محمد حسن خلیل الحکیم
محمد حسن خلیل الحکیم (پیدائش: 1959ء - وفات: 2008ء) ایک مصری نژاد شدت پسند اور القاعدہ کے نظریاتی رہنما تھے، جو اسلامی شدت پسندی کے نظریات کی تبلیغ میں مصروف تھے۔ انہیں القاعدہ کے اندر ایک اہم نظریاتی رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا اور ان کا شمار اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔[1]
محمد حسن خلیل الحکیم | |
---|---|
(عربی میں: محمد حسن خليل الحكايمة) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1959ء (اندازاً) مصر |
وفات | 2008ء پاکستان |
وجہ وفات | ڈرون حملہ |
قومیت | مصری |
مذہب | اسلام |
عملی زندگی | |
پیشہ | القاعدہ کے رکن، اسلامی نظریات کے ماہر |
مادری زبان | مصری عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، مصری عربی |
وجہ شہرت | القاعدہ کے نظریاتی رہنما اور مبلغ |
عسکری خدمات | |
وفاداری | القاعدہ |
درستی - ترمیم |
پس منظر
ترمیممحمد حسن خلیل الحکیم، جو اپنے کوڈ نام "ابو جihad المصري" کے نام سے بھی مشہور تھے، مصر میں پیدا ہوئے اور جوانی میں اسلامی شدت پسندی کی طرف مائل ہوئے۔ وہ بعد ازاں القاعدہ میں شامل ہو گئے اور تنظیم کے نظریاتی اور مذہبی معاملات میں اہم کردار ادا کرنے لگے۔[2]
القاعدہ میں کردار
ترمیممحمد حسن خلیل الحکیم کو القاعدہ کے اندر ایک اہم نظریاتی رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وہ اسلامی شدت پسندی کے نظریات پر مبنی تحریریں لکھتے اور القاعدہ کے جنگجوؤں اور حامیوں کو تربیت فراہم کرتے تھے۔ الحکیم نے جہاد کے نظریے کو مزید پختہ کرنے اور اسے عالمی سطح پر پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی تحریریں اور تقریریں اسلامی شدت پسند حلقوں میں مقبول تھیں اور انہیں القاعدہ کی نظریاتی بنیادوں کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔[3]
موت
ترمیممحمد حسن خلیل الحکیم 2008ء میں پاکستان کے قبائلی علاقے میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے۔ ان کی ہلاکت کو القاعدہ کے نظریاتی اور مذہبی نیٹ ورک کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا گیا۔[4]
نظریاتی اثرات
ترمیمالحکیم کی نظریاتی تحریریں القاعدہ کے جنگجوؤں اور حامیوں کے لیے ایک رہنمائی کا ذریعہ تھیں۔ انہوں نے القاعدہ کی جنگی حکمت عملی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو نظریاتی بنیاد فراہم کی، جس کے نتیجے میں عالمی دہشت گردی کے نیٹ ورک کو تقویت ملی۔ ان کی ہلاکت کے بعد بھی ان کی نظریاتی تعلیمات القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں میں رائج ہیں۔
عالمی ردعمل
ترمیممحمد حسن خلیل الحکیم کی ہلاکت پر عالمی سطح پر ملے جلے ردعمل سامنے آئے۔ امریکی حکام نے ان کی موت کو القاعدہ کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا، جبکہ القاعدہ اور اس کے حامیوں نے انہیں ایک شہید کے طور پر یاد کیا۔