محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی تقریر

گیارہ اگست کی تقریر، پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی شہرہ آفاق تقاریر میں سے ایک ہے۔ آج کے دور میں پاکستان سے متعلق محمد علی جناح کے نظریہ کے علاوہ دوسرا کوئی بڑا متنازع معاملہ درپیش ہو۔ چونکہ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر کیا گیا تھا، محمد علی جناح سیکولر اور لبرل وکیل کے طور پر جانے جاتے تھے۔[1] جناح ایک وقت میں ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے سفیر مانے جاتے تھے۔[2][3][4] جب ہندوستان کی تقسیم بالآخر مکمل ہو گئی تو محمد علی جناح نوزائیدہ ریاست پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب کر لیے گئے۔ اس موقع پر پاکستان کی ریاست، نظریہ پاکستان اور امور ریاست بارے جناح نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947ء کو خطاب کیا۔ اس خطاب میں محمد علی جناح نے امور ریاست، مذہبی آزادی، قانون کی حکمرانی، مساوات کا پرچار کیا۔ اسی تقریر میں محمد علی جناح مذہب اور ریاست کی علیحدگی کی حمایت بھی کرتے نظر آئے۔[5]

قائد اعظم محمد علی جناح 11 اگست 1947 کو اسمبلی کو سے خطاب کرتے ہوئے

خطاب کو آئین کا حصہ بنانے کی قرارداد

ترمیم

پاکستانی رکن اسمبلی مونچوہر بھاندرہ نے فروری 2007ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کروائی، جس کی رو سے محمد علی جناح کی اس تقریر کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنانے کی سفارش کی گئی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر چوہدری امیر حسین نے اس قرارداد کے مسودے کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ بھاندرہ کے مطابق، “حکومت پاکستان 1949ء کے بعد سے اس خطاب کی سراسر خلاف ورزی کرتی آئی ہے۔ اس خطاب کے کئی حصے ماضی میں دانستہ طور پر حذف یا تبدیل کیے گئے ہیں“۔ مزید یہ کہ “ایک جانب تو محمد علی جناح سے ریاست انتہائی عقیدت کا اظہار کرتی ہے، جبکہ دوسری جانب ریاست میں ہی کئی عناصر سیاسی نظریات کو مذہبی نظریات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔“

اقلیتوں کا خطاب کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر جشن

ترمیم

پاکستان کی مذہبی اقلیتوں جن میں مسیحی، ہندو اور سکھ شامل تھے، نے 2007ء میں اس خطاب کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر مینار پاکستان لاہور کے مقام پر جشن کا اہتمام کیا۔ اور اس امر پر زور دیا کہ محمد علی جناح کا نظریہ برائے ریاست پاکستان کو عملی جامہ پہنایا جائے، جس سے ریاست اب دانستہ طور پر انحراف کرنے کی مرتکب ہوئی ہے۔[6]

تقریر اور بھارت

ترمیم

بھارتی سیاست دان، ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کے دورے کے موقع پر محمد علی جناح کو ایک عظیم رہنما گردانا اور کہا کہ ان کی پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے تقریر صحیح معنوں میں سیکولر نظریات کی حامی تھی، ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ ایڈوانی کے اس بیان پر بھارت میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور ان کے لیے سیاسی طور پر کئی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ ایڈوانی نے محمد علی جناح کے مزار پر یادگاری کتاب میں لکھا،
“دنیا میں کئی لوگ ہیں جو تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو دراصل تاریخ تخلیق کرتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح تاریخ تخلیق کرنے والے چند لوگوں میں سے ایک ہیں۔ اپنی جدوجہد کے اوائل دور میں، سروجنی نیدو جو آزادی کی تحریک کی بانیوں میں سے تھی، جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہتی ہیں۔ جناح کی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947ء کا خطاب بلاشبہ سیکولر نظریات کا ایک کلاسیکی اور پر زور اظہار ہے، جس کی رو سے ہر ایک شہری کو اپنے مذہب کے حساب سے زندگی گزارنے کا مکمل حق اور آزادی حاصل ہے۔ ریاست کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ شہریوں میں ان کے مذہب کی بنیاد پر تفریق کرے۔ اس شخص کو میری انتہائی مودبانہ سلامی قبول کی جائے۔“
اس بیان پر ایل کے ایڈوانی کو اپنی ہی سیاسی جماعت میں انتہائی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندو قومیت پرست جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی نے عرصہ دراز تک محمد علی جناح کو ہندوستان کی تقسیم کا واحد ذمہ دار گردانا ہے اور اس تقسیم کو انتہائی غلط اقدام قرار دیتی آئی ہے۔ اسی بیان کی بنیاد پر ایل کے ایڈوانی کو جماعت کی سربراہی سے الگ ہونا پڑا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. آئین بریانتویلز، ہندو مسلمان اتحاد کے سفیر
  2. title="سٹیٹ مین: جناح کے کانگریس سے اختلافات"| first=Government of Pakistan| last=Official website| accessdate=2006-04-20}}
  3. سٹینلے ووپرٹ "پاکستان کے جناح" آکسفورڈ یونیورسٹی پریس
  4. اجیت جاوید"سیکولر اور قومیت پرست جناح" جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پریس
  5. مسٹر جناح کا صدارتی خطبہ بتاریخ 11 اگست 1947ء
  6. "پاکستانی اقلیتوں کا یکساں حقوق کے لیے ریلی کا انعقاد و جدوجہد کا اعلان"۔ 19 جولا‎ئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولا‎ئی 2010 

مزید پڑھیے

ترمیم
  1. آئن بھرت ہندو مسلم اتحاد کا سفیر: جناح کی اولین سیاست (2005ء)، نئی دہلی
  2. نیدو سروجینی ہندو مسلم اتحاد کا وکیل بمبئی 1917ء
  3. جاوید اجیت سیکولر اور قومیت پرست جناح جے این یو پریس دہلی

بیرونی روابط

ترمیم