ملازمتوں میں خواتین
قدیم دور سے ملازمتوں اور پیشوں میں عمومًا مردوں کا غلبہ رہا ہے۔ ان میں یا تو عورتیں عمومًا معدوم رہی ہیں یا پھر ان کا تناسب بے کم رہا ہے۔ تاہم یہ صورت حال جدید دور میں بدل رہی ہے اور ملازمتوں میں خواتین (انگریزی: Women in the workforce) ایک زبان زد عام موضوع بن چکا ہے۔ معاشرہ میں گھر ہی تک محدود خواتین اور کثیر الاولاد خواتین کی کمی دیکھی گئی ہے۔ ایسی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو مردوں کے شانہ بہ شانہ ہر عملی میدان میں روز گار اور آمدنی کے حصول برابر گھڑے ہیں۔ اس لیے عام طور سے کسی بھی ملازمت کی مخلوعہ جائداد کے لیے کثیر تعداد میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی درخواست دیتی ہیں اور حسب ضرورت اور امیدواروں کی صلاحیتوں کے مطابق خواتین چنی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ملازمتوں میں جنسی ترجیحات شامل ہو سکتی ہیں۔ مثلًا، کئی بار کمپنیاں ایسے عہدوں کے لیے مردوں کو ترجیح دیتی ہیں، جن میں سفر کا عنصر بہت زیادہ ہو۔ اسی طرح کئی بار فونوں کے ذریعے لوگوں سے بات کرنے یا کسی جگہ ریسیپشنسٹ کے عہدے کے لیے ترجیح عورتوں کو ہی جاتی ہے۔ مگر کئی ملازمتوں میں عمومًا جنسی تخصیص ہوتی نہیں ہے یا پھر حسب موقع کوئی ادارہ فیصلہ کر سکتا ہے، جیسے کہ محاسب یا اکاؤنٹنٹ کا عہدہ یا کوئی تدریسی اور تربیتی عہدہ۔
مختلف ملکوں کی ملازمتوں میں خواتین
ترمیمپاکستان
ترمیم2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے مختلف اداروں میں 31 ہزار 281 خواتین افسران ہیں، ایک ہزار 246 مرکزی سیکریٹریٹ میں ملازمت پیشہ ہیں جبکہ 30 ہزار 35 خواتین منسلک محکموں اور ذیلی دفتروں میں موجود ہیں۔ پنجاب میں 73.68 فیصد، سندھ میں 12.76 فیصد، خیبر پختونخوا میں 7.9 فیصد اور بلوچستان میں 1.93 فیصد خواتین برسرملازمت ہیں۔ اسی طرح وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں 1.36 فیصد اور گلگت بلتستان میں 0.56 فیصد خواتین کے لیے مخص ہے۔عوامی دفاتر میں جنسی امتیاز سے متعلق عمومی طور پر خواتین کو ملازمت پر نہ رکھنے سے متعلق ایک سوچ غالب ہے کہ خواتین ملازمت جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ ملک میں متعدد خواتین افسران (گریڈ 16 اور 17) بطور استاد، ماہر نفسیات اور نرس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔[1]
سعودی عرب
ترمیمسعودی عرب کی خاتون سیکریٹری وزارت شہری خدمات ہند الزاہد کے 2019ء کے بیان کے مطابق اس سال دوران سرکاری اداروں میں کام کرنے والی سعودی خواتین کا تناسب 40.2 فیصد ہے۔ 2020ء میں اسے 42 فیصد تک پہنچا دیا جائے گا۔ سعودی عرب کے اخبار الوطن کے مطابق سیکریٹری وزارت شہری خدمات کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کے کلیدی عہدوں پر بھی خواتین کے تقرر کا تناسب بڑھایا جائے گا۔[2]