ 33، فرید بکسٹال لاہور