مجموعہ تعزیرات پاکستان

مجموعہ تعزیرات پاکستان کا بنیادی ماخذ تعزیرات ہند ہے۔ یہ فوجداری قوانین کا ایک جامع مجموعہ ہے جس کا مقصد قانون فوجداری کے تمام اہم مسائل کا احاطہ کرنا ہے۔ اس قانون کا مسودہ 1860ء میں تیار کیا گیا تھا جس کے پیچھے برطانوی بھارت کے پہلے قانونی کمیشن کی سفارشات کارفرما تھیں۔ یہ کمیشن 1834ء میں چارٹر ایکٹ 1833ء کے تحت تھامس بابنگٹن میکالے کی صدارت میں قائم ہوا تھا۔[1][2][3] یہ فوجداری قانون برطانوی بھارت میں 1862ء نافذ کیا گیا۔ تاہم یہ قوانین نوابی ریاستوں میں نافذ نہیں کیے گئے، اس کی بجائے ان کے پاس 1940ء کی دہائی تک ان کی اپنی عدالتیں اور قانونی نظام تھے۔ تعزیرات ہند ہی پر مبنی جموں و کشمیر میں ایک علاحدہ ضابطہ فوجداری نافذ کیا گیا جسے رنبیر ضابطہ تعزیرات کہا جاتا ہے۔

Pakistan Penal Code
مجموعہ تعزیرات پاکستان
تاریخ1947
مصنفتھامس بابنگٹن میکالے

انگریزوں کی واپسی کے بعد، تعزیرات ہند پاکستان کو ورثے میں ملا۔ بعد ازاں ان تعزیرات میں اسلامی قوانین فوجداری کی متعدد دفعات بھی شامل کی گئیں۔

مختلف سزائیں ترمیم

قتل ترمیم

تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 قتلِ عمد میں عائد کی جاتی ہے جس کے تحت دو طرح کی سزائیں ممکن ہیں: (الف) قصاص: یہ ایک اسلامی سزا ہے جس کے تحت ریاست کو اختیار ہے کہ مقتول کی جان بدلے قاتل کی جان لے لی جائے۔ (ب) عمرقید: اگر قتل کے ثبوت ناکافی ہوں یا کسی مخصوص حالات کے تحت مجرم کو قصاص کی بجائے عمر قید کی سزا دی جاتی ہے جو عموماً 14 سال کی ہوتی ہے لیکن 25سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔[4]

جنسی زیادتی یا آبروریزی ترمیم

دفعہ 367 کے تحت جنسی تشدد کو بڑا جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کی دو طرح کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ قانون کے مطابق زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرم کو سزائے موت یا کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ سزا کی میعاد کا تعین کیس کی نوعیت پر ہوتا ہے اور مجرم پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اجتماعی زیادتی کی صورت میں ملوث تمام تر افراد کو سزائے موت یا عمرقید کی سزا دی جا سکتی ہے۔[4]

ڈکیتی ترمیم

دفعہ 392 کے تحت کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال کی سزا ڈکیتوں کو دی جا سکتی ہے۔ سزاکی میعاد کا تعین واردات کی سنگینی کی نوعیت پر ہوتا ہے۔[4]

بھتہ خوری ترمیم

دفعہ 384 کے تحت اس کی سزا تین سال قید یا جرمانہ یا بیک وقت دونوں ہے۔[4]

توہینِ مذہب ترمیم

دفعہ 295 بی اور 295 سی کے تحت اس جرم کی سزا دی جاتی ہے۔ دفعہ 295 بی کے تحت توہینِ قرآن کے مجرم کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ توہینِ رسالت کے مجرم کو دفعہ 295 سی کے تحت سزائے موت، عمر قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

بجلی اور گیس کی چوری ترمیم

دفعہ 379 کے تحت بجلی اور گیس کی چوری کا ارتکاب کرنے والوں کو تین سال قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے اور بعض صورتوں میں دونوں سزائیں عائد ہوتی ہیں۔[4]

انسانی اسمگلنگ ترمیم

تعزیراتِ پاکستان کے تحت اس جرم میں ملوث افراد کو کم سے کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال کی سزا اور بھاری جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. Universal's Guide to Judicial Service Examination۔ Universal Law Publishing۔ صفحہ: 2۔ ISBN 9350350297 
  2. Krishan Lal Kalla۔ The Literary Heritage of Kashmir۔ Jammu and Kashmir: Mittal Publications۔ صفحہ: 75۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2014 
  3. "Law Commission of India - Early Beg۔innings"۔ Law Commission of India۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2014 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث -تحت-مختلف-جرائم-کی/ تعزیراتِ پاکستان کے تحت مختلف جرائم کی سزائیں [مردہ ربط]