محمد بختیار خلجی
اختیار الدین محمد بختیار خلجی[1] جو ملک غازی اختیار اول، دین محمد بختیار خلجی کے نام سے جانا جاتا تھا جو عام طور پر بختیار خلجی ( وفات 1206) بھی کہلاتا تھا۔ قطب الدین ابیک کی فوج میں جنرل بھی تھا۔
محمد بختیار خلجی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 12ویں صدی Garmsir, Afghanistan |
وفات | 1206 Devkot، بنگال |
رکن | خلجی خاندان |
عملی زندگی | |
پیشہ | Military general |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمبختیار ، خلجی قبیلہ کا فرد تھا۔[2] ایک ترک قبیلہ جو عرصہ دراز سے جنوبی افغانستان میں آباد تھا۔[3][4] وہ عسکری قیادت کا سربراہ تھا جس نے مشرقی بھارت کو حملہ کر کے بارہویں صدی کے اختتام اور تیرہویں صدی کے آغاز میں فتح کیا۔[5] خلجی ، موجودہ جنوبی افغانستان کے شہر گرمسر سے آئے تھے۔ ایک روایت یہ ہے کہ 18 گھوڑوں کے سربراہ کی بنگال پر حملہ کی پیش گوئی کی گئی تھی۔[6] وہ ایک عام پیدائش تھا[7] جس کے لمبے بازو اپنے گھٹنوں کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔[6] ایک مختصر جسمانی قد اور ایک ناقابل یقین غلبہ نظر آتا تھا۔ وہ سب سے پہلے دیوان آرد کے طور پر گور میں مقرر ہوا اس کے بعد اس کی رسائی بھارت تک تقریباً 1193 میں ہوئی۔ اور اس نے قطب ال دین کی فوج میں شمولیت اختیار کرنا چاہی مگر درجہ کی وجہ سے انکار ہوا۔ پھر وہ مزید مشرق کی طرف چلا گیا اور مکلیک ہزبر ال دین کے ماتحت نوکری حاصل کی۔ پھر شمالی بھارت میں بدھون میں ایک فوجی ٹکڑی کی کمانداری کی۔[7] مختصر عرصے کے بعد وہ اودھ واپس آیا جہاں ملک حسام ال دین نے اس کی قابلیت کو پہچان لیا۔[7] حسام نے اسے جنوب مشرقی کونے میں کچھ زمین عنایت کی جو آج جدید ضلع مرزا پور کا علاقہ ہے۔ خلجی نے اپنے اثر رسوخ کے تحت زبردستی کچھ مسلمانوں کو اپنی فوج میں بھرتی کر لیا اور آس پاس کے علاقوں پر حملے کر کے کامیابی حاصل کی اور اپنے قدم مضبوط کر لیے۔[5] ادب کا ایک خاص حوالہ یہ بھی بتاتا ہے کہ خلجی[8] نے شہر نلندا کا تاریخی کالج وکرم شیلا کو جلا کر راکھ کروا دیا۔[9] اس نے 1203ء میں بہار بنگال پر حملہ کر کے اس کو بھی اجاڑ دیا۔[5] اس وقت خلجی کے کیریئر نے ایک نیا موڑ لیا۔ اس کوشش نے اسے دہلی دربار میں ایک تشویش بنا دیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Britannica
- ↑ The Turkish Khilji must not be confused with the Pastun Ghalzi tribe. Minhāju-s Sirāj (1881)۔ Tabaḳāt-i-nāsiri: a general history of the Muhammadan dynastics of Asia, including Hindustān, from A.H. 194 (810 A.D.) to A.H. 658 (1260 A.D.) and the irruption of the infidel Mughals into Islām۔ Bibliotheca Indica #78۔ 1۔ Calcutta, India: Royal Asiatic Society of Bengal (printed by Gilbert & Rivington)۔ صفحہ: 548 (translated from the Persian by Henry George Raverty)
- ↑ the Khiljī tribe had long been settled in what is now Afghanistan ... Khalji Dynasty. دائرۃ المعارف بریٹانیکا. 2010. Encyclopædia Britannica Online. 23 August 2010.
- ↑ Satish Chandra (2004)۔ Medieval India: From Sultanat to the Mughals-Delhi Sultanat (1206-1526) - Part One۔ Har-Anand۔ صفحہ: 41۔ ISBN 978-81-241-1064-5۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2018۔
The Khaljis were a Turkish tribe from southwest Ghur. However, Bakhtiyar was ungainly in appearance...
- ^ ا ب پ Jadunath Sarkar (2003)۔ The History of Bengal (Volume II): Muslim Period۔ Delhi: B.R. Publishing۔ ISBN 81-7646-239-X
- ^ ا ب (Minhāju-s Sirāj 1881:556–557)
- ^ ا ب پ (Minhāju-s Sirāj 1881:549)
- ↑ David Scott (May 1995)۔ "Buddhism and Islam: Past to Present Encounters and Interfaith Lessons"۔ Numen۔ 42 (2): 141۔ JSTOR 3270172۔ doi:10.1163/1568527952598657
- ↑ "The Buddha and the Sahibs" by Charles Allen
بیرونی روابط
ترمیم- سر جدوناتھ سرکار، History of Bengal, II (Dhaka, 1948)
- History of the Muslims of Bengal – Volume 1A: Muslim Rule in Bengal (600-170/1203-1757)، by Muhammad Mohar Ali, امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی، Department of Culture and Publications.
- ABM Shamsuddin Ahmed (2012)۔ "Bakhtiyar Khalji"۔ $1 میں Sirajul Islam، Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh
- AM Chowdhury (2012)۔ "Sena Dynasty"۔ $1 میں Sirajul Islam، Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh
ماقبل | Khilji Dynasty of Bengal 1204–1206 |
مابعد |