محمد بن ابراہیم فرازی
محمد بن ابراہیم الفزاری (پیدائش: 746ء— وفات: 806ء) مسلم فلسفی، ریاضی دان اور ماہر فلکیات تھا۔
محمد بن ابراہیم فرازی | |
---|---|
(عربی میں: محمد الفزاري) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 746ء [1] کوفہ |
وفات | سنہ 806ء (59–60 سال)[1] بغداد |
شہریت | دولت عباسیہ |
والد | ابراھیم الفزاری |
عملی زندگی | |
پیشہ | ماہر فلکیات ، ریاضی دان ، مترجم |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیممحمد بن ابراہیم فرازی 746ء میں پیدا ہوا۔ اُس وقت تک اُموی خلافت کا چراغ گل نہیں ہوا تھا۔ فرازی ابھی چار برس ہی کا تھا کہ بساط سیاست پر ایک زبردست انقلاب رونما ہوا۔ مسند خلافت بنو اُمیہ سے بنو عباس کو منتقل ہو گئی۔ اس خاندان کا پہلا خلیفہ ابو االعباس السفاح تھا۔ صرف چار سال خلافت کے فرائض انجام دے کر وہ فوت ہو گیا اور 754ءمیں اس کابھائی ابو جعفر منصور خلیفہ بنا۔ وہ خود زبردست عالم تھا اور علما و فضلا کی بے حد قدر کرتا تھا۔ اُس کا شمار اویان حدیث میں کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے علم ہیئت سے بھی خاص لگائو تھا۔ اسی شوق اور دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ اُس نے بہت جلد ہیئت دانوں کی ایک جماعت تیار کرلی۔ فرازی کا باپ ابراہیم جندب بھی اس جماعت کا ایک رکن تھا۔ دیگر اراکین میں ماشاء اللہ، نوبخت اور یعقوب بن طارق کے نام بہت اہم ہیں۔ ابراہیم بن جندب نے اپنے ہونہار فرزند محمد بن ابراہیم فرازی کو لڑکپن ہی سے ہیئت کی تعلیم دینی شروع کردی۔ فرازی نے بھی اس علم میں کافی دلچسپی لی اور ابھی وہ نوجوانی کی منزل میں تھا کہ علم ہیئت میں اس کو ایک نمایاں مقام حاصل ہو گیا۔ خلیفہ منصور کو اُس صلاحیت ولیاقت کا علم ہوا تو اُس نے نوجوان کو بھی اپنے ہیئت دانوں کے زمرہ میں شامل کر لیا۔ کچھ دنوں کے بعد منصور کے دربار میں سندھ کے ایک راجا کا سفیر جس کا نام منکا تھا، دار الخلافہ بغداد میں وارد ہوا۔ وہ ایک عظیم ہیئت داں اور ماہر ریاضی تھا۔ اور اپنے ساتھ خاندان گپت کے عہد زریں کے ایک مشہور ہیئت داں ریاضی دان بر ہم گپتا کی گرانقدر تالیف سدھانتلے کر آیا تھا اس کتاب کا موضوع ہیئت الافلاکہتھا۔ منصور نے اس کتاب کو پسند کیا اور اس کا ترجمہ سنسکرت سے عربی میں کرانا چاہا۔ کافی غور وغوض کے بعد اُس نے اس ترجمے کے لیے تعقوب بن طارق اور ابراہیم فرازی کو مقرر کیا۔ فرازی نے اپنے کام کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا اور منکا برہمن کی مدد سے ترجمہ کے کام کو پانچ سال میں مکمل کر لیا۔ یہ پہلی کتاب ہے جو سنسکرت سے عربی زبان میں منتقل ہوئے۔ سچ پوچھیے تو اسی ترجمہ نے ان دونوں علوم کی بنیاد دنیائے اسلام میں رکھی۔ فرازی کا یہ کام بہت اہم ہے۔ اگرچہ اس کے بعد اس کتاب کے کئی ترجمے ہوئے۔ لیکن فرازی کو اولیت کا جو شرف حاصل ہے، وہ برقرار رہا۔ خلیفہ ہارون الرشید اس ترجمہ کو بے حد پسند کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے اُس نے فرازی کو کافی نواز ا اور اپنے دربار میں نہایت بلند مقام عطا فرمایا۔ یہ صاحب فضل وکمال شخص اپنی قابلیت کے جوہر دکھاکر ہارون الرشید کے دورخلافت میں خلیفہ سے تین سال پہلے806ء میں دارِ فانی سے دارِ باقی کی جانب رحلت کرگیا۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/104053356 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2024 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مسلم سائنس، سیّد قاسم محمود