شیخ مصطفٰی اسماعیل مصر کے مشہور ترین قاریِ قرآن تھے۔ جن کا اپنا ایک الگ انداز تھا اور انھوں نے دنیا کے بے شمار مقامات پر تلاوتِ قرآن کا شرف حاصل کیا۔

مصطفی اسماعیل
(عربی میں: مصطفى إسماعيل ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 17 جون 1905ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 26 دسمبر 1978ء (73 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اسکندریہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مصر   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ قاری   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان مصری عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  مصری عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالاتِ زندگی

ترمیم

مصطفے' اسماعیل 17 جون 1905ء میں مصر کے ایک علاقے طنطا کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش ان کے دادا نے کی۔1911ء میں آپ شیخ عبد الرحیم ابوالعینین کے مدرسے میں داخل ہوئے۔ 1913ء میں مدرسہ بدل کر شیخ عبد اللہ کے مدرسے میں چلے گئے۔ دس سال کی عمر میں مصطفے' اسماعیل نے قرآن حفظ کر لیا تھا اور ان کی تلاوت کے چرچے شروع ہو چکے تھے۔ 1917ء میں شیخ ادریس فاخر سے تجوید و تلاوت میں مہارت کی سند حاصل کی۔ 1920ء سے 1925ء کے دوران آپ مصر کے دیہات میں بے انتہا مقبول تھے۔ 1943ء میں آپ نے قاہرہ میں قرآن کی تلاوت شروع کی اور جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی۔ 1944ء میں ریڈیو پر ان کی تلاوت سن کر مصر کے شاہ فاروق اول بہت متأثر ہوئے اور اس وقت سے ہر رمضان المبارک میں شاہ کے محل سے خصوصی تلاوت کے پروگرام شروع ہو گئے۔[2] اس دوران انھوں نے بے شمار غیر ملکی سفر کیے۔ 1947ء میں ان کو جامعہ الازہر کا قاری مقرر کیا گیا جو ایک اعزاز تھا۔ 1965ء میں جمال عبدالناصر نے انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ 1977ء میں انھیں مصر کے صدر انور سادات کے ہمراہ اسرائیل اور فلسطین کے دورے کے دوران بیت المقدس میں تلاوت کا شرف حاصل ہوا۔ انھیں مصر اور دیگر ممالک کے بے شمار ایوارڈ ملے۔

انداز

ترمیم

ان کا انداز اس وقت کے قاریانِ قرآن سے بالکل الگ تھا۔ ان کی تلاوت سن کر لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ ترکی کے دورے میں دورانِ تلاوت انھوں نے محسوس کیا کہ مصر کے سامعین کے برعکس ترکی کے سامعین خاموش ہیں اور نہ داد دے رہے ہیں نہ ہی ان کا کوئی ردِ عمل ہے۔ اس وقت انھیں کچھ مایوسی ہوئی مگر تھوڑی ہی دیر میں ترکی سامعین پر رقت طاری ہونا شروع ہو گئی اور یکے بعد دیگرے اکثر سامعین ہچکیاں لے کر رونے لگے۔ اس ردِ عمل کے بعد انھیں اندازہ ہوا کہ ترکی کے سامعین کا انداز مختلف ہے اور انھوں نے ترکی سے واپسی پر ایک محفل میں کہا کہ مجھے یوں لگا کہ میرے، ترکی کے سامعین اور قرآنِ کریم کے درمیان کوئی خصوصی رابطہ ہے۔ ان کی تلاوت میں رقت کا مشاہدہ ان کے دیگر غیر ملکی دوروں میں بھی کیا گیا۔

وفات

ترمیم

22 دسمبر 1978ء کو انھوں نے آخری دفعہ شرفِ تلاوت حاصل کیا اور 26 دسمبر 1978ء کو مصر کا یہ چراغ گل ہو گیا۔

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/317286 — بنام: Muṣṭafá Ismāʻīl — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. "プロミス在籍確認とは【プロミスの審査の在籍確認とは!】"۔ 25 جولا‎ئی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولا‎ئی 2008