معین الدین لکھوی
مولانا معین الدین لکھوی ہندوستان کے گاﺅں لکھو کے ضلع فیروزپور میں یکم جنوری 1921ء کو پیدا ہوئے ان کے والد گرامی مولانا محمد علی مدنی نے 36 سال بطور شیخ الحدیث مسجد نبوی میں خدمات انجام دیں اور جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ تحریک پاکستان میں مولانا معین الدین اور ان کے بڑے بھائی مولانا محی الدین لکھوی نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک کو فروغ دینے میں ضلع فیروز پور اور گرد و نواح میں شب و روز کام کیا۔ ضلع قصور کاحلقہ این اے 140 ان کی انتخابی سیاست کا مرکز ہے، جہاں سے مولانا معین الدین لکھویؒ تین بار قومی اسمبلی کے رکن رہے ۔ ۔1951ء میں پنجاب میں ہونے والے پہلے انتخاب میں مولانا معین الدین کے بڑے بھائی اور معروف اسلامی سکالر پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی کے والد گرامی مولانا محی الدین لکھوی تحصیل چونیاں سے ایم این اے منتخب ہوئے ۔ لکھوی خاندان بالخصوص مولانا معین الدین لکھوی اور مولانا محی الدین لکھوی کے متعلق کئی رسائل وجرائد میں متعدد مضامین شائع ہوئے ہیں جو مختلف جگہ پر منتشر ہیں مؤرخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھی نے اس کتاب’’ تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی ‘‘ میں تفصیل سے مولانا محی الدین لکھوی کی حیات ، خدمات کے ضمن میں لکھوی خاندان کا تفصیلی تعارف کو یکجا کر دیا گیا ہے،
1953ء کی تحریک ختم نبوت میں مولانا معین الدین نے بھر پور حصہ لیا ، جس کی پاداش میں ساہیوال جیل میں چھ ماہ تک قید رہے، 77ء کی تحریک نظام مصطفےٰ کے نتیجے میں جب جنرل ضیاء الحق بر سر اقتدار آئے تو سیاست دانوں نے انتخاب کے لیے مسلسل زور دیا، انہی دنوں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی سالانہ کانفرنس اپریل 79ء میں مینار پاکستان پر منعقد ہوئی جس کی صدارت مولانا لکھوی نے فرمائی تھی، جمعیت کے مرکزی امیر بھی وہی تھے، مولانا نے جو صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا، وہ مسلک اہلحدیث کی ترجمانی کی ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ کوئی بھی تحریک جس مقصد کے لیے چلائی جاتی ہے، تحریک کی کامیابی پر اس مقصد کو نتیجہ خیز بنایا جانا چاہیے، لہٰذا پہلے نظام مصطفےٰ کا نفاذ ہو اور بعد میں انتخابات کرائے جائیں۔ مولانا کے اس پیغام کو ملک بھر میں بڑی پزیرائی حاصل ہوئی مولانا لکھوی بالترتیب 1985ء، 1990ءاور 1999ءمیں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ دو مرتبہ چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے مذہبی امور، سابق صدر جنرل محمد ضیاءالحق مرحوم کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے انھیں دینی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا، 29 جنوری2012ء کو وفات پاگئے
دیپالپور کے نواحی گاﺅں قلعہ تارا سنگھ (الہ آباد ) میں آبائی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔
مرحوم نے پسماندگان میں تین بیٹے بارک اللہ لکھوی مہتمم جامعہ محمدیہ اوکاڑہ ،ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی اور ڈاکٹر زعیم لکھوی اور پانچ بیٹیاں چھوڑے ہیں