محمود حسن دیوبندی

ہندوستانی عالم دین اور مشہور مجاہد آزادی (1851–1920ء)

محمود حسن دیوبندی (معروف بہ شیخ الہند؛ 1851ء – 1920ء) ہندوستان کے ایک نامور عالم دین اور مجاہد آزادی تھے، جنھوں نے دیگر شخصیات کے ساتھ مل کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور آزادی ہند کے لیے تحریک ریشمی رومال کا آغاز کیا۔ وہ دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے والے پہلے طالب علم تھے۔ ان کے اساتذہ میں محمد قاسم نانوتوی اور محمود دیوبندی شامل ہیں اور وہ تصوف میں امداد اللہ مہاجر مکی اور رشید احمد گنگوہی کے مجاز تھے۔

شیخ الہند، مولانا

محمود حسن دیوبندی
دار العلوم دیوبند کے تیسرے صدر المدرسین
برسر منصب
1890ء تا 1915ء
پیشروسید احمد دہلوی
جانشینانور شاہ کشمیری
جمعیت علمائے ہند کے دوسرے صدر
برسر منصب
نومبر 1920ء تا 30 نومبر 1920ء
پیشروکفایت اللہ دہلوی
جانشینکفایت اللہ دہلوی
ذاتی
مذہباسلام
ذاتی
پیدائش1851ء
وفات30 نومبر 1920(1920-11-30) (عمر  68–69 سال)
مدفنمزار قاسمی
مذہباسلام
نسلیتہندوستانی
فرقہسنی
فقہی مسلکحنفی
تحریکدیوبندی
بنیادی دلچسپیتفسیر، حدیث، تحریک آزادی ہند
قابل ذکر خیالاتتحریک ریشمی رومال
قابل ذکر کام
  • ترجمۂ شیخ الہند
  • ادلۂ کاملہ
  • ایضاح الادلہ
(تفصیل کے لیے دیکھیے قلمی خدمات)
اساتذہمحمود دیوبندی، محمد قاسم نانوتوی
طریقتچشتیہ-صابریہ-امدادیہ
بانئجامعہ ملیہ اسلامیہ
مرتبہ
استاذ

محمود حسن نے دار العلوم دیوبند کے صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور جمعیۃ الانصار اور نظارۃ المعارف جیسی تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اردو میں قرآن کا ترجمہ لکھا اور "ادلۂ کاملہ"، "ایضاح الادلہ"، "احسن القِریٰ" اور الجہد المُقِل جیسی کتابیں تصنیف کیں۔ انھوں نے دار العلوم دیوبند میں حدیث کا درس دیا اور سنن ابی داؤد کی تسہیل لکھی۔ ان کے اجل تلامذہ میں اشرف علی تھانوی، انور شاہ کشمیری، حسین احمد مدنی، کفایت اللہ دہلوی، ثناء اللہ امرتسری اور عبید اللہ سندھی شامل ہیں۔

محمود حسن برطانوی راج کے سخت مخالف تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں انگریزی اقتدار کا تختہ الٹنے کے لیے تحریکیں شروع کیں؛ لیکن 1916ء میں گرفتار کر کے انھیں مالٹا میں قید کر دیا گیا۔ انھیں 1920 میں رہا کیا گیا اور خلافت کمیٹی کی طرف سے انھیں "شیخ الہند" (ہندوستان کے رہنما) کے خطاب سے نوازا گیا۔ انھوں نے تحریک عدم تعاون کی حمایت میں فتوے لکھے اور مسلمانوں کو تحریک آزادی میں شامل کرنے کے لیے ہندوستان کے مختلف حصوں کا سفر کیا۔ انھوں نے نومبر 1920ء میں جمعیت علمائے ہند کے دوسرے اجلاس عام کی صدارت کی اور جمعیت علما کے صدر مقرر ہوئے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن میڈیکل کالج کا نام انھیں کی یاد میں رکھا گیا ہے۔ 2013ء میں، حکومت ہند نے ان کی تحریک ریشمی رومال پر ایک یادگار ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔

ابتدائی زندگی ترمیم

محمود حسن سنہ 1851ء میں بریلی ( اتر پردیش، ہندوستان) میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق دیوبند کے عثمانی خاندان سے تھا۔[1][2] ان کے والد، ذوالفقار علی دیوبندی، جو دارالعلوم دیوبند کے بانیان میں سے ہیں، بریلی کالج میں پروفیسر تھے اور میرٹھ میں مدارس و تعلیم کے ڈپٹی انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔[1][3]

محمود حسن نے میاں جی منگلوری سے قرآن اور عبد اللطیف سے فارسی پڑھی۔[1] 1857ء کی بغاوت کے دوران، ان کے والد کا میرٹھ ٹرانسفر ہو گیا اور محمود حسن کو دیوبند بھیج دیا گیا، جہاں انھوں نے اپنے چچا مہتاب علی سے درس نظامی نصاب سے فارسی اور عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔[1] وہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم بنے؛[4] اور انھوں نے ملا محمود کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔[5] انھوں نے 1869ء میں اپنی رسمی تعلیم مکمل کی اور محمد قاسم نانوتوی سے صحاح ستہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے میرٹھ گئے۔[6] انھوں نے دو سال تک قاسم نانوتوی کے دروس حدیث میں شرکت کی اور چھٹیوں میں اپنے والد کے پاس عربی ادب کی پڑھائی کی۔[7] انھوں نے 1872ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کی اور 1873ء میں دار العلوم دیوبند کے پہلے جلسہ میں ان کی اعزازی دستار بندی ہوئی۔[8][9] وہ تصوف میں امداد اللہ مہاجر مکی اور رشید احمد گنگوہی کے خلیفہ و مجاز تھے۔[10]

تدریس و دیگر خدمات ترمیم

دار العلوم دیوبند ترمیم

محمود حسنہ 1873ء میں دار العلوم دیوبند کے استاد مقرر ہوئے، جس سال انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔[2] وہ 1890ء میں دار العلوم کے صدر مدرس بنائے گئے۔[11][12][13] انھوں نے دیوبند کے مدرسے کو صرف علم کی جگہ نہیں سمجھا؛ بلکہ وہاں جنگ آزادی 1857ء کے نقصان کی تلافی کے لیے ایک انجمن قائم کی۔[4]

 
دار العلوم دیوبند کا ایک منظر

محمود حسن نے 1878ء میں ثمرۃ التربیۃ کے نام سے ایک انجمن کی تشکیل دی۔[14] جسے دار العلوم دیوبند کے طلبہ و فارغ التحصیل فضلا کی تربیت کے لیے ایک فکری مرکز کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔[15] اس کے بعد اس انجمن نے جمعیت الانصار کی شکل اختیار کی، جس کا آغاز 1909ء میں مراد آباد میں اس کے پہلے اجلاس کے ساتھ ہوا، جس کی صدارت احمد حسن امروہی نے کی تھی۔[16] اپنے شاگرد عبید اللہ سندھی کے ساتھ، محمود حسن نے پھر نومبر 1913ء میں نظارۃ المعارف القرآنیہ کا آغاز کیا۔[16][17] اس کا مقصد مسلم علما کے اثر و رسوخ کو بڑھانا اور انگریزی تعلیم یافتہ مسلم طبقہ کو اسلام کے بارے میں تعلیم دینا اور سکھانا تھا۔[18] حسین احمد مدنی فرماتے ہیں:

اس کے (نظارۃ المعارف) کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ انگریزی تعلیم سے نوجوانان اسلام کے عقائد اور خیالات پر جو بے دینی اور الحاد کا زہریلا اثر پڑتا ہے، اس کو زائل کیا جائے اور قرآن کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ ان کے شکوک و شبہات دین اسلام سے دور ہو جائیں اور وہ پکے اور سچے مسلمان ہو جائیں۔[19][20]

تحریک ریشمی رومال ترمیم

محمود حسن ہندوستان میں برطانوی راج کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ جس میں کامیابی کے لیے انھوں نے دو جغرافیائی علاقوں پر توجہ دی۔[21] پہلا خود مختار قبائل کا علاقہ تھا، جو قبائل افغانستان اور ہندوستان کے درمیان آباد تھے۔[21] اسیر ادروی لکھتے ہیں: "یہ بھی تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان پر حملہ آور قومیں ہمیشہ اسی راستے سے آئی ہیں، اگر شیخ الہند نے اس علاقہ کو مرکز توجہ بنایا تو یہ ان کے تدبر و فراست کی سب سے بڑی دلیل تھی۔"[22] دوسرا علاقہ ہندوستان کے اندر کا تھا۔ وہ ان تمام مخلص رہنماؤں کو متاثر کرنا چاہتے تھے جو ان کے مقصد کی حمایت کے لیے برادری کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اس میں وہ خاصی حد تک کامیاب رہے۔[22] پہلے محاذ پر جن علما نے کام کیا، ان میں ان کے تلامذہ اور رفقا جیسے عبد الغفار خان، عبد الرحیم سندھی، محمد میاں منصور انصاری، عبید اللہ سندھی اور عزیر گل پیشاوری شامل تھے۔[23] انھوں نے سرحدی علاقوں اور خود مختار قبائل میں محمود حسن کی تحریک کی اشاعت کی۔[24] دوسرے محاذ پر جن علما نے کام کیا ان میں مختار احمد انصاری، عبد الرحیم رائے پوری اور احمد اللہ پانی پتی شامل تھے۔[25] محمد میاں دیوبندی فرماتے ہیں: "میرے اندازے کے مطابق انھوں نے طے کیا تھا کہ جن جن اصحاب میں عملی صلاحیت پائیں، انھیں جابجا خصوصاً "یاغستان" (آزاد قبائل) کے مختلف حصوں میں دینی اور اسلامی درسگاہیں قائم کرنے کی ترغیب دیں۔"[26] اس تحریک کا آغاز ہندوستان کے اندر لوگوں کو انگریز سامراج کے خلاف تیار کرنے کے لیے کیا گیا تھا کہ افغان اور ترک حکومتیں؛ مجاہدین کو فوجی امداد فراہم کریں اور اس فوجی حملے کے دوران ملک کے اندر لوگ بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔[24] یاغستان محمود حسن کی تحریک کا مرکز تھا۔[27] بھارت کی عبوری حکومت کو محمود حسن کے شاگرد عبید اللہ سندھی اور ان کے ساتھیوں نے مرتب کیا تھا اور مہندر پرتاپ کو صدر مقرر کیا گیا تھا۔[28]

محمود حسن نے خود 1915ء میں جرمن اور ترکی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حجاز کا سفر کیا۔[29] وہ 18 ستمبر 1915ء کو بمبئی سے روانہ ہوئے اور ان کے ساتھ دیگر رفقا بھی تھے، جن میں محمد میاں منصور انصاری، مرتضی حسن چاند پوری، محمد سہول بھاگلپوری اور عزیر گل پشاوری شامل تھے۔[30][31] 18 اکتوبر 1915ء کو وہ مکہ گئے جہاں انھوں نے ترکی کے گورنر غالب پاشا اور انور پاشا سے ملاقاتیں کیں جو ترکی کے وزیر دفاع تھے۔[32][33] غالب پاشا نے انھیں مدد کی یقین دہانی کرائی اور انھیں تین خطوط دیے، ایک خط مسلمانان ہند کے نام، دوسرا گورنر بصری پاشا کے نام اور تیسرا انور پاشا کے نام۔[33] محمود حسن نے شام کے گورنر جمال پاشا سے بھی ملاقات کی، جس نے غالب پاشا کی باتوں سے اتفاق کیا۔[33] محمود حسن کو خدشہ تھا کہ اگر وہ ہندوستان واپس آئے تو انگریزوں کے ہاتھوں انھیں گرفتار ہونا ہڑے گا اور انھیں افغانستان کی سرحد تک پہنچنے کی اجازت دی جائے جہاں سے وہ یاغستان پہنچ سکیں۔[34] جمال پاشا نے ایک بہانہ بنایا اور انھیں بتایا کہ اگر انھیں گرفتاری کا خدشہ ہے تو وہ حجاز یا ترکی کے کسی دوسرے علاقے میں رک سکتے ہیں۔[34] اس کے بعد، ریشمی رومال تحریک نامی مشن کو لیک کر دیا گیا اور اس سے منسلک ارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔[35] محمود حسن کو دسمبر 1916ء میں ان کے رفقا اور تلامذہ حسین احمد مدنی اور عزیر گل پیشاوری کے ساتھ، شریف مکہ حسین ابن علی کی طرف سے گرفتار کیا گیا تھا، جس نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے انگریزوں کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔[36][29] پھر شریف نے انھیں انگریزوں کے حوالے کر دیا،[37] اور انھیں مالٹا میں قلعہ وردالہ میں قید کر دیا گیا۔[38]

تحریک خلافت ترمیم

محمود حسن کو مئی 1920ء میں رہا کیا گیا،[38] اور 8 جون 1920ء تک وہ بمبئی پہنچ چکے تھے۔[39] ان کا خیرمقدم بڑے علما اور سیاست دانوں نے کیا جن میں عبدالباری فرنگی محلی، حافظ محمد احمد، کفایت اللہ دہلوی، شوکت علی اور مہاتما گاندھی شامل تھے۔[40] ان کی رہائی کو تحریک خلافت کے لیے ایک بہت بڑی امداد کے طور پر دیکھا گیا[40] اور انھیں خلافت کمیٹی نے "شیخ الہند" (ہندوستان کے رہنما) کے خطاب سے نوازا۔[39]

محمود حسن نے مدرسہ دیوبند کے علما کو تحریک خلافت میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔[40] انھوں نے برطانوی سامان کے بائیکاٹ پر فتویٰ جاری کیا، جو اس وقت کے محمدن اینگلو اورینٹل کالج کے طلبہ کے استفتاء کے جواب میں تھا۔[41] اس حکم نامے میں، انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی طرح سے حکومت کا ساتھ دینے سے گریز کریں، سرکاری فنڈ سے چلنے والے اسکولوں اور کالجوں کا بائیکاٹ کریں اور سرکاری ملازمتوں سے گریز کریں۔[42] اس حکم کے بعد، طلبہ کی اکثریت کالج چھوڑ گئی۔[43] اس حکم نامے نے تحریک عدم تعاون کی حمایت کی۔[42] اس کے بعد محمود حسن نے الہ آباد، فتح پور، غازی پور، فیض آباد، لکھنؤ اور مرادآباد کا سفر کیا اور تحریکوں کی حمایت میں مسلمانوں کی رہنمائی کی۔[44]

جامعہ ملیہ اسلامیہ ترمیم

حسن سے کہا گیا کہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد کی تقریب کی صدارت کریں، جسے اس وقت مسلم نیشنل یونیورسٹی کا نام دیا گیا تھا۔[45] یہ یونیورسٹی محمود حسن نے محمد علی جوہر اور حکیم اجمل خان کے ساتھ مل کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ان طلبہ کے اصرار پر قائم کی،[46] جو اے ایم یو کے انگریز نواز تعصب سے مایوس تھے اور جو ایک نئی یونیورسٹی چاہتے تھے۔[47][48] محمود حسن کے بعض مخلصین نے مرض کی جانب توجہ دلائی کہ وہ اس پیشکش کو قبول نہ کریں کیونکہ وہ مالٹا میں قید کے وقت سے بہت کمزور ہو گئے تھے۔[49][45] محمود حسن نے ان کے خدشات کے جواب میں کہا، "اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہوگی، تو میں اس جلسہ میں ضرور شریک ہوں گا۔"[45] اس کے بعد انھیں ایک پالکی میں دیوبند ریلوے اسٹیشن لایا گیا، جہاں سے انھوں نے علی گڑھ کا سفر کیا۔[45]

محمود حسن کچھ لکھنے کے قابل نہیں تھے اور اپنے شاگرد شبیر احمد عثمانی سے کہا کہ وہ ان کی صدارتی تقریر تیار کریں۔ اس کے بعد انھوں نے تیار شدہ تقریر میں تصحیح اور بہتری کی اور اسے چھپوانے کے لیے بھیج دیا۔ 29 اکتوبر 1920ء کو یہ تقریر عثمانی صاحب نے یونیورسٹی کے جلسۂ سنگ بنیاد میں بلند آواز سے پڑھی،[50] جس کے بعد محمود حسن نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔[49] محمود حسن نے تقریر میں کہا کہ "آپ میں سے جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے اکابر سلف نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان کے سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتوی نہیں دیا۔ ہاں یہ بیشک کہا گیا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے کہ جو عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگے جائیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب اور مذہب والوں کا مذاق اڑائیں یا حکومت وقتیہ کی پرستش کرنے لگیں تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا اچھا ہے۔"[51] انھوں نے مہاتما گاندھی کی اس بات سے اتفاق کیا کہ "ان کالجوں کی اعلی تعلیم بہت اچھے صاف اور شفاف دودھ کی طرح ہے جس میں تھوڑا سا زہر ملا دیا گیا ہو۔"[51]

جمعیت علمائے ہند ترمیم

محمود حسن نے جمعیت علمائے ہند کے دوسرے اجلاس عام کی صدارت کی، جو نومبر 1920ء کو دہلی میں منعقد ہوا تھا۔[52] انھیں جمعیت کا صدر منتخب کیا گیا، اس عہدے پر وہ کچھ دنوں ہی یعنی [30 نومبر کو] اپنی وفات تک ہی خدمات انجام دے سکے۔[53] اجلاس عام 19 نومبر سے شروع ہو کر تین دنوں کو محیط رہا اور محمود حسن کی صدارتی تقریر ان کے شاگرد شبیر احمد عثمانی نے بلند آواز سے پڑھی۔[54] محمود حسن نے ہندو-مسلم-سکھ اتحاد کی وکالت کی اور کہا کہ اگر ہندو اور مسلمان متحد ہو جائیں تو آزادی حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں۔[55][56] یہ آخری اجلاس تھا، جس میں محمود حسن نے شرکت کی۔[56]

تلامذہ ترمیم

محمود حسن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔[57] ان کے بڑے شاگردوں میں غلام رسول ہزاروی،[58][59][60][61] انور شاہ کشمیری، اصغر حسین دیوبندی، اشرف علی تھانوی، حسین احمد مدنی، اعزاز علی امروہی، کفایت اللہ دہلوی، مناظر احسن گیلانی، محمد میاں منصور انصاری، محمد شفیع دیوبندی، ثناء اللہ امرتسری، شبیر احمد عثمانی، سید فخر الدین احمد، عبید اللہ سندھی اور عزیر گل پشاوری شامل ہیں۔[11][62][63] ابراہیم موسی بیان کرتے ہیں کہ "ان کے تلامذہ کی ایک اچھی خاصی جماعت نے بعد میں مدارس کے میدان میں شہرت حاصل کی اور جنوبی ایشیا میں عوامی زندگی میں مذہبی تعلیم، سیاست اور ادارہ سازی جیسے متنوع شعبوں میں اپنا حصہ قربان کیا۔"[64]

قلمی خدمات ترمیم

ترجمۂ قرآن ترمیم

محمود حسن نے اردو میں قرآن کا ایک بین سطری ترجمہ لکھا۔[65] بعد میں انھوں نے اس ترجمہ کو تفسیری نوٹوں کے ساتھ لکھنا شروع کیا، ابھی انھوں نے چوتھا پارہ النساء مکمل کیا تھا کہ 1920ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔[66] وہ تفسیر ان کے شاگرد شبیر احمد عثمانی نے مکمل کیا اور تفسیرِ عثمانی کے نام سے شائع ہوا۔[67] بعد میں افغانستان کے آخری بادشاہ محمد ظاہر شاہ کی زیر سرپرستی علما کی ایک جماعت نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا۔[68]

الابواب و التراجم للبخاری ترمیم

محمود حسن نے دار العلوم دیوبند میں صحیح بخاری کا درس دیا اور جب وہ مالٹا میں قید تھے تو صحیح بخاری کے باب کے عنوانات کی تشریح کرتے ہوئے ایک شرح لکھنا شروع کیا۔[69] علم حدیث میں، روایات کی تطبیق کے سلسلے میں "ترجمۃ الباب" کو ایک الگ علم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔[70] محمود حسن نے ترجمۃ الباب سے روایات کی مطابقت کے سلسلہ میں پندرہ اصول ذکر کیے ہیں اور پھر 'باب کیف بدأ الوحی' سے سلسلۂ کلام کا آغاز کیا اور کتاب العلم کے 'باب من أجاب السائل بأکثر مما سألہ' لکھا تھا کہ قضا و قدر کا فیصلہ نافذ ہو گیا اور وہ راہیِ عالمِ بقا ہو گئے۔[71] اس رسالے کا عنوان الابواب و الترجم للبخاری ہے اور وہ 32 صفحات پر مشتمل ایک نامکمل رسالہ ہے۔[69]

ادلۂ کاملہ ترمیم

جوں جوں ہندوستان میں تحریکِ اہل حدیث پروان چڑھنے لگی انھوں نے احناف کے خلاف سوال اٹھانا شروع کر دیے۔[72] اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی نے دس سوالات کا مجموعہ مرتب کیا[73] اور جواب دینے والوں کے لیے دس روپے فی جواب کے ساتھ انعام کے ساتھ چیلنج کا اعلان کیا۔ یہ امرتسر سے شائع ہوا اور دار العلوم دیوبند کو بھجوایا گیا۔[72] اس وقت علمائے دیوبند کی پالیسی یہ تھی کہ ایسے مسائل سے اجتناب کیا جائے جس سے امت مسلمہ میں تقسیم و انتشار پیدا ہو؛ لیکن اہل حدیث نے اس مسئلے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد محمود حسن نے اپنے استاد نانوتوی کے تعمیلِ حکم میں،[74] اہل حدیث کے سوالات کو پلٹ کر الٹا انھیں سے کئی سوالات پوچھے، اس چیلنج کے ساتھ کہ اگر آپ ان سوالات کا جواب دیں گے تو ہم آپ کو ہر جواب پر بیس روپے پیش کریں گے۔[75]

ایضاح الادلہ ترمیم

محمود حسن کی ادلۂ کاملہ کے بعد ایک دوسرے غیر مقلد عالم مولوی احمد حسن امروہوی نے ادلۂ کاملہ کے جواب میں مصباح الادلہ لکھی۔[74] دیوبندی عالم نے اصل مخاطب محمد حسین بٹالوی کے جواب کے لیے کچھ دنوں انتظار کیا،[76] جس نے پھر اعلان کیا کہ امروہوی کا جواب کافی ہے اور یہ کہ انھوں نے خود جوابات لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔[76] محمود حسن نے اس کے جواب کی طرف توجہ فرمائی اور ایک ضخیم کتاب ایضاح الادلہ شرح ادلۂ کاملہ معرضِ وجود میں آئی۔[76]

احسن القِرٰی ترمیم

حسن نے اس کتاب میں گاؤں اور دیہات میں نماز جمعہ کی اجازت پر بحث کی ہے۔[77] سید نذیر حسین دہلوی نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور ان کا ایک فتویٰ شائع ہوا تھا، جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جمعہ کے لیے کسی جگہ کی تخصیص نہیں، انھوں نے کہا کہ ہرجگہ جہاں چند آدمی جمع ہو جائیں جن کی اقل تعداد دو ہو، ان لوگوں کو جمعہ ادا کرنا ضروری ہے۔[77] حنفی فقیہ اور عالم، رشید احمد گنگوہی نے اس کے جواب میں 14 صفحات پر مشتمل ایک فتویٰ تحریر کیا، جسے حنفی مکتب فکر کے نقطۂ نظر سے اوثق العُریٰ کہا جاتا ہے۔[77]

گنگوہی کے کام کو غیر مقلدین علما کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں سے اکثر نے سابقہ دلائل کو دوبارہ پیش کیا۔[77] گنگوہی کے شاگرد محمود حسن نے محسوس کیا کہ ان کاموں کی زبان گستاخانہ ہے اور اس کے جواب میں اس نے ایک طویل کتاب لکھی جس کا نام احسن القِریٰ فی توضیح اوثق العُریٰ ہے۔[78]

جُھد المُقِلّ ترمیم

شاہ اسماعیل دہلوی اور ان کے رفقا کو، جنھوں نے بدعات (مذہبی اختراعات) سے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کام کیا، ان بدعات سے وابستہ لوگوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔[79] دہلوی پر خاص طور پر توہین مذہب کا الزام تھا اور وہ خارج از اسلام اسلام قرار دے دیے گئے تھے۔[79] اس کے بعد احمد حسن کانپوری نے تنزیہ الرحمٰن لکھا، جس میں انھوں نے دہلوی کو معتزلہ کے ایک متشدد گروہ میں شامل بتلایا۔[80] اس کے جواب میں محمود حسن نے دو جلدوں میں جُھد المُقِلّ فی تنزیہ المعز والمذل لکھی۔[81] کتاب میں زیادہ تر خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات سے متعلق علم کلام کی اصطلاحات میں بحث ہے، یہ کتاب نجم الدین نسفی کی کتاب "العقائد النسفیہ" پر لکھی گئی سعد الدین تفتازانی کی "شرح العقائد النسفیہ" کی نہج پر لکھی گئی ہے۔[80] محمود حسن نے علم الکلام کا استعمال کرتے ہوئے شاہ اسماعیل دہلوی اور ان جیسے دیگر علما پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیا ہے۔[81]

تصحیحِ سنن ابی داؤد ترمیم

صحاح ستہ کے تحریری نسخے اسلامی ممالک؛ بالخصوص مکہ اور مدینہ کے کتب خانوں میں محفوظ تھے۔[82] ہندوستانی عالم احمد علی سہارنپوری مکہ میں موجود مخطوطات کو نقل کرتے اور پھر شاہ محمد اسحاق سے پڑھتے تھے۔ جب وہ ہندوستان واپس آئے تو انھوں نے اپنے پریس سے حدیث کے ان مخطوطات کے نقل شدہ ایڈیشن شائع کرنا شروع کردیے۔[83] شاہ محمد اسحاق کے شاگرد محمد قاسم نانوتوی نے حدیث کے نسخوں کو نقل کرنے کا عمل جاری رکھا یہاں تک کہ تمام کتابیں ہندوستان میں شائع ہو گئیں۔[82]

سنن ابی داؤد کی تصحیح کی ضرورت اب بھی باقی رہ گئی تھی، جو حدیث کی چھ بڑی کتابوں میں سے ایک ہے۔ تاہم، جو نسخے شائع ہو چکے تھے اور جو اصل تحریری مسودات یعنی قلمی نسخے پائے جاتے تھے، ان میں خاصا فرق رہ گیا تھا اور قابل اصلاح خامیاں رہ گئی تھیں۔[82] اس طرح محمود حسن نے تمام دستیاب مخطوطات کو جمع کیا، متن کو نقل کیا اور اس کے کئی ایڈیشن کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ یہ 1900ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوئے۔[84]

وفات و وراثت ترمیم

 
بابِ مولانا محمود حسن جامعہ ملیہ اسلامیہ۔

علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھنے کے ایک دن بعد 30 اکتوبر 1920ء کو، محمود حسن نے مختار احمد انصاری کی درخواست پر دہلی کا سفر کیا۔ کئی دنوں بعد ان کی طبیعت بگڑ گئی اور انھوں نے انصاری سے دریا گنج میں اپنے گھر پر علاج کروایا۔[85][86] ان کا انتقال 30 نومبر 1920ء کو دہلی میں ہوا۔[87] ان کی وفات کی اطلاع ملتے ہی ہندو اور مسلمان اپنی دکانیں بند کر کے محمود حسن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے انصاری کے گھر کے باہر جمع ہو گئے۔[88] اس کے بعد انصاری نے محمود حسن کے بھائی حکیم محمد حسن سے پوچھا کہ اگر دہلی میں تدفین پسند فرمائیں تو شاہ ولی اللہ دہلوی کے خاندانی قبرستان مہدیان میں بندوبست کیا جائے اور اگر دیوبند میں تدفین منظور ہو تو جنازہ لے جانے کی تیاری کی جائے۔[87] ان کی خواہش کے پیش نظر انھیں دیوبند میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انھیں ان کے استاذ محمد قاسم نانوتوی کی جوار میں دفن کیا گیا۔[89] ان کی نماز جنازہ متعدد بار ادا کی گئی۔ دہلی کے لوگوں نے انصاری کے گھر کے باہر نماز ادا کی اور پھر میت کو دیوبند منتقل کیا گیا۔ دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی اور نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس کے بعد میرٹھ شہر ریلوے اسٹیشن اور میرٹھ چھاؤنی ریلوے اسٹیشن پر نماز ادا کی گئی۔[89] ان کی پانچویں اور آخری نماز جنازہ ان کے بھائی حکیم محمد حسن نے پڑھائی اور انھیں قاسمی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔[89]

محمود حسن کو کئی اعزازات ملے۔ اشرف علی تھانوی نے فرمایا کہ لوگ "شیخ العالم" کو "شیخ الہند" کہتے ہیں۔[90] تھانوی کہتے ہیں کہ "ہماری اعتقاد میں تو وہ "شیخ الہند و السند و العرب و العجم" ہیں۔"[90] سہارنپور میں ایک میڈیکل کالج کا نام شیخ الہند مولانا محمود حسن میڈیکل کالج رکھا گیا۔[91] جنوری 2013ء میں ہندوستان کے صدر، پرنب مکھرجی نے محمود حسن کی ریشمی رومال تحریک پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔[92]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ادروی 2012, p. 45.
  2. ^ ا ب طیب 1990, p. 18.
  3. رضوی 1980, pp. 93–94.
  4. ^ ا ب السلام & پرویز 2020, pp. 48–49.
  5. ادروی 2012, p. 46.
  6. ادروی 2012, p. 47.
  7. ادروی 2012, p. 48.
  8. ادروی 2012, p. 49.
  9. ادروی 1981, p. 20.
  10. ادروی 2012, p. 68.
  11. ^ ا ب رضوی 1981, p. 20.
  12. طیب 1990, p. 20.
  13. ادروی 2012, p. 72.
  14. دیوبندی 1946, p. 112.
  15. نایاب حسن (1 دسمبر 2017ء)۔ "حضرت شیخ الہند کا تصورِ فلاحِ امت"۔ ملت ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2021ء 
  16. ^ ا ب سلام & پرویز 2020, p. 134.
  17. دیوبندی 2013, p. 295.
  18. خمجی 1999, p. 92.
  19. السلام & پرویز 2020, pp. 134–135.
  20. دیوبندی 2002, p. 45.
  21. ^ ا ب ادروی 2012, p. 167.
  22. ^ ا ب ادروی 2012, p. 168.
  23. ادروی 2012, pp. 169–184.
  24. ^ ا ب ادروی 2012, p. 185.
  25. ادروی 2012, p. 186.
  26. دیوبندی 2013, p. 57.
  27. تبسم 2006, p. 47.
  28. رضوی 1981, pp. 137–138.
  29. ^ ا ب ترویدی 1982, p. 659.
  30. دیوبندی 2002, p. 56.
  31. طیب 1990, p. 49.
  32. دیوبندی 2002, p. 58.
  33. ^ ا ب پ دیوبندی 2013, pp. 59–60.
  34. ^ ا ب دیوبندی 2013, p. 59-60.
  35. ادروی 2012, p. 184.
  36. واسطی 2006, p. 715.
  37. دیوبندی 2013, p. 61.
  38. ^ ا ب اسماعیل ناخدا۔ "Where were Indian Muslim scholars interned in Malta?" [مالٹا میں ہندوستانی علماء کو کہاں رکھا گیا تھا؟]۔ بصائر۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولائی 2021ء 
  39. ^ ا ب طیب 1990, p. 76.
  40. ^ ا ب پ خمجی 1999, p. 144.
  41. ادروی 2012, p. 287.
  42. ^ ا ب ادروی 2012, p. 290.
  43. طیب 1990, p. 79.
  44. طیب 1990, p. 77.
  45. ^ ا ب پ ت دیوبندی 1946, p. 213.
  46. انتفاضہ. پی بشیر (29 اکتوبر 2020ء)۔ "Jamia Millia Islamia: A University That Celebrates Diversity" [جامعہ ملیہ اسلامیہ: ایک یونیورسٹی جو تنوع کا جشن مناتی ہے۔]۔ آؤٹ لک انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولائی 2021 
  47. دیوبندی, p. 144.
  48. "Shaikhul-Hind Mahmood Hasan: symbol of freedom struggle"۔ ملی گزٹ۔ 12 فروری 2016ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2021ء 
  49. ^ ا ب نظامی 2011, p. 29.
  50. ادروی 2012, p. 291.
  51. ^ ا ب نظامی 2011, p. 33.
  52. واصف دہلوی 1970, p. 56.
  53. واصف دہلوی 1970, p. 74.
  54. ادروی 2012, p. 295.
  55. ادروی 2012, p. 308.
  56. ^ ا ب نظامی 2018, p. 132.
  57. قاسمی 1999, p. 64.
  58. محمد طیب قاسمی ہردوئی۔ دار العلوم ڈائری لیل و نہار: تلامذۂ دور صدارت امام الفلسفہ مولانا سید احمد دہلوی و شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (2013ء ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ پیغامِ محمود۔ صفحہ: 37–38، 42–43۔ دیوبند میں محمود اسعد مدنی کے گھر کے سامنے مدنی مارکیٹ میں ہردوئی کے رہنے والے اخبار فروش اور سابقہ ماہنامہ پیغام محمود کے مدیر محمد طیب قاسمی نے مرغوب الرحمن بجنوری کے زمانۂ اہتمام میں ان کی اجازت سے دار العلوم دیوبند سے فضلائے دار العلوم دیوبند کا ریکارڈ حاصل کیا تھا اور اسی کو ترتیب دے کر اپنے ادارے ادارۂ پیغام محمود سے سلسلہ وار تلامذہ کی فہرست شائع کی اور 2013ء میں سید احمد دہلوی اور محمود حسن دیوبندی کے دار العلوم دیوبند میں دور صدارت میں دورۂ حدیث سے فارغ التحصیل طلبہ کی فہرست شائع کی، جس میں سید احمد دہلوی کے دور صدارت کے طلبہ کے تحت غلام رسول بفوی کا سنہ فراغت 1303ھ لکھا ہوا ہے یعنی اس وقت دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث سید احمد دہلوی تھے اور محمود حسن دیوبندی استاذ حدیث تھے، صحیح بخاری کا ایک حصہ ان سے بھی متعلق تھا، پھر 1307ھ میں سید احمد دہلوی کے مستعفی ہوکر بھوپال چلے جانے کے بعد محمود حسن دیوبندی دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین بنائے گئے تھے۔ 
  59. فیوض الرحمن جدونی (1977)۔ "استاذ الاساتذہ مولانا غلام رسول صاحب بفوی"۔ مشاہیر علمائے سرحد 1857–1977ء (تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی علومِ اسلامیہ)۔ ملیر کینٹ، کراچی: جامع مسجد الفرقان۔ صفحہ: 307۔ 07 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 فروری 2023 
  60. سید محبوب رضوی (1993ء)۔ "مولانا غلام رسول ہزاروی"۔ تاریخ دار العلوم (جلد دوم) (دوسرا ایڈیشن)۔ دار العلوم دیوبند: ادارہ اہتمام۔ صفحہ: 62–63 
  61. محمد عارف جمیل مبارکپوری (1442ھ م 2021ء)۔ "٦٠٤-الهزاروي"۔ موسوعة علماء ديوبند (بزبان عربی) (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 267 
  62. ادروی 2016, p. 233.
  63. الرحمن 1967, pp. 217–218.
  64. موسی 2015, p. 72.
  65. "The Translations of the Quran" [تراجم قرآن]۔ دی اسلامک کوارٹرلی۔ لندن: اسلامک کلچرل سینٹر۔ 40–41: 228۔ 1996 
  66. ادروی 2012, pp. 335–336.
  67. حقانی 2006, p. 268.
  68. زماں 2018, p. 292.
  69. ^ ا ب ادروی 2012, p. 336.
  70. "Shaykh (Maulana) Muhammad Zakariyya Kandhlawi"۔ سینٹر مسجد۔ 19 مئی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2022۔ Assigning chapter headings in a hadith collection is a science in itself, known among the scholars as al-abwab wa 'l-tarajim [chapters and explanations]. 
  71. ادروی 2012, p. 337.
  72. ^ ا ب ادروی 2012, p. 338.
  73. ادروی 2012, p. 344.
  74. ^ ا ب ادروی 2012, p. 351.
  75. ادروی 2012, p. 339.
  76. ^ ا ب پ ادروی 2012, p. 352.
  77. ^ ا ب پ ت ادروی 2012, p. 345.
  78. ادروی 2012, p. 346.
  79. ^ ا ب ادروی 2012, p. 347.
  80. ^ ا ب ادروی 2012, p. 348.
  81. ^ ا ب ادروی 2012, p. 349.
  82. ^ ا ب پ ادروی 2012, p. 369.
  83. ادروی 2016, pp. 22–23.
  84. ادروی 2012, p. 370.
  85. سعد شجاع آبادی 2015, p. 24-25.
  86. ادروی 2012, p. 309.
  87. ^ ا ب ادروی 2012, pp. 310–311.
  88. سعد شجاع آبادی 2015, p. 26.
  89. ^ ا ب پ ادروی 2012, pp. 310–312.
  90. ^ ا ب اشرف علی تھانوی۔ مدیر: محمود اشرف عثمانی۔ ملفوظات حکیم الامت۔ 5۔ ملتان: ادارہ تالیفات اشرفیہ۔ صفحہ: 300 
  91. "Saharanpur medical college to be named after Madni"۔ ٹائمز آف انڈیا۔ 24 نومبر 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولا‎ئی 2021 
  92. "Prez releases special stamp on 'Silk Letter Movement'"۔ بزنس اسٹانڈرز۔ 29 جنوری 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2021 

کتابیات ترمیم

مزید پڑھیے ترمیم

بیرونی روابط ترمیم