ملتان کے اسماعیلی حکمران

ملتان پر عربوں نے پہلی صدی ہجری میں قبضہ کر لیا تھا اور یہ اس وقت تک خلافت کے زیر اثر رہا جب تک مرکزی حکومت مضبوط رہی۔ مگر خلافت عباسیہ کی کمزوری سے دور دراز کے علاقے خود مختار ہو گئے، وہاں ملتان بھی خود مختار ہو گیا۔ یہ اگرچہ ابتدا میں منصورہ کے ماتحت رہا، مگر تیسری صدی ہجری کے وسط میں ملتان سندھ سے علحیدہ ہو کر ایک خود مختار ریاست بن گیا۔ یہاں کے مورخوں اور جغرافیہ دانوں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملتان میں سامہ بن لوی کی حکومت ہے جو قریشی نسل اور سنی ہیں اور عباسی خلفاء کا خطبہ پڑھتے تھے۔[1]

573ھ میں بشاری مقدسی ملتان آیا تھا۔ اس کا بیان ہے کہ ملتان کے لوگ شیعہ ہیں اور اذان میں ’حی علی خیر العمل‘ کہتے ہیں اور اقامت میں دو دفعہ تکبیریں کہتے ہیں۔ خطبے میں فاطمی خلیفہ کا نام لیا جاتا ہے اور اس کے حکم سے ہی یہاں کے انتظامات ہوتے ہیں اور یہاں سے برابر تحائف ملتان بھیجے جاتے ہیں۔[2]

اسماعیلیوں کی کئی شاخیں ہیں۔ ان میں قرامطہ، دروزی اور نزاریہ (باطنیہ یا ملاحدہ) اہم فرقے ہیں۔ ان میں صرف صدارت کا فرق ہے، ورنہ عقائد کے لحاظ سے یہ متفق ہیں۔ چونکہ قرامطہ دولت اسمعیلہ کے آغاز سے پجاس سال پہلے ظاہر ہوئے، اس لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرامطہ سے اسمعیلی نکلے ہیں۔ جب کہ باطنیہ یا ملاحدہ پانچویں صدی کے دوسرے نصف حصہ میں ظاہر ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین کو ملتان کے اسمعلیوں کے بارے میں اشتباہ ہوا ہے۔ اس اشتباہ کی وجہ سے کسی نے انھیں قرامطہ اور کسی نے ملاحدہ لکھ دیا ہے۔[3] ہمارے اس موقف کی تائید بشاری مقدسی کے بیان سے ہوتی ہے کہ جو پہلے درج کیا گیا ہے۔ اور آگے جا کر مزید تفصیل آئے گی۔ اس لیے ہم نے انھیں اسمعیلی لکھا ہے۔

اسماعیلیوں کے مطابق امام محمد بن اسمعیل کے بعد کے تین ائمہ عبد اللہ، احمد اور حسین ہوئے۔ یہ تینوں بہت پوشیدہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے خاص نقیبوں کے سوا کسی کو ان کا پتہ نہ تھا۔ ان کے اسماء میں بھی اختلاف ہے۔ ان کے دور میں سندھ میں اسمعیلی داعیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ آخری مستور امام حسین بن احمد بن محمد بن اسمعیل بن جعفر بن صادق نے ابو القاسم بن فرح کو یمن داعی بنا کر بھیجا۔ اس نے سندھ میں ہثیم کو داعی بنا کر بھیجا۔ اس طرح سندھ میں 72ھ میں اسمعیلی دعوت کی ابتدا ہو گئی تھی۔ اس کے بعد بھی داعی یہاں آتے رہے اور انھوں نے مقامی باشندوں کو تبلیغ کے ذریعے اسماعیلی بنا لیا۔[4]

جلم بن شیان

ترمیم

ملتان میں اسماعیلی حکومت 573ھ تا 763ھ کے درمیان میں قائم ہوئی تھی۔ اب یہ امر حل طلب ہے کہ یہ وہی بنو سامہ کا خاندان تھا اور سنی سے اسمعیلی ہو گئے تھے یا کوئی اور خاندان تھا۔ پہلے اسماعیلی حکمران کا نام جلم بن شبان بتایا جاتا ہے یہ کون تھا؟[5]

دور ستر کے انیسویں داعی ادریس بن حسن (238ھ تا 278ھ) کی کتاب ’عیون الاخبار‘ اسمعلیوں میں نہایت مستند اور معتبر مانی جاتی ہے۔ اس کتاب میں درج ہے کہ خلیفہ مغز (143ھ تا 563ھ) نے ایک داعی علم بن شبان کو دہلی بھیجا تھا۔ اس داعی کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ اس نے سیتا پور کے راجا اور وہاں کے اکثر باشندوں کو تبلغ کے ذریعے مسلمان کر لیا تھا۔ (یہ علم بن شبان غالباً نقل کی غلطی ہے کیوں کہ بعد کی کتاب ’موسم بہار‘ میں یہ نام جلہ بن شبان ملتا ہے۔[6]

ملتان کا حکمران جلم بن شبان یہی داعی جلہ بن شبان معلوم ہوتا ہے۔ مگر سیتا پور کے بارے میں جو روایت درج کی گئی ہے وہ درست نہیں معلوم نہیں ہوتی ہے۔ کیوں کہ اسماعیلیوں کے مقاصد سیاسی ہوا کرتے تھے۔ اس لیے اسمعیلی داعی صرف مسلمانوں میں تبلیغ کرتے تھے۔ مغز کی وفات 563ھ میں ہوئی تھی۔ گویا یہ اس سے پہلے آیا ہوگا۔ کیوں کہ اس کی آمد کی تاریخ نہیں ملتی ہے۔ گویا یہ تقریباً بیس سال پہلے آیا ہوگا اور اس نے اس عرصہ میں وہاں کے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعے اسمعیلی بنالیا ہوگا اور مقامی طور پر بغاوت کرکے بنو سامہ کو برطرف کرکے جلم بن شبان نے اقتدار سنھال لیا ہوگا۔

جلم بن شبان نے ملتان پر قبضہ کر کے فاطمی سکہ و خطبہ جاری کیا۔ اسے آس پاس کی اسلامی حکومتوں سے تعاون کی امید نہیں تھی، اس لیے اس نے ہندو راجاؤں سے معاہدے کرکے اپنی سلطنت کو مضبوط بنایا۔ جلم بن شبان نے ملتان پر کب تک حکومت کی اس کی صراحت نہیں ملتی ہے تاہم وہ 673ھ کے بعد بھی زندہ رہا ہوگا۔[7]

شیخ حمید

ترمیم

جلم بن شبان کے بعد ملتان کے اسمعیلی حکمران کا نام شیخ حمید ملتا ہے۔ یہ امیر ناصر الدین سبکتگین کا ہم عصر تھا۔ امیر سبکتگین 663ھ میں تخت نشین ہوا تھا۔ اس طرح جلم بن شبان اور شیخ حمید دونوں کا ہم عصر ہوگا۔ عام طور پر گمان کیا جاتا ہے کہ اسمعیلیوں میں باپ کا جانشین بیٹا ہوتا ہے۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ شیخ حمید جلم بن شبان کا بیٹا ہوگا۔[8] مگر ایسا اس وقت ہوتا ہے کہ جب امام مستور ہو یا امام سے رابطہ ٹوٹا ہو۔ لیکن جب امام ظاہر ہو تو اس وقت داعی کو اپنا جانشین بنا نے کے لیے اجازت لینی پڑتی ہے۔ لیکن جب امام مستور ہو تو اس وقت داعی امام کے الہام کی مدد سے اپنا جانشین مقرر کرتا ہے، اسے داعی مطلق کہتے ہیں۔ داعیوں میں (برخلاف اماموں کے ) بیٹے ہی کا قائم مقام ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی کسی خاندانی خصوصیات اور ملکی خصوصیت کا لحاظ کیا جاتا ہے۔[9] اسماعیلی جن امور کی شدت سے پابندی کرتے ہیں ان میں وہ تبلیغ کے لیے کم از کم دو داعیوں کو ہمیشہ بھیجا کرتے تھے۔ تاکہ ایک کوئی ناگہانی مصیبت میں گرفتار ہو جائے یا انتقال کرجائے۔ تو دوسرا اس کی نیابت کے لیے موجود رہے۔[10] اس طرح تعین کیا جا سکتا ہے کہ شیخ حمید جلم بن شبان کا بیٹا نہیں تھا، بلکہ اس کا ساتھی داعی ہو گا اور جلم بن شبان کے ساتھ ملتان آیا گا۔ گو اس کے بارے میں تاریخ سے کوئی صراحت نہیں ملتی ہے کہ شیخ حمید کون تھا؟ لیکن حمید کے ساتھ شیخ کا لاحقہ لگا ہوا ہے اور اسمعیلی داعیوں کو شیخ کے لاحقہ سے پکارتے تھے۔ اس لیے یقینا وہ جلم بن شبان کا نائب اور اس کے ساتھ آیا ہوگا اور اس کی وفات کے بعد شیخ حمید ملتان کا حاکم بن گیا ہوگا۔

سلطان سبکتگین نے 281/283ھ میں ملتان پر حملہ کیا تھا۔ جس پر شیخ حمید نے خراج دینا منظور کر لیا۔ شیخ حمید کا بیٹا شیخ نصر تھا۔ مگر اس نے ملتان پر حکومت کی یا نہیں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا ہے۔ ا[11]

داؤد بن نصر

ترمیم

سلطان محمود غزنوی نے جب ہندو راجاؤں کے خلاف فوج کشی کی تو داؤد بن نصر اس وقت ملتان کا حکمران تھا۔ جو شیخ نصر کا بیٹا تھا۔ داؤد نے ہند راجاؤں کا ساتھ دیا۔ خاص کر جب محمود نے راجا بھاٹیہ کے خلاف فوج کشی کی تو ملتان کے اسماعیلیوں نے راجا بجے رائے کی مدد کی تھی۔ اس لیے سلطان محمود نے اگلہ حملہ ملتان پر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ وہ 693ھ میں درہ بولان کا قریبی راستہ چھوڑ کر درہ خیبر کے راستے سے اس لیے روانہ ہوا کہ داؤد کو علم نہ ہو کہ وہ ملتان پر جملہ آور ہو رہا ہے۔ راستے میں راجا انند پال نے محمود نے راستہ روکنے کی کوشش کی۔ حلانکہ سلطان محمود غزنوی نے پہلے ہی اسے خبر دے دی تھی کہ وہ ملتان پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ پشاور کے مقام پر آنند پال نے سلطان محمود غزنوی کا راستہ روکنے کی مگر شکست کھائی اور کی طرف پیچھے ہٹ گیا۔ ادھر داؤد کو بھی خبر ہو چکی تھی، اس لیے وہ سلطان محمود کی آمد کا سن کر قلعہ بند ہو گیا۔ سلطان محمود نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ سات روز تک جاری رہا۔ آخر داؤد سلطان کی خدمت میں عاجزانہ صلح کی درخواست کی۔ سلطان محمود نے دو لاکھ درہم سالانہ خراج پر اور دریائے سندھ سے متصل علاقہ سلطان کو دے کر صلح کرلی۔[12]

خاتمہ

ترمیم

993ھ میں آنند پال نے ہندستان کے راجاؤں کا ایک وفاق سلطان محمود سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا۔ اس میں ملتان کے حاکم داؤد نے بھی شرکت کی۔ اس متحدہ لشکر کو محمود نے شکست دی۔ محمود غزنوی کو داؤد کی اس حرکت پر بڑا طیش آیا۔ چنانچہ سلطان نحمود غزنوی نے 104ھ میں پوری تیاریوں کے ساتھ اچانک ملتان پر سخت حملہ کیا اور ملتان کو فتح کرکے داؤد کو غور کے قلعہ میں نظر بند کر دیا۔ اس طرح ملتان کی اسمعیلی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔[13] مولاناسید سلیمان ندوی نے دروزیوں کی مقدس کتاب میں فاطمی خلیفہ حاکم باللہ کا ایک خط پیش کیا ہے۔ جو ملتان اور ہندوستان اور کے محدوں اور سومرہ راجا کے لکھا گیا تھا۔ خط کا متن یہ َ ملتان اور ہندوستان کے اہل توحید کے نام عموماً اور سیخ ابن سومر راجا بل کے نام خصوصاً۔ اے معزز رجہ اپنے خاندان کو اٹھا۔ موحدین داؤد اصغر کو اپنے سچے دین میں واپس لاکہ مسعود نے جو ایسے حال میں قید اور غلامی سے آزاد کیا ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ تو اس فرض کو انجام دے سکے۔ جو تجھ کو اس کے بھانجہ عبد اللہ اور ملتان کے تمام باشندوں کے برخلاف انجام دینے کے لیے مقرر کیا گیا ہے تاکہ تقدس اور توحید کے مانے والے جہالت، ضد اور سرکش اور بغاوت کرنے والی جماعت سے ممتاز ہوجائیں۔[14] اس خط سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسمعیلی عقائد ترک کرچکے تھے، اس لیے مسعود غزنوی نے انھیں چھوڑ دیا تھا۔ اس خط کے ذریعے سومر راجا کو کہا گیا تھا کہ ان لوگوں کو دوبارہ اسمعیلی عقائد اختیار کرنے کی ترغیب دے اور انھیں دوبارہ اسماعیلی جماعت میں لانے کی کوشش کرے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ، جلد اول، 982
  2. اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ، جلد اول، 103۔ 203
  3. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین جلد دوم، 141۔ 241۔ 071
  4. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین جلد اول، 26 جلد دوم، 96۔ 08۔ 18
  5. اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ، جلد اول، 203 تا 403
  6. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین جلد اول، جلد دوم،
  7. اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ، جلد اول، 403 تا 503
  8. اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ، جلد اول، 503
  9. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین، جلد دوم، 67
  10. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین جلد اول، 91
  11. عجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ، جلد اول، 913
  12. اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ، جلد اول، 23 تا 913
  13. اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ، جلد اول، 23
  14. سیّد سلیمان ندوی۔ عرب و سندھ کے تعلقات، 522