محمد فاخر الہ آبادی
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
- نوٹ: "سید محمد فاخر الہ آبادی بیسویں صدی کے ہیں اور محدث فاخر زائر الہ آبادی اٹھارویں صدی کے علما میں سے ہیں، دونوں الگ الگ دور کی شخصیت ہیں
جب انگریزی جارحیت کے خلاف تحریک خلافت کی بنیاد پڑی تو سید محمد فاخر الٰہ آبادی اس وقت بننے والی خلافت کمیٹی کے اراکین میں سے تھے۔ نومبر 1919ء میں خلافت کانفرنس کے بعد مولانا عبدالباری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں جو علما شریک تھے، ان میں ان کا نام بھی نمایاں ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے بانی اراکین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر جمعیۃ علماء ہند کی سب سے پہلی مجلسِ منتظمہ میں شامل تھے۔ انھوں نے تحریکِ خلافت کے مقاصد کی ترویج کے لیے پورے ملک میں طوفانی دورے کیے اور تحریکِ خلافت کو ہندوستان بھر میں مضبوط کیا۔
محمد فاخر کا شمار ان 500 علمائے کرام میں بھی ہوتا ہے، جنھوں نے ترکِ موالات (تحریکِ عدمِ تعاون) کے حق میں متفقہ فتویٰ دیا تھا۔ تحریکِ خلافت کے سلسلے میں جب گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تو 21؍ جولائی 1920ء کو ان کے خلاف ایک مقدمے کا فیصلہ ہوا اور انھیں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے ساتھ 5 سیر مونجھ بانٹے کی سزا ہوئی۔
محمد فاخر کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جس وقت انھیں گرفتار کیا گیا، اس وقت تقریباً 10 ہزار افراد کا مجمع جیل کے دروازے پر موجود تھا۔ اس مجمع میں جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران، خلافت کمیٹی کے سربراہان کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی کثیر تعداد شامل تھی۔ تحریکِ آزادی کے عظیم رہنما شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن نے جمعیت علمائے ہند کے اجلاس کے خطبہ صدارت نومبر 1920ء میں محمد فاخر الٰہ آبادی کی گرفتاری کی پُرزور الفاظ میں مذمت فرمائی تھی اور دیگر فرزندانِ ہند کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو مسلمانوں پر ظلم قرار دیا تھا۔ ہندوستان بھر میں محمد فاخر الٰہ آبادی کو ان کی خدمات اور علمی مرتبے کی وجہ سے ’’فخرُ العلما‘‘ کا خطاب دیا گیا۔
تعلیم
ترمیم1892ء میں مدرسہ فیضِ عام کان پور سے فراغت کی سند حاصل کی۔ 1912ء میں اپنے والد ِگرامی سے سلسلۂ چشتیہ میں مرید ہوئے۔ مولانا شاہ محمد بشیر اجملیؒ اور مولانا شاہ محمد عبد العلیم قادری رشیدیؒ نے انھیں شرفِ خلافت سے نوازا۔
حوالہ جات
ترمیمماخذ : ماہنامہ رحیمیہ اگست 2020