مجذر بن زیاد غزوہ بدر میں شامل انصاری صحابی ہیں۔

مجذر بن زیاد
معلومات شخصیت

نام ونسب ترمیم

عبد اللہ نام، مجذرلقب، قبیلۂ بلی سے ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے:مجذر بن ذیاد بن عمرو بن اخرم بن عمرو بن عمارہ بن مالک بن عمرو بن تیثرہ بن شنو بن قشر بن تیمی بن عود مناہ بن باح بن تمیم بن اراسہ بن عامر بن عبیلہ بن غیل بن فران بن بلی

اسلام ترمیم

غالباً ہجرت کے بعد اسلام لائے۔

غزوات ترمیم

غزوۂ بدر میں شرکت کی ابو البحتری مکہ میں ایک نہایت رحمدل اورنیک نفس شخص تھا، قیام مکہ کے زمانہ میں آنحضرتﷺ کو قریش کے ہاتھوں جو تکلیفیں پہنچتیں تو وہ آنحضرتﷺ کی طرف سے سینہ سپر ہوتا، بنو ہاشم کے مقاطعہ کا جو عہد نامہ لکھ کر کعبہ میں آویزاں کیا گیا تھا،اس کو اتروانے میں ابو البحتری کا خاص حصہ تھا، اس بنا پر آنحضرتﷺ نے غزوہ بدر میں صحابہ کو تاکید کردی تھی کہ اس کو پانا تو قتل نہ کرنا، مجذر میدان میں آئے تو اس سے سامنا ہو گیا، اونٹ پر سوار تھا، پیچھے ایک دوسرا شخص بھی بیٹھا تھا جو اس کے مال و متاع کا نگران تھا، مجذرنے کہا کہ تمھارے قتل کی رسول اللہ ﷺ نے ممانعت کی ہے؛ لیکن دوسرے شخص کے لیے کوئی ہدایت نہیں فرمائی ہے اس لیے اس کو تو کسی طرح نہ چھوڑوں گا، ابو البحتری بولا یہ تو میرے لیے بڑے شرم کی بات ہوگی کہ اس کو تو قتل کرادوں اورخود زندہ رہوں، یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا، قریش کی عورتیں طعنہ دیں گی کہ جینے کی بڑی ہوس تھی، ساتھی کو قتل کرادیا،اورخود نہ مرگیا، غرض اونٹ سے اترا اورداد شجاعت دیتے ہوئے جان دی، مجذر آنحضرتﷺ کی خدمت میں آئے اور قسم کھا کر کہا کہ میں اس کو لانا چاہتا تھا، لیکن وہ لڑائی کے سوا کسی چیز پر راضی نہ ہوا۔

وفات ترمیم

بدر کے بعد احد میں شریک ہوئے، اورجام شہادت نوش فرمایا،ایام جاہلیت میں انھوں نے سوید بن صامت کو قتل کیا تھا، جس سے جنگ بعاث کی نوبت آئی تھی،فریقین کے مسلمان ہوجانے کے بعد اگرچہ معاملہ رفت وگذشت ہو گیا تھا، لیکن سوید کے بیٹے حارث بن سوید کے دل میں مسلمان ہونے کے بعد ان کی طرف سے غبار تھا، اس نے موقع پاکر ان کو اپنے باپ کے عوض قتل کر دیا اورمرتد ہوکر مکہ چلا گیا، میں جب مکہ فتح ہوا تو دوبارہ مسلمان ہوکر آنحضرتﷺ کے پاس آیا، آنحضرتﷺ نے مجذر کے عوض اس کے قتل کا حکم دیا۔[1][2]

حوالہ جات ترمیم

  1. اسد الغابہ جلد3 صفحہ116حصہ ہشتم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
  2. اصحاب بدر،صفحہ 191،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور