محمد غزنوی
سلطان محمود غزنوی کے تین بیٹے محمد غزنوی ، مسعود غزنوی اور عبد الرشید غزنوی تھے۔ سلطان کا سب سے بڑا بیٹا محمد غزنوی تھا اس لیے اس نے مرتے وقت بڑے بیٹے کو سلطان بنانے کی وصیت کی تھی۔ مسعود غزنوی فوج میں مقبول تھا اس لیے اس نے 1030ء میں ہی بھائی کو گرفتار کر لیا اور اسے اندھا کر کے قید خانے میں ڈال دیا اور خود غزنی کے تخت پر قابض ہو گیا۔ [1] 1030ء میں سلطان محمد غزنوی نے صرف پانچ ماہ حکومت کی تھی۔ 1040ء میں سلطان مسعود غزنوی کی گرفتاری کے بعد آپ کو دوبارہ تخت پر بٹھایا گیا چونکہ نابینا تھے اس لیے انتظام سلطنت آپ کے بیٹے احمد غزنوی کے ہاتھ میں تھا۔ جب امیر مودود غزنوی کو اپنے باپ مسعود غزنوی کی گرفتاری کا پتا چلا تو وہ ایک لشکر جرار لے کر چچا کے مقابلے میں آیا جس میں اسے فتح نصیب ہوئی اور اس نے محمد غزنوی کو مع بیٹوں سمیت قتل کر دیا۔ دوسری بار میں آپ کی مدت حکومت چار ماہ تھی۔ [2]
| |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 998ء غزنی |
||||||
وفات | سنہ 1041ء (42–43 سال) غزنی |
||||||
شہریت | سلطنت غزنویہ | ||||||
والد | محمود غزنوی | ||||||
خاندان | سلطنت غزنویہ | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان سلطنت غزنویہ | |||||||
برسر عہدہ 1030 – 1041 |
|||||||
| |||||||
درستی - ترمیم |
تخت نشینی
ترمیمجب سلطان محمود کا انتقال ہوا تو اس وقت اس کا ایک بیٹا امیر محمد غزنوی تو گورگان میں تھا اور دوسرا امیر مسعود غزنوی صفاہان میں مقیم تھا۔ سلطان کے انتقال کے بعد اس کے داماد امیر علی بن ارسلان نے اپنے خسر کی وصیت کے مطابق امیر محمد غزنوی کو غزنی میں بلایا اور اسے باپ کا جانشین بنایا۔ امیر نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے چچا امیر یوسف کو سپہ سالار اور خواجہ ابو سہل احمد بن حسن ہمدانی کو وزارت سلطنت کے عہدے پر مقرر کیا۔
رعایا پر نوازشات
ترمیمسلطان محمد غزنوی نے رعایا کو اپنا فرماں بردار بنانے کے لیے شاہی خزانے کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول دیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں ہر شخص خوش حالی کی زندگی بسر کرنے لگا اور رعایا اور فوج کا ہر طبقہ مطمئن نظر آنے لگا لیکن سلطان کا یہ انعام و اکرام اس کے لیے لوگوں کے دل میں جگہ پیدا نہ کر سکا اور ایک بہت بڑا طبقہ آپ کی نسبت آپ کے بھائی مسعود غزنوی کو ترجیح دیتا رہا۔
امیر ایاز کی شورش
ترمیمسلطان محمود کی وفات کے پچاس روز بعد ابو انجم امیر ایاز بن اسحاق نے غلاموں اور ابو علی دایہ کو اپنے ساتھ ملایا اور دن دہاڑے شاہی اصطبل میں داخل ہو کر خاصے کے گھوڑوں کو قبضے میں کر لیا اور یہ سب لوگ ان گھوڑوں پر سوار ہو کر بست کی طرف روانہ ہو گئے۔ سلطان کو جب یہ واقعہ معلوم ہوا تو اس نے اپنے ایک قابل اعتبار ہندو امیر سویند رائے کو ہندوؤں کا ایک لشکر جرار دے کر امیر ایاز کے پیچھے روانہ کیا۔ اس لشکر نے امیر ایاز کو تھوڑی ہی دور کے فاصلے پر جا لیا۔ طرفین میں ایک زبردست لڑائی ہوئی جس کے نتیجے میں سویند رائے ہندوؤں کی ایک بہت بڑی تعداد کے ساتھ مارا گیا۔ امیر ایاز کے ساتھی بھی اس معرکے میں کام آئے ہندووں کے لشکر میں جو سپاہی رہتے تھے امیر ایاز نے انھیں گرفتار کر لیا اور ان کے سر تن سے جدا کر کے سلطان کے پاس بھجوا دیے اور خود آگے بڑھا اور جب نیشاپور پہنچا تو وہاں وہ سلطان کے بھائی امیر مسعود غزنوی سے ملا۔
مسعود غزنوی کی خواہش
ترمیممورخین بیان کرتے ہیں کہ امیر مسعود نے جب ہمدان میں اپنے باپ سلطان محمود کے انتقال کی خبر سنی تھی تو اس نے عراق اور عجم میں اپنے قابل اور تجزیہ کار نائب اور عامل مقرر کر دیے تھے اور خود جلد از جلد خراسان پہنچ گیا تھا۔ یہاں سے اس نے اپنے بھائی سلطان کو اس مضمون کا خط لکھا کہ
- سلطان محمود مرحوم نے جو ملک تمھیں عطا کیے ہیں میں ان کو اپنے قبضے میں لانا نہیں چاہتا میرے لیے خود اپنے مفتوحہ ممالک (جبل طربستان اور عراق) کافی ہیں۔ میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ تم اپنے ممالک میں بھی یہ ہدایت کر دو کہ خطبے میں میرا نام تمھارے نام سے پہلے پڑھا جائے۔
جنگ کی تیاری
ترمیمکتب تاریخ میں یہ مذکور ہے کہ امیر مسعود اور سلطان دونوں بھائی ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے۔ مسعود اپنے بھائی سے چند لمحے پیشتر اس دنیا میں آیا تھا اس لیے سلطان کو مسعود کے مقابلے میں بڑے چھوٹے کا کوئی خیال نہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو چھوٹا بھائی نہ سمجھتا تھا اس لیے اس کے نزدیک مسعود کی اطاعت ضروری نہ تھی۔ جب مسعود کا خط سلطان کے پاس پہنچا تو وہ بہت پیچ و تاب میں آیا اور اس نے مسعود کو جواب میں بڑے سخت الفاظ استعمال کیے۔ جواب میں خط ارسال کرنے کے بعد سلطان نے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ اگرچہ دربار کے امیروں وزیروں نے بہت کوشش کی کہ دونوں بھائیوں میں لڑائی نہ ہو اور تمام معاملات پرامن فضا میں طے پائیں لیکن سلطان محمد غزنوی نے کسی کی نہ سنی اور اپنے ارادے پر قائم رہا۔ سلطان ایک بہت بڑی فوج تیار کرکے غزنی سے روانہ ہوا۔ یکم رمضان 421ھ بمطابق 1030ء کو تمام لشکر نکیاباد (نکبت آباد) نامی مقام میں پہنچا ہے۔ یہی سلطان اپنی فوج کے ساتھ خیمہ زن ہوا اور رمضان کا پورا مہینا یہی گزار دیا۔
سلطان کی گرفتاری
ترمیمجہاں سلطان کا لشکر خیمہ زن تھا وہاں عید کے روز اتفاق سے سلطان کے سر سے تاج گر پڑا۔ لوگوں نے اس واقعے کو فال بد سمجھا اور اس سے علاحدہ ہو جانے کا پکا ارادہ کر لیا۔ شوال کی تین تاریخ کو مشہور معروف امیروں (امیر علی خویشاوند ، امیر یوسف سبکتگین اور میر حسین وغیرہ) نے سلطان کے خلاف بغاوت کی۔ یہ امرا امیر مسعود غزنوی کی حمایت کے نعرے لگاتے ہوئے سلطان محمد غزنوی کے خیمے کے گرد جمع ہو گئے۔ ان امیروں نے سلطان کو گرفتار کر کے دلج کے قلعے میں جسے اب اہل قندهار قلعہ خلج کہتے ہیں قید کر دیا گیا اور خود مسعود غزنوی سلطان غزنوی بن گیا۔ اسیری کی حالات میں محمد غزنوی کو سلطان مسعود کے حکم سے نابینا کر دیا گیا۔[3]
سلطان مسعود کی گرفتاری
ترمیمسلطان مسعود نے 1040ء میں اپنے باپ محمود غزنوی کی جمع کی ہوئی تمام دولت اونٹوں پر لادی اور اس خزانے کو اپنے ساتھ لے کر لاہور کی طرف روانہ ہوا۔ سلطان نے راستے ہی میں اپنے ایک آدمی کو اس کام کے لیے بھیجا کہ وہ اس کے بھائی محمد غزنوی کو قلعے سے نکال کر ان کے سامنے لائے۔ سلطان رباط مارکلہ (مارگیلہ)(یہ مقام راولپنڈی اور اٹک کے درمیان واقع ہے) دریائے جہلم کے قریب پہنچا تو سلطان کے قابل اعتبار غلاموں نے لالچ میں آ کر اونٹوں پر لدے ہوئے خزانے کو جی کھول کر لوٹا اور اس دوران میں سلطان کے بھائی محمد غزنوی بھی وہاں پہنچ گیا۔ ان نمک حرام غلاموں نے جنھوں نے خزانہ شاہی کو لوٹا تھا یہ خیال کیا کہ سلطان مسعود کو معزول کر دینا مناسب ہے ورنہ وہ ان کی ناشائستہ حرکت کو معاف نہ کرے گا۔ (اور کڑی سزا دے گا) یہ سوچنے کے بعد ان غلاموں نے سلطان مسعود پر حملہ کر دیا۔ مسعود مجبوراً رباط مارکلہ میں قلعہ بند ہو گیا۔ غزنوی فوج کا ہر چھوٹا بڑا فرد آئے دن کی جنگوں سے تنگ آ چکا تھا نیز وطن کی جدائی کی وجہ سے بھی یہ سب لوگ پریشان تھے۔ اس بنا پر سارے لشکر نے سلطان کی مخالفت کی۔ یہ لوگ رباط کے اندر داخل ہو گئے اور سلطان مسعود کو گرفتار کر کے امیر محمد غزنوی کے پاس لے آئے۔ امیر محمد نے اپنے بھائی سے کہا
- میں نہیں چاہتا کہ تمھیں قتل کر دوں ہاں نظر بند ضرور کروں گا ، تم جو جگہ اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے منتخب کرو میں وہیں تمھیں قید کر دوں گا تا کہ تم اپنی زندگی کے باقی دن اطمینان اور آرام سے بسر کر سکو۔
سلطان مسعود نے قلعہ گیری (یہ قلعہ دریائے سندھ کے قریب واقع تھا) میں رہنا پسند کیا اور روانگی کی تیاری کرنے لگا۔ مورخین کا بیان ہے جس وقت مسعود غزنوی روانہ ہوا اس وقت اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی لہذا اس نے ایک آدمی کو اپنے بھائی محمد غزنوی جو اس وقت سلطان تھا کے پاس بھیجا تا کہ وہ اخراجات کے لیے رقم لائے۔ سلطان نے پانچ سو درہم بھجوائے۔ جب یہ رقم مسعود کے سامنے آئی تو اسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اسی عالم میں اس کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔ سبحان اللہ كل اس وقت میرے قبضے میں زر و جواہر سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹ تھے اور آج میری بد قسمتی کا یہ عالم ہے۔ مسعود نے اسی وقت اپنے چند ساتھیوں سے ایک ہزار دینار بطور قرض لیے اور وہ پانچ سو درہم جو سلطان نے بھجوائے تھے اسی شخص کو بطور انعام دے دیے جو لے کر آیا تھا
مسعود غزنوی کا قتل
ترمیممحمد غزنوی جب دوبارہ سلطان بنے تو اس وقت چونکہ نابینا تھے اس لیے اس نے زندگی کو سادہ طریقے سے بسر کرنے پر اکتفا کیا اور سلطنت کا تمام کاروبار اپنے مخبوط الحواس بیٹے احمد غزنوی کے سپرد کر دیا۔ احمد عنان حکومت ہاتھ میں لیتے ہی سلیمان بن یوسف سبکتگین اور علی خویشاوند کے بیٹے کو ساتھ لے کر ایک روز قلعہ گیری میں داخل ہو گیا اور اس نے بغیر اپنے باپ کی اجازت سے سلطان مسعود کو قتل کر دیا۔ یہ واقعہ 433ھ کا ہے۔ بعض مورخین کا بیان ہے کہ احمد نے مسعود کو زندہ کنوئیں میں پھینکوا کر کنوئیں کو پتھر اور مٹی سے پر کر دیا تھا۔
سلطان کا اظہار افسوس
ترمیمجب سلطان محمد غزنوی تک اس کے بھائی امیر مسعود کے قتل کی خبر پہنچی تو وہ بہت رویا جن لوگوں نے مسعود کو قتل کیا ان پر سلطان نے خوب لعنت ملامت بھیجی۔ سلطان نے مسعود کے بیٹے امیر مودود کو بلغ میں اس مضمون کا خط بھیجا
- فلاں فلاں افراد نے اپنے باپ کے قصاص میں تمھارے باپ کو قتل کیا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی اور اس اقدام میں شریک نہیں ہے۔
امیر مودود نے اس خط کے جواب میں لکھا۔
- خدا آپ کی عمر دراز کرے اور آپ کے فرزند دلبند احمد مخبوط الحواس کو اتنی عقل دے کہ وہ دنیا کے نشیب و فراز کو سمجھ سکے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کے آپ کے دیوانے بیٹے نے ایک بہت بڑا جرم کیا ہے اور ایسے بادشاہ کو قتل کیا ہے کہ جسے امیر المومنین نے سید الملوک و السلاطین کا لقب دیا تھا۔ میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایک نہ ایک دن یہ خون رنگ لائے گا اور آپ کے بیٹے کو اس کے اعمال کی سزا ضرور ملے گی۔
یہ خط روانہ کرنے کے بعد امیر مودود نے فرور مارگلہ پہنچنے کا ارادہ کیا تا کہ اپنے باپ کے خون کا بدلہ لے سکے لیکن ابو نصر احمد بن محمد بن عبد اللہ نے مودود کو اس ارادے سے باز رکھا اور اسے سمجھا بجھا کر اپنے ساتھ غزنی لے گیا۔ مودود کے آنے کی خبر سن کر غزنی کے تمام بڑے بڑے سردار اور امرا اس کے استقبال کے لیے شہر سے باہر آئے اور ان سب نے مودود کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا۔
محمد غزنوی کا قتل
ترمیم433ھ میں امیر مودود اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے غزنی سے روانہ ہوا۔ سلطان محمد غزنوی نے اپنے چھوٹے بیٹے نامی غزنوی کو ایک زبردست فوج کا افسر اعلی اور ملتان و پشاور کا سپہ سالار مقرر کیا اور اسے مودود کے مقابلے پر روانہ کیا۔ سلطان اور امیر مودود یعنی چچا بھتیجا کے لشکر آپس میں گتھم گتھا ہوئے۔ فریقین نے اپنی اپنی کامیابی کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ سلطان کی کوششیں بے کار گئیں اور امیر مودود کو فتح نصیب ہوئی۔ سلطان محمد غزنوی اپنے بیٹوں اور فساد کے بانی امیروں (توشگین بلخی ، ابو علی خویشاوند اور سلیمان بن یوسف وغیرہ) کے ہمراہ گرفتار ہوا۔ مودود کے کارپر دازوں نے سلطان کے بیٹے عبد الرحیم کے علاوہ اور باقی سب کو قتل کر دیا۔
عبد الرحیم کو قتل نہ کرنے کی وجہ مورخین نے یہ بیان کی ہے کہ امیر مسعود کے عہد اسیری میں ایک روز عبد الرحیم اپنے بھائی عبد الرحمن کے ساتھ امیر مسعود کو دیکھنے کے لیے قید خانے میں گیا۔ عبد الرحمن نے امیر مسعود کو دیکھتے ہی یہ جملہ کہا کہ اب یہ سر تاج کے قابل نہیں رہا اور امیر مسعود کے سر سے ٹوپی اتار لی۔ عبد الرحیم نے اپنے بھائی کو اس حرکت ناشائستہ پر بہت ڈانٹا اور اس کے ہاتھ سے ٹوپی چھین کر پھر اپنے چچا کے سر پر رکھ دی۔ اس وجہ سے عبد الرحیم نے موت سے نجات پائی تھی۔
اولاد
ترمیمسلطان محمد بن محمود غزنوی کے چار بیٹوں تھے۔
- احمد غزنوی
- عبد الرحیم غزنوی
- عبد الرحمن غزنوی
- نامی غزنوی [4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ہندوستان کا تاریخی خاکہ مولف کارل مارکس فریڈرک اینگلز ترتیب و تعارف احمد سلیم صفحہ 15
- ↑ ہندوستان کے مسلمان فاتح و تاجدار مولف سید محمد عمر شاہ صفحہ 49 اور 50
- ↑ تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 97 اور 98
- ↑ تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 106 تا 108