مسعود غزنوی
سلطان محمود غزنوی کے تین بیٹے محمد غزنوی ، مسعود غزنوی اور عزالدولہ عبدالرشید غزنوی تھے۔ سلطان کا سب سے بڑا بیٹا محمد غزنوی تھا اس لیے اس نے مرتے وقت بڑے بیٹے کو سلطان بنانے کی وصیت کی تھی۔ مسعود غزنوی فوج میں مقبول تھا اس لیے اس نے 1030ء میں ہی بھائی کو گرفتار کر لیا اور اسے اندھا کر کے قید خانے میں ڈال دیا اور خود غزنی کے تخت پر قابض ہو گیا۔ [4]
مسعود غزنوی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(فارسی میں: مسعود غزنوی) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 998ء [1][2] غزنی |
||||||
وفات | 17 جنوری 1041ء (42–43 سال)[3] بھارت |
||||||
شہریت | سلطنت غزنویہ | ||||||
اولاد | ابراہیم غزنوی ، فرخ زاد غزنوی ، مودود غزنوی ، علی غزنوی | ||||||
والد | محمود غزنوی | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان سلطنت غزنویہ | |||||||
برسر عہدہ 1030 – 1041 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | عسکری قائد | ||||||
درستی - ترمیم |
سلطان محمود کی خواہش
ترمیمسلطان مسعود بن محمود غزنوی بہت ہی سخی اور بہادر تھا اس کی بہادری اور جرات مندی کا یہ عالم تھا کہ لوگ اسے رستم ثانی کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ اس کے تیر میں ایسی تیزی تھی کہ وہ لوہے میں سوراخ کرنے کے بعد ہاتھی کے جسم میں گھس جاتا تھا۔ اس کا گرز اس قدر وزنی تھا کہ کوئی شخص بھی اسے ایک ہاتھ سے نہ اٹھا سکتا تھا۔ حق گوئی و بے باکی مسعود کا شعار تھا اس وجہ سے وہ اکثر گفتگو میں اپنے باپ سلطان محمود کے ساتھ درشت کلامی کر بیٹھتا تھا۔ اس لیے سلطان محمود اسے سخت ناپسند کرتا تھا اس کے بر خلاف محمود محمد غزنوی کو بہت چاہتا تھا کیونکہ وہ موقع بے موقع باپ کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتا تھا۔ مسعود غزنوی سے سلطان محمود کی نفرت اور امیر محمد غزنوی سے محبت نے یہاں تک طول کھینچا کہ سلطان نے مسعود کی ہر طرح سے حق تلفی کی اور خلیفہ بغداد سے یہ سفارش کی کہ فرامین اور خطبات میں امیر محمد کا نام مسعود کے نام سے پہلے لیا جائے۔ طبات ناصری کے مولف نے ابو نصر مشکاتی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ جب سلطان محمود کے مندرجہ بالا خط کا مسودہ سر دربار پڑھا گیا تو اس کو سن کر تمام درباریوں کو افسوس ہوا۔ اور مسعود کی اس حق تلفی کو سبھی نے نا موزوں خیال کیا۔ جب امیر مسعود دربار سے اٹھ کر باہر آیا تو ابو نصر بھی اس کے پیچھے پیچھے آیا اور اس سے کہا۔ ”تمھاری حق تلفی پر مجھے اور تمام اہل دربار کو بہت افسوس ہوا۔ مسعود نے اس سے جواب میں کہا اس کی فکر نہ کرو کیا تم نے بزرگوں کا یہ قول نہیں سنا کہ تلوار خط سے زیادہ سچی اور مضبوط ہوتی ہے۔ ابو نصر کا بیان ہے کہ جب میں مسعود کی گفتگو کرنے کے بعد واپس دربار میں آیا تو سلطان محمود نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ تم مسعود کے ساتھ دربار سے باہر کیوں گئے اور تمھاری اس سے کیا بات چیت ہوئی؟ میں نے سلطان محمود سے سب کچھ صیح صیح بیان کر دیا۔ سلطان نے میری اور مسعود کی بات چیت سن کر کہا مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مسعود ہر لحاظ سے امیر محمد سے بہتر ہے اور مجھے اس کا یقین ہے کہ میرے بعد سلطنت مسعود ہی کے قبضے میں آئے گی، لیکن میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امیر محمد نے میری زندگی میں ہمیشہ میری بہت عزت کی ہے اور ہر طرح سے میرا خیال رکھا ہے۔ ابو نصر کا بیان ہے کہ اس سارے واقعے میں مجھے دو باتوں پر بہت تعجب ہوا ایک تو مسعود کے اس پر معنی جواب پر کہ میرے علم و فضل کے شایان شان تھا اور دوسرے سلطان محمود کے انتظام سلطنت پر کہ ادھر میں نے مسعود سے گفتگو کی اور ادھر محمود کو اطلاع ہو گئی۔
سلطان محمود کی وفات
ترمیمجب سلطان محمود کی وفات ہوئی تو اس وقت سلطان کا ایک بیٹا محمد غزنوی تو گورگان میں تھا اور دوسرا بیٹا مسعود غزنوی صفاہان میں مقیم تھا۔ سلطان محمود کے انتقال کے بعد سلطان کے داماد امیر علی بن ارسلان نے خسر کی وصیت کے مطابق محمد غزنوی کو غزنی میں بلا کر اسے باپ کا جانشین بنا دیا۔
مسعود غزنوی کی خواہش
ترمیممورخین بیان کرتے ہیں کہ امیر مسعود نے جب ہمدان میں اپنے باپ سلطان محمود کے انتقال کی خبر سنی تھی تو اس نے عراق اور عجم میں اپنے قابل اور تجزیہ کار نائب اور عامل مقرر کر دیے تھے اور خود جلد از جلد خراسان پہنچ گیا تھا۔ یہاں سے اس نے اپنے بھائی سلطان کو اس مضمون کا خط لکھا کہ
- سلطان محمود مرحوم نے جو ملک تمھیں عطا کیے ہیں میں ان کو اپنے قبضے میں لانا نہیں چاہتا میرے لیے خود اپنے مفتوحہ ممالک (جبل طربستان اور عراق) کافی ہیں۔ میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ تم اپنے ممالک میں بھی یہ ہدایت کر دو کہ خطبے میں میرا نام تمھارے نام سے پہلے پڑھا جائے۔
جنگ کی تیاری
ترمیمکتب تاریخ میں یہ مذکور ہے کہ امیر مسعود اور سلطان دونوں بھائی ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے۔ مسعود اپنے بھائی سے چند لمحے پیشتر اس دنیا میں آیا تھا اس لیے سلطان کو مسعود کے مقابلے میں بڑے چھوٹے کا کوئی خیال نہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو چھوٹا بھائی نہ سمجھتا تھا اس لیے اس کے نزدیک مسعود کی اطاعت ضروری نہ تھی۔ جب مسعود کا خط سلطان کے پاس پہنچا تو وہ بہت پیچ و تاب میں آیا اور اس نے مسعود کو جواب میں بڑے سخت الفاظ استعمال کیے۔ جواب میں خط ارسال کرنے کے بعد سلطان نے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ اگرچہ دربار کے امیروں وزیروں نے بہت کوشش کی کہ دونوں بھائیوں میں لڑائی نہ ہو اور تمام معاملات پرامن فضا میں طے پائیں لیکن سلطان محمد غزنوی نے کسی کی نہ سنی اور اپنے ارادے پر قائم رہا۔ سلطان ایک بہت بڑی فوج تیار کرکے غزنی سے روانہ ہوا۔ یکم رمضان 421ھ بمطابق 1030ء کو تمام لشکر نکیاباد (نکبت آباد) نامی مقام میں پہنچا ہے۔ یہی سلطان اپنی فوج کے ساتھ خیمہ زن ہوا اور رمضان کا پورا مہینا یہی ہی گزار دیا گیا۔
سلطان محمد غزنوی کی گرفتاری
ترمیمجہاں سلطان کا لشکر خیمہ زن تھا وہاں عید کے روز اتفاق سے سلطان کے سر سے تاج گر پڑا۔ لوگوں نے اس واقعے کو فال بد سمجھا اور اس سے علاحدہ ہو جانے کا پکا ارادہ کر لیا۔ شوال کی تین تاریخ کو مشہور معروف امیروں (امیر علی خویشاوند ، امیر یوسف سبکتگین اور میر حسین وغیرہ) نے سلطان کے خلاف بغاوت کی۔ یہ امرا امیر مسعود غزنوی کی حمایت کے نعرے لگاتے ہوئے سلطان محمد غزنوی کے خیمے کے گرد جمع ہو گئے۔ ان امیروں نے سلطان کو گرفتار کر کے دلج کے قلعے میں جسے اب اہل قندهار قلعہ خلج کہتے ہیں قید کر دیا گیا اور خود مسعود غزنوی سلطان غزنوی بن گیا۔ اسیری کی حالات میں محمد غزنوی کو سلطان مسعود کے حکم سے نابینا کر دیا گیا۔
سلطان مسعود کی تخت نشینی
ترمیمسلطان مسعود غزنوی جب تخت نشین ہوا تو اس نے احمد بن حسن میمندی کو جو سلطان محمود کے حکم سے کالنجر کے قلعے میں اسیر تھا رہا کیا اور اسے پھر وزارت سلطنت کے عہدے پر سرفراز کیا۔ اس کے علاوہ امیر احمد بن نیالتگین سے بجبر بہت سا مال و دولت حاصل کیا۔ اس کے بعد سلطان مسعود نے امیر احمد کو ہندوستان کا سپہ سالار مقرر کر کے لاہور روانہ کر دیا۔ نیز مجد الدولہ دیلمی کو جو سلطان محمود کے حکم سے ایک قلعے میں قید تھا رہا کیا اور اسے اپنے درباریوں میں شامل کر لیا۔
مکران کی فتح
ترمیم423ھ میں سلطان مسعود بلغ سے غزنی آیا یہاں پہنچ کر اس نے مکران کو فتح کرنے کے لیے ایک بہت بڑا لشکر روانہ کیا یہاں کی فتح کے بعد سلطان نے یہاں اپنے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ سلطان مسعود کے زمانے میں کچ اور مکران کے حاکم نے وفات پائی۔ اس کے دو بیٹے تھے ان میں ایک جس کا نام عیسی تھا اپنے باپ کی سلطنت پر قابض ہو گیا اس نے اپنے بھائی ابو العساکر کو ہر چیز سے محروم کر کے سلطنت سے باہر نکال دیا۔ ابو العساکر میں اتنی قوت نہ تھی کہ وہ اپنے بھائی کا مقابلہ کرتا۔ لہذا اس نے سلطان مسعود کی بارگاہ میں فریاد کی اور اس نے یہ درخواست کی کہ اگر سلطان اپنے لشکر کی مدد سے اسے اپنے آبائی ملک پر قبضہ کروا دے گا تو ہمیشہ ہمیشہ حکومت غزنی کی اطاعت کا دم بھرتا رہے گا نیز اپنے علاقے میں سلطان کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کر دے گا۔ سلطان نے ابو العساکر کی درخواست قبول کی اور ایک زبردست لشکر اس کے ساتھ مکران کی طرف روانہ کیا۔ مسعود نے اپنے سپاہیوں کو یہ ہدایت کی کہ اگر عیسی صلح پر آمادہ ہو اور سلطنت میں سے نصف علاقہ ابوالعساکر کو دینے پر تیار ہو تو اس سے جنگ نہ کی جائے، لیکن اگر وہ اس لشکر کو دیکھ کر صلح پر آمادہ نہ ہو تو اس سے جنگ کی جائے اور ملک اس کے قبضے سے نکال کر ابو العساکر کے حوالے کر دیا جائے۔ جب غزنوی فوج مکران کی حدود میں پہنچی تو اس کے افسر اعلی نے سلطان مسعود کی ہدایت کے مطابق امیر عیسی سے صلح کی بات چیت شروع کی اور اس بات کی پوری پوری کوشش کی کہ معاملہ امن کی فضا میں طے ہو جائے، لیکن بد قسمت عیسی کے برے دن آ چکے تھے اس نے کوئی بات نہ سنی اور صلح سے انکار کر کے جنگ کی تیاری کرنے لگا۔ امیر عیسی کے چند عاقبت اندیش امرا نے اس سے اختلاف کیا اور اسے لڑائی سے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن عیسی پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ پہلے کی طرح لڑائی کے خیال میں مگن رہا اور اپنے خاص خاص لوگوں کو ساتھ لے کر غزنوی فوج کے مقابلے پر آیا۔ فریقین میں زبردست لڑائی ہوئی عیسی خاں اس قدر لڑا کہ اپنے لشکریوں کے ساتھ ساتھ خود بھی میدان جنگ میں کام آیا۔ امیر عیسی کی وفات کے بعد ابوالعساکر ملک پر قابض ہو گیا اور اس نے حسب وعدہ اپنے ملک میں سلطان مسعود غزنوی کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کر دیا۔
رے اور ہمدان وغیرہ کا انتظام
ترمیم422ھ میں سلطان مسعود نے رے ، ہمدان اور دیگر کوہستانی شہریوں کی حکومت اپنے ایک فراش کے سپرد کر دی جس کا نام تاش تھا۔ تاش نے کچھ عرصہ کے اندر محمود کے خراسانی امیروں کی جاگیریں ضبط کر لیں اور ان علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ سلطان مسعود کے حسب الحکم تاش نے علاء الدولہ کو اس کی سرکشی کی سزا دی اور اس کے ملک کو اس کے عالموں کے قبضے سے نکال لیا اور ان عالموں کو تباہ کر دیا۔
ترکمانیوں سے معرکہ
ترمیم422ھ میں سلطان مسعود غزنی سے صفاہان اور رے کی طرف روانہ ہوا۔ جب وہ ہرات پہنچا تو سرخس اور بار آورد کے باشندے اس کے پاس آئے اور اس سے ترکمان سلجوقی کے ظلم و ستم کی شکایت کی۔ مسعود نے عبد الرئیس بن عبد العزیز کو ایک زبردست لشکر کے ساتھ ترکمانیوں کی سرزنش کے لیے روانہ کیا۔ عبد الرئیس نے بار ہا ترکمانیوں کے ساتھ جنگ کی، لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ آخر کار سلطان مسعود ناکام و نامراد واپس غزنی آيا۔
علی مگین سے جنگ
ترمیم422ھ میں علی مگین نے بخارا اور سمرقند پر قبضہ کر کے بڑے ہنگامے پیدا کر رکھے تھے۔ سلطان مسعود نے التونتاش کو على مگین کی سرکوبی کے لیے نامزد کیا۔ التونتاش خوارزم سے ماوراء النہر کی طرف روانہ ہوا۔ سلطان مسعود نے بھی غزنی سے پندرہ ہزار سپاہیوں کی ایک فوج التونتاش کی مدد کے لیے روانہ کی اور یہ فوج بلغ کے علاقے میں التونتاش کے لشکر میں جا ملی۔ التونتاش نے دریائے اسویہ کو عبور کر کے پہلے بخارا پر حملہ کیا اور اس کو فتح کر کے سمرقند کی طرف روانہ ہوا۔ علی مگین کو جب غزنوی لشکر کی آمد کی خبر ملی تو وہ شہر سے نکل کر ایک میدان میں آیا۔ اس میدان کے ایک طرف تو ایک بہت بڑی نہر بہ رہی تھی اور دوسری طرف ایک بہت بڑا پہاڑ تھا۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو التو نتاش کے لشکر پر علی مگین کی فوج کے ایک دستے نے پیچھے سے حملہ کیا یہ دستہ کمیں گاہ میں چھپا ہوا تھا اس حملے میں غزنوی فوج کے بے شمار سپاہی مارے گئے۔ یہاں تک کہ التونتاش کے جسم پر بھی ایک کاری زخم لگا اور اتفاق سے یہ زخم جسم کے ایک ایسے حصے میں لگا جہاں پہلے بھی جب کہ التونتاش سلطان محمود کے ساتھ ہندوستان میں معرکہ آرا ہوا تھا منجیق کے ایک بھاری پتھر سے زخم لگ چکا تھا۔ التونتاش نے اپنے اس زخم کا حال اپنے ساتھیوں سے چھپائے رکھا اور میدان جنگ میں بڑی ثابت قدمی سے ڈٹا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا دشمن کے حملے کے باوجود غزنوی فوج میں بد دلی اور پریشانی نہ پھیلنے پائی اور غزنوی سپاہیوں نے دشمن کے بھی بے شمار افراد کو تہ تیغ کیا اور باقی لوگوں کو میدان جنگ سے بھگا دیا۔ جب علی مگین کا کوئی سپاہی بھی باقی نہ رہا تو التونتاش نے لشکر کو واپسی کا حکم دیا۔ غزنوی لشکر اپنے خیموں میں واپس آگیا۔ رات کے وقت التونتاش نے فوری سرداروں کو اپنے پاس بلایا ان کو اپنے زخمی ہونے کی کیفیت بتائی اور کہا کہ "اس زخم سے میرا بچنا ناممکن نظر آتا ہے اب تم لوگ اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے لڑائی کے بارے میں جو چاہو کرو- فوجی سرداروں نے جب دیکھا کہ التونتاش کی حالت نازک ہے اور صبح دشمن سے پھر مقابلہ کرنا ہے تو انھوں نے باہمی مشورے کے بعد یہ طے کیا کہ مناسب اور معقول شرائط پر صلح کر کے جنگ سے ہاتھ اٹھا لیا جائے۔
التونتاش کی وفات اور صلح
ترمیمان فوجی سرداروں نے علی مگین کے پاس ایک قاصد روانہ کیا اور اس سے صلح کی درخواست کی۔ صلح کے لیے یہ شرط رکھی کہ بخارا کو غزنوی سلطنت میں شامل کیا جائے اور سمرقند اور اس کے آس پاس کا علاقہ على مگین کے قبضے میں رہے۔ علی مگین نے اس شرط کو قبول کر لیا اور صلح کر کے دوسرے دن سمرقد کی طرف روانہ ہو گیا۔ غزنوی لشکر بھی واپس روانہ ہوا روانگی کے دوسرے ہی دن التونتاش نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ فوج کے سرداروں نے اس کی موت کی خبر کو راستے میں لشکریوں سے چھپائے رکھا اور خوارزم پہنچ کر اس کا اعلان کیا گیا۔ سلطان مسعود کو التونتاش کے مرنے کی اطلاع خراسان میں ملی اس نے التونتاش کی خدمات کے صلے میں اس کے بیٹے ہارون کو خوارزم کا حاکم مقرر کر دیا۔
422ھ میں وزیر سلطنت خواجہ احمد بن حسین میمندی نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اس کی جگہ ابو نصر احمد بن محمد بن عبد الصمد کو خوارزم سے بلا کر وزیر مقرر کیا گیا۔ ابو نصر بارون بن التونتاش کا دیوان زادہ تھا۔
ہندوستان پر لشکر کشی
ترمیم422ھ میں سلطان مسعود نے ہندوستان پر لشکر کشی کی اور دورہ کشمیر میں سرستی کے قلعے پر پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا۔ اسلامی لشکر کی آمد سے اہل قلعہ کانپ اٹھے۔ انھوں نے سلطان مسعود کی خدمت میں ایک قاصد بھیجا اور یہ درخواست کی کہ ہم اس شرط پر صلح کرنے کے لیے تیار ہیں کہ بادشاہ ہم کو قتل نہ کرے اس کے صلے میں ہم اس وقت ایک بہت بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کریں گے اور آئندہ بھی اسی طرح ہر سال ایک معقول رقم شاہی خزانے میں بطور خراج کے داخل کرتے رہیں گے۔ سلطان مسعود کو صلح کی یہ شرائط معقول معلوم ہوئیں۔ اس نے اہل قلعہ سے صلح کر کے غزنی کو واپسی کا ارادہ کر لیا اس سے قبل کہ وہ حاکم قلعہ کو کوئی جواب دیتا اسے ان مسلمان سوداگروں کی ایک درخواست موصول ہوئی جو اہل قلعہ کی سختیوں کا شکار ہو رہے تھے اس درخواست میں یہ لکھا گیا تھا کہ ہم چند مسلمان تاجر اپنے وطن سے نکلے اور بدقسمتی سے ان کافروں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ہیں۔ ان ہندوؤں نے تعصب کی بنا پر ہم پر طرح طرح سے تشدد کیا ہے اور ہم سے ہمارا تمام مال اور دولت چھین کر ہمیں کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا ہے۔ ہمیں یہ خطرہ ہے کہ اگر آپ نے ہندوؤں سے ان کی پیش کردہ شرائط پر صلح کر لی تو آپ کے جاتے ہی یہ ہندو ہم پر مصیبت ڈھائیں گے اور زندہ نہ چھوڑیں گے۔ ہم اپنے احوال گوش گزار کرنے کے بعد آپ کو یہ بتا دینا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ان محصور ہندووں کے پاس سامان رسد بالکل ختم ہو چکا ہے اور اب ان میں قلعہ بند ہو کر رہنے کی ہمت نہیں۔ اگر آپ دو تین روز تک محاصرہ قائم رکھیں گے تو یہ قلعہ بغیر کسی مزاحمت کے فتح ہو جائے گا۔ مسعود نے یہ درخواست پڑھ کر صلح کا ارادہ فوراً ترک کر دیا اور محاصرے کی شدت میں معقول اضافہ کر دیا۔ قلعے کے ارد گرد ایک بہت گہری خندق کھدی ہوئی تھی۔ مسعود کے حکم سے اس خندق کو گنوں سے پاٹ دیا گیا اس علاقے کے گرد و نواح میں گنا بکثرت پیدا ہوتا ہے خندق کو پاٹ کر اس کی سطح اتنی بلند کی گئی کہ لشکر اس پر چڑھ کر باآسانی قلعے تک پہنچ سکتا تھا مسلمان اسی ذریعے سے قلعے کے اندر گھس گئے۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کو قتل کیا۔ ان کے بیوی بچوں کو قید کیا اور ان کا مال و اسباب اپنے قبضے میں کر لیا۔ سلطان مسعود نے مسلمان تاجروں کو ان کی دولت واپس کر دی اور یوں دنیا میں اپنا نیک نام چھوڑا۔
قحط اور مرض
ترمیماس سال دنیا کے اکثر حصوں میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے ایک زبردست قحط پڑا تھا۔ قحط گیا تو ایک عالمگیری وباء نے اپنا رنگ جمایا۔ اس وبا سے صرف اصفهان ہی میں چالیس ہزار آدمی لقمہ اجل ہو گئے۔ ہندوستان کے اکثر شہروں اور دیہاتوں وغیرہ میں مرنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ کھیتی باڑی اور دیگر پیشوں کے لیے مزدوروں کا ملنا مشکل ہو گیا۔ بغداد کے نواحی علاقوں موصل اور جرجستھان میں "جدری" (چیچک) کے مرض کی وبا پھیلی۔ ان شہروں کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں دو تین افراد اس مرض جان کاہ کا شکار نہ ہوئے ہوں۔
والی طبرستان پر حملہ
ترمیمسلطان مسعود نے 435ھ میں آئل اور ساری (طبرستان کے دو مقالات) فتح کرنے کا ارادہ کیا۔ ان علاقوں کے باشندوں نے آپس میں مل کر سلطان مسعود کا مقابلہ کیا۔ لیکن غزنوی فوج کے سامنے ان کا زور نہ چل سکا اور سلطان مسعود کو فتح نصیب ہوئی۔ ابا کا کالنجار امیر طبرستان نے اپنا ایک پیامبر سلطان مسعود کی خدمت میں بھیجا اور اس کا مطیع رہنے کی درخواست کی اور یہ وعدہ کیا کہ وہ اپنے ملک میں مسعود کے نام کا سکہ اور خطبہ جاری کرے گا۔ (مسعود نے صلح کی یہ شرط مان لی) امیر طبرستان نے اپنے فرزند بهمن اور برادر زادے شیردیہ کو گورگان روانہ کیا اور سلطان مسعود واپس غزنی روانہ ہوا۔
ترکمانیوں سے معرکہ آرائی
ترمیمجب سلطان مسعود نیشاپور پہنچا تو وہاں کے باشندے ترکمان سلجوقی کے ظلم و ستم کی شکایت لے کر مسعود کے پاس آئے اور اس سے امان طلب کی۔ مسعود نے بک تعذی اور حسین بن علی میکال کو ایک زبردست فوج کے ساتھ ترکمانوں کی سرزنش کے لیے روانہ کیا جب یہ فوج شقيد القاق (نامی مقام پر) پہنچی تو ترکمانیوں کا ایک پیامبر بک تعذی کے پاس پہنچا اور اس سے کہا کہ "ترکمانی یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہماری ساری قوم غزنویوں کی تابع اور امیر مسعود کی طرف دار ہے اگر ہمیں تباہ و برباد کیا گیا تو اس سے آس پاس کے علاقوں کے باشندوں کو تکلیف ہو گی۔ لہذا اگر سلطان مسعود ہماری معاش کے لیے زمین کی حد بندی کر دے تو ہم اقرار کرتے ہیں کہ آئندہ ہم کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گے۔" بک تعذی ترکمانی قاصد کے ساتھ ذرا سختی سے پیش آیا اور اسے جواب دیا کہ ترکمانیوں سے جا کر کہہ دو کہ اطاعت کا اقرار کریں اور آئندہ کسی بد اعمالی کے مرتکب نہ ہوں۔ نیز اپنا ایک قابل اعتبار آدمی سلطان مسعود کی خدمت میں بھیجے کہ میرے نام ایک شاہی فرمان منگوائیں تاکہ میں ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کروں اگر یہ شرائط منظور نہ ہوں تو پھر ہمارے اور ان کے درمیان تلوار ہی سے صلح ہوگی۔ ترکمانیوں کو جب یہ جواب ملا تو وہ مجبوراً جنگ کے لیے تیار ہوئے اور بڑی سرفروشی اور جان بازی سے لڑے لیکن بک تعذی کے سامنے ان کا زور نہ چلا اور شکست کھا کر میدان جنگ سے بھاگ گئے۔ بک تعذی نے ترکمانیوں کا تعاقب کیا اور ان کے بیوی بچوں کو اپنا قیدی بنا کر ان کے تمام مال و دولت پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد غزنوی فوج لوٹ مار کے لیے ادهر ادهر منتشر ہو گئی۔ ترکمانوں کو ایک اچھا موقع ہاتھ آیا تو انھوں نے درہ کوہ سے نکل کر بک تعذی کی فوج پر حملہ کر دیا۔ طرفین میں دو دن اور دو رات تک زبردست لڑائی ہوتی رہی۔ غزنوی سپاہیوں کی تعداد کم تھی اس لیے میدان جنگ سے ان کے قدم اکھڑنے لگے یہ عالم دیکھ کر بک تحذی نے حسین میکال سے کہا اب یہاں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہ ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ میدان جنگ سے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں. حسین میکال نے یک تعذی کے مشورے پر عمل نہ کیا۔ یک تعذی خود میدان جنگ سے بھاگ نکلا. میکال نے بڑی ہمت و جرات سے کام لیا اور خوب جان توڑ کر لڑتا رہا آخر کار دشمنوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ بک تعذی جان چھپا کر بھاگتا ہوا نیشاپور پہنچا اور سلطان مسعود سے سارا ماجرا بیان کیا۔ سلطان کو اس واقعے سے بڑا رنج ہوا اور وہ 436ھ میں ناکام و نامراد واپس غزنی روانہ ہوا۔
احمد نیالتگین کی سرکشی
ترمیماسی زمانے میں ہندوستان سے احمد نیالتگین کی بغاوت کی خبریں آئیں۔ سلطان مسعود نے نانھ نام کے ایک ہندو سردار کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ ناتھ اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوا اور اس سے معرکہ آرا ہوا دونوں میں زبردست جنگ ہوئی۔ احمد نے بڑی دلیری اور جوانمردی کے ساتھ ناتھ کا مقابلہ کیا اس لڑائی میں ناتھ مارا گیا اور غزنوی فوج کو شکست ہوئی۔ جب سلطان مسعود تک اس واقعے کی اطلاع پہنچی تو اس نے تولک بن حسین کو جو ہندووں کا بہت بڑا امیر تھا نیالتگین کے مقابلے پر روانہ کیا۔ تولک نے نیالتگین سے جنگ کر کے اسے شکست دی۔ نیا لتگین پریشانی کے عالم میں منصورہ ، ٹھٹھہ اور سندھ کی طرف بھاگ گیا۔ تولک نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے جس ساتھی کو دیکھا اس کے کان اور ناک کاٹ کر اسے چھوڑ دیا۔ احمد ہانپتا کانپا دریائے سندھ کے کنارے تک پہنچا وہ دریا کو پار کر کے دوسری طرف اترنا ہی چاہتا تھا کہ دفعتاً دریا میں سیلاب آگیا اور نیالتگین اس سیلاب کے سامنے بے دست و پا ہو کر رہ گیا اور یوں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ پانی کے بہاو نے نیالتگین کی لاش جب کنارے پر پھینک دی تو لاش کو غزنوی سپاہیوں نے اپنے قبضے میں کر لیا اور اس کا سر کاٹ کر تولک کے سامنے پیش کیا۔ تولک نے سر کو سلطان مسعود کے پاس غزنی بھیج دیا۔
عالی شان تاج
ترمیم437ھ میں سلطان مسعود نے غزنی میں ایک نیا محل تعمیر کروایا۔ اس میں ایک بڑا خوبصورت جڑاؤ تخت بچھایا گیا اور اس تخت پر ایک عالی شان تاج جس کا وزن ستر من تھا۔ (من کا وزن فارس میں آدھا سیر کے قریب ہے) سونے کی زنجیروں سے باندھ کر لٹکایا گیا۔ سلطان مسعود نے اس جڑاؤ تخت پر قدم رنجہ فرمایا اور یہ تاج اپنے سر پر رکھا۔ اس سلسلے میں اس نے دربار عام منعقد کیا اور ہر شخص کو اپنی ملاقات سے نوازا۔
قلعہ ہانسی اور سون پت کی فتح
ترمیماسی سال سلطان مسعود نے اپنے بیٹے مودود غزنوی کو صاحب طبل و علم کیا اور خود قلعہ ہانسی کو فتح کرنے کے لیے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا۔ طبقات ناصری کے مولف کا بیان ہے کہ اس زمانے میں ہانسی سوالک کا دار السلطنت تھا اور ہانسی کا قلعہ بہت ہی مضبوط تھا۔ اس کی بابت ہندو عقیدہ رکھتے تھے کہ اب کبھی کوئی مسلمان فرمانروا تسخیر نہیں کر سکتا۔ سلطان مسعود نے ہانسی پہنچ کر اس قلعے کا محاصرہ کر لیا اور چھ روز کی محنت کے بعد اسے فتح کر لیا۔ اس قلعے سے بہت سا مال غنیمت مسعود کے ہاتھ لگا۔ اس نے یہ قلعہ اور تمام مال غنیمت اپنے قابل اعتماد سرداروں کے حوالے کیا اور خود سون پت کا قلعہ فتح کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ سون پت کے راجا دیپال ہری کو جب یہ معلوم ہوا کہ سلطان مسعود اس کی سرزنش کے لیے آ رہا ہے تو وہ پریشان و بد حواس ہو کر جنگل کی طرف بھاگ گیا۔ غزنوی لشکر نے سون پت پہنچ کر وہاں کے قلعہ کو تسخیر کر لیا اور اس کے تمام بتوں کو پاش پاش کر کے تمام مال و دولت پر اپنا قبضہ کر لیا۔ مسلمانوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ دیپال ہری راجا سون پت یہاں سے فرار ہو چکا ہے تو انھوں نے اس کا تعاقب گیا۔ دیپال کو جب اس کی خبر ہوئی تو اس نے اپنا ساز و سامان اور لشکر جنگل ہی میں چھوڑ دیا اور خود کسی گوشے میں روپوش ہو گیا۔ مسلمانوں نے دیپال ہری کے ساز و سامان پر قبضہ کیا اور اس کے لشکر کو گرفتار کر کے یہاں سے دره رام دیو کی طرف بڑھے۔ راجا رام دیو اپنی آنکھوں سے دیپال ہری کا حشر دیکھ چکا تھا۔ اسے جب سلطان مسعود کی آمد کی خبر ہوئی تو اس نے بڑی دانشمندی سے کام لیا۔ اس نے بہت سا مال و دولت سلطان کی خدمت میں روانہ کیا اور یہ درخواست کی کہ میں بہت ضعیف اور کمزور ہوں اس لیے مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ بذات خود خدمت اقدس میں حاضر ہو سکوں میرے حال پر رحم کیا جائے اور جو کچھ ارسال خدمت ہے اسے قبول کیا جائے اور مجھے اپنے اطاعت شعاروں میں شمار کیا جائے۔ سلطان نے اس کی درخواست قبول کر لی اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا یہاں سے وہ سون پت واپس آگیا۔ امیر مسعود نے سون پت کی حفاظت اور انتظام کے لیے اپنے ایک معتد امیر کو وہاں چھوڑا اور خود سون پت کے آس پاس کے علاقوں کی تسخیر میں مصروف ہو گیا۔ ان علاقوں کو اس نے بہت جلد فتح کر لیا۔ ان پر قبضہ کرنے کے بعد وہ غزنی کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب سلطان مسعود لاہور پہنچا تو اس نے کچھ دن وہاں قیام کیا اس نے اپنے دوسرے بیٹے ابو المجدود کو وہاں کا حاکم بنایا اور اسے طبل و علم عطا کیا اور ایاز خاں کو اس کا اتابک (عینی اتالیق) مقرر کر کے خود واپس غزنی روانہ ہوا۔
طغرل بیگ کی سرزنش کا ارادہ
ترمیمترکمانیوں کی شورشوں کو ختم کرنے کے لیے سلطان مسعود 438ھ میں بلغ پہنچا۔ ترکمانیوں کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ بلغ کو چھوڑ کر ادھر ادھر کے علاقوں میں منتشر ہو گئے۔ بلخ کے باشندوں نے سلطان مسعود کی خدمت میں حاضر ہو کر گزارش کی کہ سلطان کی غیر موجودگی میں طغرل بیگ نے دریا کو پار کر کے کئی بار مسلمانوں کو مارا اور لوٹا ہے۔ سلطان مسعود نے یہ سن کر موسم سرما میں ہی طغرل کی سرکوبی کا ارادہ کیا اور ترکمانیوں کی سرزنش کو موسم بہار کے ابتدائی زمانے تک کے لیے ملتوی کیا۔ سلطنت کے امرا اور فوجی افسروں وغیرہ کو بادشاہ کے اس ارادے کی خبر ہوئی تو انھوں نے گزارش کی کہ دو سال سے ترکمانی خراسان میں لوٹ مار مچائے ہوئے ہیں اور اہل خراسان ان کی اس روش سے اس حد تک عاجز آ چکے ہیں کہ خراسانیوں کا ایک بڑا حصہ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے اس وقت یہی مناسب ہے کہ سب سے پہلے ترکمانیوں کا قلع قمع کیا جائے اور پھر اس کے بعد کسی اور طرف توجہ کی جائے۔ (سبھی لوگ بادشاہ کے اس ارادے کے مخالف تھے اور اس کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگے) ایک شاعر نے اس مضمون کی ایک نظم بھی لکھی کہ بادشاہ کو پہلے طغرل بیگ پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس نے یہ نظم سلطان مسعود کی خدمت میں پیش کی لیکن سلطان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے ارادے پر قائم رہا۔ اس کا یہ خیال تھا کہ طغرل بیگ کا ملک بآسانی اس کے قبضے میں آجائے گا۔ لہذا اس نے دریائے جیحون پر پل بندھوایا اور دریا کو پار کر کے ماوراء النہر پہنچا۔ ماوراءالنہر میں کسی نے سلطان مسعود کا مقابلہ نہ کیا اس لیے اس صوبے کے بہت سے علاقوں پر مسعود نے بغیر کسی روک ٹوک کے قبضہ کر لیا۔ ان دنوں میں اس علاقے میں شدید برف باری اور بارش ہوئی ، ایک تو سردیوں کا موسم اور دوسرے یہ مصیبت اس وجہ سے غزنوی فوج کو بہت سی تکلیفوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس زمانے میں داؤد سلجوقی نے سر اٹھایا اور وہ سرخس سے بلغ کی طرف بڑھا۔ خواجہ احمد وزیر نے بلغ سے سلطان مسعود کو اطلاع دی کہ داؤد سلجوقی ایک زبردست لشکر کے ساتھ بلغ کی طرف آ رہا ہے اور میرے پاس اتنی فوج اور سامان جنگ نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں صف آرا ہو سکوں۔ یہ خبر ملتے ہی سلطان مسعود بلغ کی طرف روانہ ہو گیا۔ جو نہی سلطان بلغ کی طرف روانہ ہوا طغرل نے غزنی پر حملہ کر دیا اور بہت سے شاہی اونٹ اور گھوڑے لوٹ کر لے گیا۔ اس لوٹ مار کے دوران میں طغرل نے اہل غزنی کو خوب جی بھر کے بے عزتی کی۔ سلطان مسعود جب بلخ کے قرب و جوار میں پہنچا تو داؤد بلغ پر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے مرو کی طرف چلا گیا۔ سلطان نے بلغ پہنچ کر اپنے بیٹے مودود کو ساتھ لیا اور داؤد کے تعاقب میں گورگان کی طرف روانہ ہو گیا۔ گورکان میں کچھ لوگ علی تقندری کے ظلم و ستم کا شکار تھے انھوں نے سلطان مسعود کی خدمت میں حاضر ہو کر على تقندری کی شکایت کی اور اس کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کی درخواست کی۔ على تقندری ایک ظالم عیار اور چالاک ڈاکو تھا لوٹ مار اس کا پیشہ تھا اور اس پر وہ گذر بسر کرتا تھا۔ سلطان مسعود نے اس سے اطاعت گزاری کے لیے کہا۔ اس نے نے انکار کیا اور حسب معمول اپنی روش پر چلتا رہا، علی تقندری نے جب دیکھا کہ سلطان جنگ کا ارادہ کر رہا ہے تو وہ قلعہ میں پناہ گزین ہو گیا۔ مسعود نے اس قلع کی تسخیر کے لیے لشکر کا ایک دستہ روانہ کیا ان سپاہیوں نے بآسانی قلعے کو فتح کر لیا اور علی تقندری کو گرفتار کر کے سلطان کے سامنے لائے ، مسعود نے اس بد معاش شخص کو اس کی بد اعمالیوں کی سزا دی اور پھانسی پر چڑھا دیا۔
ترکمانیوں سے معاہده
ترمیمجب ترکمانیوں کو یہ معلوم ہوا کہ سلطان مسعود ایک زبردست لشکر لے کر مرو کی طرف آ رہا ہے تو انھوں نے ایک قاصد کے ذریعہ سلطان کے پاس پیغام بھیجا کہ ہماری قوم پوری طرح بادشاہ کی فرماں بردار اور اطاعت گزار ہے۔ ہم نے اب تک جو بدعنوانیاں کی ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی ذریعہ معاش نہیں۔ اگر بادشاہ ہماری معاش کے لیے مدد فرمائے اور ہمارے لیے اتنی جاگیر وقف کر دے کہ اس کی آمدنی سے ہمارے اہل و عیال اور جانوروں کی کفالت ہو سکے تو ہم سب اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی گذشتہ بد کرداریوں کے لیے معافی مانگیں گے اور آئندہ کے لیے ایسی حرکتوں سے توبہ کریں گے۔ سلطان مسعود نے ترکمانیوں کی اس درخواست کو قبول کر لیا اور ان کے سردار مسمی پیغو کے پاس اپنا ایک قاصد بھیجا تا کہ ترکمانی اپنے وعدوں کی کوئی ضمانت دے کر سلطان مسعود کو اپنی نیک چلنی کا یقین دلا دیں۔ ترکمانیوں نے مسعود کی خواہش کے مطابق قول و قسم دے کر اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا یقین دلایا اور مسعود نے بھی ان کی خواہش کو پورا کیا اور ان کی گذر بسر کے لیے جاگیر وقف کر دی یہاں سے مسعود نے ہرات کی طرف کوچ کیا۔ راستے میں ترکمانیوں کے ایک گروہ نے مسعود کے لشکر پر چھاپہ مارا چند سپاہیوں کو قتل کر کے وہ لوگ تھوڑا بہت مال بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ مسعود نے اپنے لشکر کا ایک دستہ ان کے پیچھے روانہ کیا۔ اس دستے نے ترکمانیوں کے اس گروہ کو جا لیا اور انھیں تہ تیغ کر دیا۔ ان مقتولوں کے سر اور اہل و عیال کو ساتھ لے کر یہ دستہ سلطان مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مسعود نے ان مردہ اور زندہ ترکمانیوں کو گدھوں پر سوار کر کے پیغو کے پاس بھجوا دیا۔ اور اس سے کہلا بھیجا یہ دیکھو اور آئندہ کے لیے ہوشیار ہو جاؤ۔ جو کوئی وعدہ خلافی کرتا ہے اور اپنے عہد کو توڑتا ہے اس کا یہی حال ہوتا ہے۔ پیغو نے اس جماعت سے اپنی لا علمی کا اظہار کیا اور جواب میں سلطان مسعود کو کہلا بھیجا۔ "میں خود بھی ان لوگوں سے بیزار تھا اور میں خود ان کو سزا دینا چاہتا تھا جو انھیں خود بخود مل گئی۔" سلطان مسعود ہرات سے نیشاپور آیا اور وہاں سے طوس کی طرف روانہ ہوا۔ طوس کے قرب و جوار میں بھی ترکمانیوں کے ایک چھوٹے سے لشکر نے سلطان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔ مسعود نے انھیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اور طوس کے شہر میں داخل ہوا- یہاں پہنچ کر سلطان مسعود کو معلوم ہوا کہ باد آورد کے باشندوں نے قلعہ ترکمانیوں کے حوالے کر دیا ہے۔ مسعود نے طوس کے قلعہ کو ختم کر کے اہلیان قلعہ کو قتل کیا اور پھر نیشاپور کی طرف واپس ہوا۔ سلطان مسعود نے سردیوں کا زمانہ نیشاپور ہی میں بسر کیا اور 430ھ کے موسم بہار میں طغرل بیگ کو کچلنے کے ارادے سے بار آورد کی طرف روانہ ہوا۔ طغرل نے جب مسعود کی آمد کی خبر سنی تو وہ ڈر کے مارے تزن کی طرف فرار ہو گیا۔ طغرل کے فرار کی خبر سن کر مسعود نے راستے ہی سے اپنی باگ موڑی اور مہتہ ہوتا ہوا سرخس کی طرف چل نکلا۔ مہتہ میں مسعود کو معلوم ہوا کہ یہاں کے باشندے بھی بغاوت پر آمادہ ہیں اور خراج ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ مسعود نے یہاں کے باشندوں کو اس نافرمانی کا مزا چکھایا۔ بعض کو قتل کیا بعض کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انھیں معذور اور ناچار بنایا اور ان کے قلع کوفتح کر کے آگے بڑھا اور دندانقان میں پہنچا۔
ترکمانیوں سے جنگ
ترمیمرمضان 430ھ کو سلطان مسعود کو ایک بار پھر ترکمانیوں سے واسطہ پڑا۔ ان کے ایک زبردست لشکر نے سلطان مسعود کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بادل ناخواستہ مسعود نے بھی اپنی فوج کو مرتب کیا اور فریقین میں لڑائی شروع ہو گئی۔ لڑائی کے دوران میں سلطان کے لشکر کے کئی سردار دشمن سے جا ملے (دشمن کی طرف سے لڑنے لگے) مسعود نے جب اپنے ساتھی سرداروں کی یہ نمک حرامی دیکھی تو وہ بذات خود میدان جنگ میں اترا۔ ترکمانیوں کے بیشتر سپاہیوں کو اس نے تلوار کے گھاٹ اتار کر سب پر اپنی دھاک بیٹھا دی۔ وہ اس جوان مردی سے لڑا کہ شاید ہی کسی بادشاہ نے میدان جنگ میں ایسی بہادری کا مظاہرہ کیا ہو مگر اس کا کیا علاج کہ مسعود کے برے دن آ چکے تھے۔ فوج کا کچھ حصہ تو دشمنوں سے جا ملا اور جو باقی بچا تھا اس نے میدان جنگ سے فرار ہو کر غزنی کی راہ لی۔ جب مسعود نے یہ دیکھا کہ اس کے آس پاس کوئی ساتھی باقی نہیں رہا ہے تو اس نے مجبور ہو کر لڑائی سے ہاتھ اٹھایا اور دشمن کی صفوں کو چیرتا ہوا میدان جنگ سے بھاگ نکلا۔ دشمنوں نے اسے تنہا بھاگتے ہوئے دیکھا لیکن کسی کو یہ جرات نہ ہوئی کہ اس کا تعاقب کرتا۔ سلطان مسعود اسی طرح بھاگتا ہوا مرو پہنچا وہاں اس کے مفرور لشکر کا کچھ حصہ اس سے آملا۔ راستے میں مسعود نے ان مفرور سپاہیوں سے کسی قسم کی کوئی بات نہ کی اور انھیں ساتھ لے کر غزنی پہنچا۔ یہاں اس نے مفرور سپاہیوں کے مشہور سرداروں علی دایہ ، بک تعذی اور حاجب شیبانی وغیرہ کو گرفتار کر کے انھیں سخت زلیل و رسوا کیا اور آخر کار انھیں ہندوستان بھجوا کر وہاں کے مختلف قلعوں میں قید کروا دیا۔ ان قیدیوں میں سے اکثر نے قید کی حالت ہی میں بہت جلد وفات پائی۔
حفاظتی انتظامات
ترمیمان مفرور سپاہیوں کو سزا دینے کے بعد مسعود ترکمانیوں کو کچلنے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ آخر کار اس نے ہندوستان جانے کا ارادہ کیا تاکہ وہاں اپنے لشکر میں نئے سپاہیوں کو داخل کر کے اپنی قوت میں اضافہ کرے اور پھر ترکمانیوں سے معرکہ آراء ہو کر انھیں ان کی بد اعمالیوں کی پوری سزا دے۔ اس کے بعد مسعود نے اپنے بیٹے مودود کو دوباره بلغ کا امیر مقرر کیا اور خواجہ محمد بن عبد الصمد وزیر کو اس کے ہمراہ روانہ کیا۔ ازمگین کو بھی مودود کا مصاحب بنایا اور چار ہزار سپاہیوں کے لشکر کے ساتھ اسے بھی بلغ روانہ کر دیا۔ سلطان کا دوسرا لڑکا شہزادہ امیر مجدود غزنوی لاہور سے آیا ہوا تھا اسے سلطان نے دو ہزار سپاہیوں کے سات ملتان روانہ کیا کہ وہ یہاں کے نظام حکومت کو بہتر بنائے اور ابتری و انتشار پیدا نہ ہونے دے۔ تیسرے بیٹے امیر ایزدیار غزنوی کو سلطان مسعود نے کوہ پایہ غزنی کی طرف روانہ کیا تا کہ وہاں کے سرکش افغانیوں کو قابو میں رکھا جائے اور اس طرح غزنوی سلطنت کی سرحدیں انتشار سے محفوظ رہیں۔
غلاموں کی بغاوت اور سلطان کی گرفتاری
ترمیمان حفاظتی انتظامات کے بعد سلطان مسعود نے اپنے باپ (محمود غزنوی) کی جمع کی ہوئی تمام دولت اونٹوں پر لادی اور اس خزانے کو اپنے ساتھ لے کر لاہور کی طرف روانہ ہوا۔ سلطان نے راستے ہی میں اپنے ایک آدمی کو اس کام کے لیے بھیجا کہ وہ اس کے بھائی محمد غزنوی کو قلعے سے نکال کر ان کے سامنے لائے۔ سلطان رباط مارکلہ (مارگیلہ)(یہ مقام راولپنڈی اور اٹک کے درمیان واقع ہے) دریائے جہلم کے قریب پہنچا تو سلطان کے قابل اعتبار غلاموں نے لالچ میں آ کر اونٹوں پر لدے ہوئے خزانے کو جی کھول کر لوٹا اور اس دوران میں سلطان کے بھائی محمد غزنوی بھی وہاں پہنچ گیا۔ ان نمک حرام غلاموں نے جنھوں نے خزانہ شاہی کو لوٹا تھا یہ خیال کیا کہ سلطان مسعود کو معزول کر دینا مناسب ہے ورنہ وہ ان کی ناشائستہ حرکت کو معاف نہ کرے گا۔ (اور کڑی سزا دے گا) یہ سوچنے کے بعد ان غلاموں نے سلطان مسعود پر حملہ کر دیا۔ مسعود مجبوراً رباط مارکلہ میں قلعہ بند ہو گیا۔ غزنوی فوج کا ہر چھوٹا بڑا فرد آئے دن کی جنگوں سے تنگ آ چکا تھا نیز وطن کی جدائی کی وجہ سے بھی یہ سب لوگ پریشان تھے۔ اس بنا سارے لشکر نے سلطان کی مخالفت کی۔ یہ لوگ رباط کے اندر داخل ہو گئے اور سلطان مسعود کو گرفتار کر کے امیر محمد غزنوی کے پاس لے آئے۔ امیر محمد نے اپنے بھائی سے کہا
- میں نہیں چاہتا کہ تمھیں قتل کر دوں ہاں نظر بند ضرور کروں گا ، تم جو جگہ اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے منتخب کرو میں وہیں تمھیں قید کر دوں گا۔ تاکہ تم اپنی زندگی کے باقی دن اطمینان اور آرام سے بسر کر سکو۔
سلطان مسعود نے قلعہ گیری (یہ قلعہ دریائے سندھ کے قریب واقع تھا) میں رہنا پسند کیا اور روانگی کی تیاری کرنے لگا۔ مورخین کا بیان ہے جس وقت مسعود غزنوی روانہ ہوا اس وقت اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی لہذا اس نے ایک آدمی کو اپنے بھائی محمد غزنوی جو اس وقت سلطان تھا کے پاس بھیجا تا کہ وہ اخراجات کے لیے رقم لائے۔ سلطان نے پانچ سو درہم بھجوائے۔ جب یہ رقم مسعود کے سامنے آئی تو اسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اسی عالم میں اس کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔ سبحان اللہ كل اس وقت میرے قبضے میں زر و جواہر سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹ تھے اور آج میری بد قسمتی کا یہ عالم ہے۔ مسعود نے اسی وقت اپنے چند ساتھیوں سے ایک ہزار دینار بطور قرض لیے اور وہ پانچ سو درہم جو سلطان نے بھجوائے تھے اسی شخص کو بطور انعام دے دیے جو لے کر آیا تھا۔
سلطان مسعود کا قتل
ترمیممحمد غزنوی جب دوبارہ سلطان بنے تو اس وقت چونکہ نابینا تھے اس لیے اس نے زندگی کو سادہ طریقے سے بسر کرنے پر اکتفا کیا اور سلطنت کا تمام کاروبار اپنے مخبوط الحواس بیٹے احمد غزنوی کے سپرد کر دیا۔ احمد عنان حکومت ہاتھ میں لیتے ہی سلیمان بن یوسف سبکتگین اور علی خویشاوند کے بیٹے کو ساتھ لے کر ایک روز قلعہ گیری میں داخل ہو گیا اور اس نے بغیر اپنے باپ کی اجازت سے سلطان مسعود کو قتل کر دیا۔ یہ واقعہ 433ھ کا ہے۔ بعض مورخین کا بیان ہے کہ احمد نے مسعود کو زندہ کنوئیں میں پھینکوا کر کنوئیں کو پتھر اور مٹی سے پر کر دیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ احمد نے دایہ محمد کو مجبور کر کے مسعود کو قتل کروایا۔
مدت حکومت
ترمیمتاریخ گزیدہ کے بیان کے مطابق سلطان مسعود نے نو سال نو ماہ حکومت کی لیکن بعضوں کے خیال میں اس کی مدت حکومت بارہ سال ہے۔
سیرت
ترمیمسلطان مسعود بڑا بمادر رحم دل اور ہنس مکھ انسان تھا۔ اسے علما و فضلاء سے بے حد عقیدت تھی اور وہ ہمیشہ ان کی صحبت میں بیٹھنا پسند کرتا تھا۔ اس کے زمانہ کے بہت سے علما و فضلاء نے اپنی کتابیں اس کے نام سے معنون کی ہیں۔ استاد خوارزمی ابوریحان البیرونی منجم اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم اور فن ریاضی کے ماہر تھے۔ ان کی کتب قانون مسعودی ایک اعلی درجے کی کتاب ہے جو فن ریاضی سے متعلق ہے۔ یہ کتاب جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے سلطان مسعود کے نام پر لکھی گئی۔ اس گراں با تصنیف کے سلسلے میں سلطان مسعود نے ابو ریحان کو ایک ہاتھی کے وزن کے برابر چاندی دی۔ قاضی ابو محمد نامی نے اپنی عظیم الشان کتاب کو جو فقہ حنفی سے متعلق ہے۔ سلطان مسعود ہی کے نام سے منسوب کیا اور اس کا نام کتاب مسعودی رکھا۔ "تاریخ رونته الصفا“ میں بیان کیا گیا ہے کہ مسعود محتاجوں اور غریبوں وغیرہ کا بہت خیال رکھتا تھا اور ہمیشہ انھیں صدقہ اور خیرات دیا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں سلطان مسعود نے صرف ایک دن میں ایک لاکھ سے زیادہ درہم خیرات کیے۔ مسعود کی حکومت کے زمانے میں ممالک غزنویہ میں بے شمار مسجدیں اور مدرسے تعمیر ہوئے۔"
اولاد
ترمیمتاریخی کتب میں سلطان مسعود غزنوی کے آٹھ بیٹوں کا ذکر ملتا ہے۔
- مودود غزنوی
- مجدود غزنوی
- ایزدیار غزنوی[5]
- ابوالحسن علی غزنوی
- مروان غزنوی [6]
- فرخ زاد غزنوی
- ابراہیم غزنوی
- شجاع غزنوی [7]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ناشر: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا انک. — دائرۃ المعارف یونیورسل آن لائن آئی ڈی: https://www.universalis.fr/encyclopedie/mahmud-de-ghazni/ — بنام: MAḤMŪD DE GHAZNĪ (971-1030) souverain afghan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Vatican Library VcBA ID: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=8034&url_prefix=https://opac.vatlib.it/auth/detail/&id=495/204584 — بنام: Mas'ūd
- ↑ https://pantheon.world/profile/person/Mas'ud_I_of_Ghazni — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ہندوستان کا تاریخی خاکہ مولف کارل مارکس فریڈرک اینگلز ترتیب و تعارف احمد سلیم صفحہ 15
- ↑ تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 97 تا 107
- ↑ تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 114
- ↑ تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 119