مدرسہ نظامیہ بغداد نظامیہ بغداد کی تعمیر سنہ 459ھ میں مکمل ہوئی اور تدریس کے لیے سنہ 459ھ/1066ءمیں ایک زبردست جشن کے انعقاد کے بعد کھول دیا گیا۔اس کی تعمیر پر دولاکھ دینار سے زیادہ کا صرفہ ہوا ۔ نظامیہ بغداد کے گیٹ کے اوپر اپنانام کندہ کروایا ، اس کے ارد گرد بہت ساری دکانیں بنوائیں اور انھیں مدرسہ کے لیے وقف کر دیا اور اسسے ملحقہ تمام جائدادیں [حمام ، اسٹور اور دکانیں ]خرید کر مدرسہ کو وقف کر دیا۔ نظامیہ بغداد پراُس وقت کے عباسی خلیفہ کی خاص توجہ تھی اور اس کے اساتذہ کی تقرری خلیفہ ہی کیا کرتاتھا۔عالمِ اسلام ہی میں نہیں بلکہ سارے عالم میں معلوماتی قواعد اور بنیادوں پر مدرسہ نظامیہ بغدادمنظم تعلیم کی پہلی کوشش اور شکل تھی۔

مدرسہ نظامیہ بغدادکے مقاصد مدرسہ نظامیہ بغدادکے آغاز کے پہلے ہی دن سے اس کا مقصد شافعی سنی مذہب کی نشر و اشاعت اور شیعی افکار کے آثار جسے بویھیویوں نے خلافت عباسیہ کے مقدرات پر قبضہ کرنے بعد چھوڑاتھا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔ پھر کیا تھا سنی مذہب کی بنیادوں پر دینی تعلیم کی ابتدا ہوئی۔وقفی نصوص اور مستندات سے صاف طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ جو بھی ان مدارس میں پڑھتا یا کام کرتاتھا وہ اصلاً و فرعاً شافعی ہواکرتاتھا۔ایک طرف وے عباسی خلافت کی وفاداری و ہمدردی کسب کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ اپنے اثرو رسوخ کو مزید مضبوط کرسکیں،دوسری طرف وے متوسط اور بعید پیمانے پر شیعی لہر کا محاصرہ کر کے اس کے اثر کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ نظام الملک کے اِن مدارس کے قیام کا غرض بڑی حد تک رعیت کی ایسی رہنمائی تھی جس سے ریاست کے مفادات حاصل ہوں اور امن و سلامتی کے استقرار میں معاون ثابت ہو۔تدریسی کورس کا مقصد عموماً رعایا کی افہام و تفہیم اور مدارس نظامیہ کے منتسبین کو صحیح دین ِ اسلام کے اصول سے واقف کرانا تھا۔چونکہ نظام الملک بذاتِ خود شافعی المسلک سنی تھا اس لیے شافعی مسلک کے اساتذہ کی تقرری کرتاتھا تاکہ وہ لوگ شافعی فقہ اور اصول کی تعلیم دیں۔

اہداف و مقاصد ترمیم

اجمالی طور پر ذیل میں مدارسِ نظامیہ کے اہداف و مقاصد بیان کیے جا سکتے ہیں: 1- ایسی سنی فکرکی نشر و ترویج جو شیعی افکار کے چیلنجوں کا مقابلہ کرے اور اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرے۔ 2- شافعی سنی مذہب کے قابل اور ذی استعداد معلمین و اساتذہ پیدا کرنا جو مختلف اقالیم اور ریاستوں میں شافعی مذہب کی ترویج کرسکیں۔ 3- ایسی سنی کیٖڈر کی پیداوار جو حکومت کے مختلف آفسوں و اداروں اور خصوصاً قضاءکے میدان میں ذمہ داری سنبھال سکیں۔ حقیقتا اِن مدارس نے بڑے اونچے پیمانے پر مدرسین ، داعیان ، فقہا اور قضاۃ پیدا کیے جنھوں نے شافعی سنی مذہب کی نشر و اشاعت اور اس کی حمایت میں اعلی کردار ادا کیا۔

مدرسہ نظامیہ بغدادکے طلبہ ترمیم

شافعی مذہب کیطرف منتسب ہونے کی وجہ سے مدارسِ نظامیہ میں طلبہ کی تعداد محدود ہوا کرتی تھی۔اور ہاں! مدرسہ مستنصریہ سے یہ یکسر مختلف تھا کیونکہ یہ سارے مذاہب کے لوگوں [احناف ، شوافع، حنابلہ اور مالکیوں ] کے لیے بلاتفریق کھلا ہوا تھا۔ظاہر ہے کہ یہ غیر معمولی ہوگا کیونکہ مدرسہ مستنصریہ کا راعی خلیفہ تھا۔مدارسِ نظامیہ سے ایسے علما پیدا ہوئے جنھوں نے بڑی شہرت پائی ۔ ان میں سے چند کو مثال کے طور پر ذکر کیا جارہاہے : ابن عساکر ، العز بن عبد السلام او ر ابن رافع الاسدی جو مدرسہ نظامیہ میں تعلیم پائی اور اس کے بعد اسی میں ڈین و معید کے طور پر مقرر ہوئے اور ابو علی ابن منصور خطیبی جو ’’الاجل‘‘ سے مشہور ہیں وہ بھی اس میں مدرس کے طور پر مقرر ہوئے۔

مدرسہ نظامیہ کے مشہور علما ترمیم

اِن مدارس میں بڑے بڑے علما و فقہا تدریس کے منصب پر فائزہوئے ان میں سے بعض کو ذیل میں ذکر کیاجارہاہے: 1) ابو المعالی الجوینی جو امام الحرمین سے مشہور ہیں، وہ ایک ممتازشافعی فقیہ و عالم تھے جنہیں فقہ ، اصول اور ادب میں زبردست دسترس حاصل تھا، نیساپور میں تدریس اور تالیف کے میدان میں کام کیا ، ان کی اصول فقہ و فقہ میں متعدد مؤلفات ہیں اور وہ تصوف میں حافظ ابو نعیم اصفہانی کے مجاز تھے۔