موسیٰ اور خضر
{{{نام}}} | |
---|---|
نسب | نسب میں اختلاف::[1] * خضر بن آدم. * قابيل بن آدم. * بليا بن ملكان (كلمان) بن فالغ بن شالخ بن عامر بن ارفخشد. * معمر بن مالک بن عبد اللَّه بن نصر بن الازد. * ابن عمائيل (مقاتل) بن النوار بن عيص بن إسحاق. * سبط النبی هارون اخ نبی موسى. * لنبی اليسع. |
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی میں ایک اہم واقعہ اس ملاقات کا ہے جو ان کے اور ایک صاحب باطن کے درمیان ہوئی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے عالم تکوینیات کے بعض رموز و اسرار معلوم کیے اس ملاقات کا ذکر تفصیل کے ساتھ سورة کہف میں بیان کیا گیا ہے اور بخاری میں اس واقعہ کے متعلق بعض مزید تفصیلات مذکور ہیں ‘ بخاری میں سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے عرض کیا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ موسیٰ صاحب خضر ‘ موسیٰ صاحب بنی اسرائیل نہیں ہیں یہ ایک دوسرے موسیٰ ہیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا ” دشمن خدا جھوٹ کہتا ہے۔ مجھ سے ابی بن کعب ؓ نے حدیث بیان کی ہے ‘ انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے ارشاد فرماتے تھے کہ ایک روز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو خطاب فرما رہے تھے کہ کسی شخص نے دریافت کیا ‘ اس زمانہ میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ مجھے خدا نے سب سے زیادہ علم عطا فرمایا ہے ‘ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ بات پسند نہ آئی اور ان پر عتاب ہوا کہ تمھارا منصب تو یہ تھا کہ اس کو علم الٰہی کے سپرد کرتے اور کہتے ” واللّٰہ اعلم “ اور پھر وحی نازل فرمائی کہ جہاں دو سمندر ملتے ہیں (مجمع البحرین) وہاں ہمارا ایک بندہ ہے جو بعض امور میں تجھ سے زیادہ عالم و دانا ہے۔[2]
سفر موسیٰ علیہ السلام
ترمیمحضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ پروردگار تیرے اس بندے تک رسائی کا کیا طریقہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مچھلی کو اپنے توشہ دان میں رکھ لو ‘ پس جس مقام پر مچھلی گم ہوجاوے اسی جگہ وہ شخص ملے گا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مچھلی کو توشہ دان میں رکھا اور اپنے خلیفہ یوشع بن نون (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر ” مرد صالح “ کی تلاش میں روانہ ہو گئے ‘ جب چلتے چلتے ایک مقام پر پہنچے تو دونوں ایک پتھر پر سر رکھ کر سو گئے ‘ مچھلی میں زندگی پیدا ہوئی اور وہ زنبیل سے نکل کر سمندر میں چلی گئی مچھلی پانی کے جس حصہ پر بہتی ہوئی گئی اور جہاں تک گئی وہاں پانی برف کی طرح جم کر ایک چھوٹی سی پگڈنڈی کی طرح ہو گیا ‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سمندر میں ایک لکیر یا خط کھینچا ہوا ہے ‘ یہ واقعہ یوشع (علیہ السلام) نے دیکھ لیا تھا کیونکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے بیدار ہو گئے تھے مگر جب موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو ان سے ذکر کرنا بھول گئے اور پھر دونوں نے اپنا سفر کرنا شروع کر دیا اور اس دن اور رات میں آگے ہی بڑھتے گئے جب دوسرا دن ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب تکان زیادہ محسوس ہونے لگی وہ مچھلی لاؤ تاکہ بھوک رفع کریں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی منزل مقصود تک پہنچنے میں کوئی تکان نہیں ہوئی تھی ‘ مگر منزل سے آگے غلطی سے نکل گئے تو اب تکان بھی محسوس ہونے لگی۔ یوشع (علیہ السلام) نے کہا : آپ کو معلوم رہے کہ جب ہم پتھر (صخرہ) کی چٹان پر تھے تو وہیں مچھلی کا یہ تعجب خیز واقعہ پیش آیا کہ اس میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ مکتل (زنبیل) میں سے نکل کر سمندر میں چلی گئی اور اس کی رفتار پر سمندر میں راستہ بنتا چلا گیا۔ میں آپ سے یہ واقعہ کہنا بالکل بھول گیا ‘ یہ بھی شیطان کا ایک چر کا تھا۔ [3] نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سمندر کا وہ خط مچھلی کے لیے ” سرب “ (راستہ) تھا ‘ اور موسیٰ و یوشع(علیہا السلام) کے لیے ” عجب “ (تعجب خیز بات)۔
موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات خضر علیہ السلام
ترمیمحضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جس مقام کی ہم کو تلاش ہے وہ وہی مقام تھا اور یہ کہہ کر دونوں پھر ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوئے اسی راہ پر لوٹے اور اس ” صخرہ “ (پتھر کی چٹان) تک جا پہنچے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس جگہ عمدہ لباس پہنے ہوئے ایک شخص بیٹھا ہے ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو سلام کیا۔ اس شخص نے کہا کہ تمھاری اس سرزمین میں ” سلام “ کہاں ؟ (یعنی اس سرزمین میں تو مسلمان نہیں رہتے) یہ خضر (علیہ السلام) تھے ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میرا نام موسیٰ ہے۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا : موسیٰ بنی اسرائیل ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ہاں میں تم سے وہ علم حاصل کرنے آیا ہوں جو خدا نے تم ہی کو بخشا ہے۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا : ” تم میرے ساتھ رہ کر ان معاملات پر صبر نہ کرسکو گے۔ موسیٰ خدائے تعالیٰ نے مجھ کو تکوینی رموز و اسرار کا وہ علم عطا کیا ہے جو تم کو نہیں دیا گیا اور اس نے تم کو (تشریعی علوم کا) وہ علم عطا فرمایا ہے جو مجھ کو عطا نہیں ہوا۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” ان شاء اللہ آپ مجھ کو صابر و ضابط پائیں گے اور میں آپ کے ارشاد کی قطعاً خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ “ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا تو پھر شرط یہ ہے کہ جب آپ میرے ساتھ رہیں تو کسی معاملہ کے متعلق بھی جس کو آپ کی نگاہیں دیکھ رہی ہوں مجھ سے کوئی سوال نہ کریں میں خود آپ کو ان کی حقیقت بتادوں گا۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے منظور کر لیا اور دونوں ایک جانب کو روانہ ہو گئے۔ جب سمندر کے کنارے پہنچے تو سامنے سے ایک کشتی نظر آئی۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے ملاحوں سے کرایہ پوچھا ‘ وہ خضر (علیہ السلام) کو پہچانتے تھے ‘ لہٰذا انھوں نے کرایہ لینے سے انکار کر دیا اور اصرار کر کے دونوں کو کشتی میں سوار کر لیا اور کشتی روانہ ہو گئی۔ ابھی چلے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے سامنے والے حصہ کا ایک تختہ اکھاڑ کر کشتی میں سوراخ کر دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ضبط نہ ہو سکا خضر (علیہ السلام) سے کہنے لگے کشتی والوں نے تو یہ احسان کیا کہ آپ کو اور مجھ کو مفت سوار کر لیا اور آپ نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ کشتی میں سوراخ کر دیا کہ سب کشتی والے کشتی سمیت ڈوب جائیں یہ تو بہت نازیبا بات ہوئی ؟ [4]
علم تکوینیات
ترمیمحضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میری باتوں پر صبر نہ کرسکیں گے ‘ آخر وہی ہوا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے وہ بات بالکل فراموش ہو گئی اس لیے آپ بھول چوک پر مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملہ میں سخت گیری سے کام نہ لیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” یہ پہلا سوال واقعی موسیٰ (علیہ السلام) کی بھول کی وجہ سے تھا “ اسی اثناء میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کر بیٹھی اور پانی میں چونچ ڈال کر ایک قطرہ پانی پی لیا ‘ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا بلا شائبہ تشبیہ علم الٰہی کے مقابلہ میں میرا اور تمھارا علم ایسا ہی بے حقیقت ہے جیسا کہ سمندر کے سامنے یہ قطرہ۔ کشتی کنارے لگی اور دونوں اتر کر ایک جانب روانہ ہو گئے سمندر کے کنارے کنارے جا رہے تھے کہ ایک میدان میں کچھ بچے کھیل رہے تھے حضرت خضر (علیہ السلام) آگے بڑھے اور ان میں سے ایک بچہ کو قتل کر دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پھر یارائے صبر نہ رہا فرمانے لگے ناحق ایک معصوم جان کو آپ نے مار ڈالا یہ تو بہت ہی برا کیا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہاـ: میں تو شروع ہی میں کہہ چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر و ضبط سے کام نہ لے سکیں گے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” چونکہ یہ بات پہلی بات سے بھی زیادہ سخت تھی اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صبر و ضبط نہ کرنے میں معذور تھے “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ” خیر اس مرتبہ اور نظر انداز کر دیجئے ‘ اس کے بعد بھی اگر مجھ سے صبر نہ ہو سکا تو پھر عذر کا کوئی موقع نہیں رہے گا اور اس کے بعد آپ مجھ سے علاحدہ ہوجائیے گا ‘ غرض پھر دونوں روانہ ہو گئے اور چلتے چلتے ایک ایسی بستی میں پہنچے جہاں کے باشندے خوش عیش اور مہمان داری کے ہر طرح قابل تھے مگر دونوں کی مسافرانہ درخواست پر بھی ان کو مہمان بنانے سے انکار کر دیا تھا یہ ابھی بستی ہی میں سے گذر رہے تھے کہ خضر (علیہ السلام) ایک ایسے مکان کی جانب بڑھے جس کی دیوار کچھ جھکی ہوئی تھی اور اس کے گر جانے کا اندیشہ تھا ‘ حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کو ہاتھ کا سہارا دیا اور دیوار کو سیدھا کر دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر خضر (علیہ السلام) کو ٹوکا اور فرمانے لگے کہ ” ہم اس بستی میں مسافرانہ وارد ہوئے ‘ مگر اس کے بسنے والوں نے نہ مہمان داری کی اور نہ ٹکنے کو جگہ دی ‘ آپ نے یہ کیا کیا کہ اس کے ایک باشندے کی دیوار کو بغیر اجرت درست کر دیا ‘ اگر کرنا ہی تھا تو بھوک پیاس کو دور کرنے کے لیے کچھ اجرت ہی طے کرلیتے “ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا ” اب میری اور تمھاری جدائی کا وقت آگیا ہے “ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِکَ اور پھر انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان تینوں معاملات کے حقائق کو سمجھایا اور بتایا کہ یہ سب منجانب اللہ وہ باتیں تھیں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ہمارا جی تو یہ چاہتا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تھوڑا صبر اور کرتے اور ہم کو اللہ تعالیٰ کے اسرار اور تکوینی علوم کی مزید معلومات ہو سکتیں۔ “ جب حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہا السلام) کی مفارقت ہونے لگی تو خضر (علیہ السلام) نے ان واقعات کی جو حقیقت بیان کی قرآن عزیز نے سورة کہف میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اس طرح ظاہر کیا ہے : { قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِکَ سَاُنَبِّئُکَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَھَا وَ کَانَ وَرَآئَھُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْھِقَھُمَا طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا فَاَرَدْنَآ اَنْ یُّبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّ اَقْرَبَ رُحْمًا وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَ کَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌلَّھُمَا وَ کَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّھُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنْزَھُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ وَ مَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا } [5] ” بس اب مجھ میں اور تم میں جدائی کا وقت آگیا ہاں جن باتوں پر تم سے صبر نہ ہو سکا ‘ ان کی حقیقت تمھیں بتلائے دیتاہوں سب سے پہلے کشتی کا معاملہ لو وہ چند مسکینوں کی تھی جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے ہیں وہ جس طرف بڑھ رہے تھے وہاں ایک بادشاہ ہے (ظالم) جس کسی کی (اچھی) کشتی پاتا ہے زبردستی لے لیتا ہے میں نے چاہا اس کی کشتی میں عیب ڈال دوں (تاکہ عیبی سمجھ کر اس کو چھوڑ دے) رہا لڑکے کا معاملہ تو اس کے ماں باپ مومن ہیں میں یہ دیکھ کر ڈرا کہ یہ انھیں سرکشی اور کفر کر کے اذیت پہنچائے گا پس میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس لڑکے سے بہتر انھیں لڑکا دے گا دینداری میں بھی اور محبت میں بھی اور وہ جو دیوار درست کردی گئی تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی ہے جس کے نیچے ان کا خزانہ گڑا ہوا ہے ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا ‘ پس تمھارے پروردگار نے چاہا دونوں لڑکے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ محفوظ پا کر نکال لیں یہ ان لڑکوں کے حال پر پروردگار کی ایک مہربانی تھی جو اس طرح ظہور میں آئی ‘ اور یاد رکھو میں نے جو کچھ کیا اپنے اختیار سے نہیں کیا (بلکہ اللہ کے حکم سے کیا) یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کرسکے۔ “ قرآن عزیز نے اس واقعہ کے شروع میں خضر (علیہ السلام) کے اس ” علم “ کے متعلق کہا ہے وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا [6] ” اور ہم نے اس کو اپنے پاس سے علم عطا کیا “ اور قصہ کے آخر میں خضر کا یہ قول نقل کیا وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ [7] ” میں نے اس سلسلہ واقعات کو اپنی جانب سے نہیں کیا “ تو ان دونوں جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خضر (علیہ السلام) کو بعض اشیاء کے حقائق کا وہ علم عطا فرمایا تھا جو تکوینی رموز و اسرار اور باطنی حقائق سے متعلق ہے اور یہ ایک ایسا مظاہرہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اہل حق پر یہ واضح کر دیا کہ اگر عالم ہست و بود کے تمام حقائق سے اسی طرح پردہ اٹھا دیا جائے جس طرح بعض حقائق کو خضر (علیہ السلام) کے لیے بے نقاب کر دیا گیا تھا تو اس عالم کے تمام احکام ہی بدل جائیں اور عمل کی آزمائشوں کا یہ سارا کارخانہ درہم برہم ہو کر رہ جائے مگر دنیا اعمال کی آزمائش گاہ ہے اس لیے تکوینی حقائق پر پردہ پڑا رہنا ضروری ہے تاکہ حق و باطل کی پہچان کے لیے جو ” ترازو “ قدرت الٰہی نے مقرر کر دیا ہے وہ برابر اپنا کام انجام دیتا رہے۔ سورة کہف کی ان آیات کے مطالعہ سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ اولوا العزم پیغمبر اور جلیل المرتبت رسول تھے اور تشریعی علوم و احکام کی تبلیغ ان کا منصب تھا اس لیے وہ ان تکوینی اسرار کے مظاہرے کو برداشت نہ کرسکے اور باوجود وعدہ صبر کے تشریعی منکرات کو دیکھ کر ضبط نہ کرسکے اور حضرت خضر (علیہ السلام) کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مخاطب بناتے رہے اور آخر کار جدائی کی نوبت آگئی۔ بخاری کی مسطورہ بالا حدیث میں سورة کہف کے ذکر کردہ واقعات سے چند باتیں زیادہ ہیں جو اصل کی تمہید یا مزید تشریح کے طور پر بیان ہوئی ہیں اور اس حدیث ہی نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس ” عبد صالح “ کو خضر (علیہ السلام) کہتے ہیں۔
سورة کہف کی ان آیات کے مطالعہ سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ اولوا العزم پیغمبر اور جلیل المرتبت رسول تھے اور تشریعی علوم و احکام کی تبلیغ ان کا منصب تھا اس لیے وہ ان تکوینی اسرار کے مظاہرے کو برداشت نہ کرسکے اور باوجود وعدہ صبر کے تشریعی منکرات کو دیکھ کر ضبط نہ کرسکے اور حضرت خضر (علیہ السلام) کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مخاطب بناتے رہے اور آخر کار جدائی کی نوبت آگئی۔ بخاری کی مسطورہ بالا حدیث میں سورة کہف کے ذکر کردہ واقعات سے چند باتیں زیادہ ہیں جو اصل کی تمہید یا مزید تشریح کے طور پر بیان ہوئی ہیں اور اس حدیث ہی نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس ” عبد صالح “ کو خضر (علیہ السلام) کہتے ہیں۔ اس مقام پر چند باتیں قابل بحث ہیں :
ان کو حیات ابدی حاصل ہے یا وفات پاچکے ؟
ترمیممفسرین کے یہاں تینوں سوالات کے جوابات میں بہت سے اقوال منقول ہیں چنانچہ پہلے سوال کے جواب میں بعض کہتے ہیں کہ خضر نام ہے اور اکثر کا قول ہے کہ یہ لقب ہے۔ اور پھر نام کے متعلق بھی مختلف اقوال ہیں مثلاً بلیابن ملکان ایلیا بن ملکان " خضرون ‘ معمر ‘ الیاس ‘ الیسع وغیرہ۔ دوسرے سوال کے جواب میں بعض کا قول ہے کہ وہ فقط عبد صالح تھے اور بعض کہتے ہیں کہ رسول تھے ‘ مگر جمہور کا قول یہ ہے کہ نہ وہ رسول تھے اور نہ فقط عبد صالح بلکہ نبی تھے۔ اور تیسرے سوال کے جواب میں بعض علما کا خیال ہے کہ ان کو حیات ابدی حاصل ہے اور وہ اب تک زندہ ہیں اور اس سلسلہ میں کچھ حکایات و روایات بھی بیان کرتے ہیں۔ اور جلیل القدر محققین فرماتے ہیں کہ ان کے لیے حیات ابدی کا ثبوت نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے لہٰذا وہ بھی انسانی دنیا کی طرح اپنی طبعی موت سے وفات پاچکے۔
قول فیصل
ترمیمان ہر سہ مسائل میں قول فیصل یہ ہے کہ پہلی بات کے متعلق قرآن عزیز میں کوئی تذکرہ نہیں ہے نہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا نام مذکور ہے اور نہ لقب بلکہ عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا کہہ کر ان کا واقعہ نقل کیا ہے البتہ بخاری ومسلم کی صحیح احادیث میں خضر کہہ کر ان کا ذکر کیا گیا ہے پس اگر تاریخی روایات سے ہم ان کے نام اور لقب کا پتہ لگاسکتے تو بآسانی یہ کہہ سکتے کہ فلاں نام ہے اور فلاں لقب مگر اس بارے میں تاریخی اقوال اس درجہ مضطرب ہیں کہ ان سے کسی نتیجہ پر پہنچنا ناممکن ہے لہٰذا ہمارے سامنے ان کی شخصیت کا تعارف صرف اسی قدر ہوتا ہے کہ ان کو خضر کہا جاتا ہے اور یہ کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معاصر ہیں اس سے زیادہ ان کے نام یا لقب یا نسب کی تمام بحثیں بے دلیل محض تخمینی اقوال کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور دوسری بات کے متعلق راجح قول یہ ہے کہ وہ نبی تھے اس لیے کہ قرآن عزیز نے جس انداز میں ان کے شرف کا ذکر کیا ہے وہ مقام نبوت ہی پر صادق آتا ہے اور مقام ولایت اس سے بہت فروتر ہے مثلاً جب خضر (علیہ السلام) نے لڑکے کے قتل کی وجہ بیان کی ہے تو ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا { رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ وَ مَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ } [8] ” یہ میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا تیرے رب کی رحمت کی بدولت ہوا۔ “ اور ظاہر ہے کہ کسی ولی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ الہام کے ذریعہ سے کسی شخص کو قتل کر ڈالے اس لیے کہ ” الہام “ میں مغالطہ کا امکان ہے اور اولیاء اللہ کے بہت سے مکاشفات میں اسی لیے کثرت سے تضاد پایا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر وہ شرعی حجت تسلیم نہیں کیا گیا۔ لہٰذا امور تکوینیہ میں ایک ایسا تکوینی امر جو ظاہر سطح میں نہایت قبیح اور بہت بڑا جرم ہے صرف وحی الٰہی کے ذریعے سے ہی انجام پاسکتا تھا اس آیت کے علاوہ حضرت موسیٰ اور خضر (علیہا السلام) کے درمیان گفتگو کے واقعہ کو جس انداز میں بیان کیا گیا ہے وہ بھی اسی کی تائید کرتا ہے کہ وہ نبی تھے تبھی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے اولوالعزم پیغمبر حضرت خضر کی معیت اور ان کے علم تکوینی کے مشاہدہ کے لیے اصرار کرتے ‘ اور تبھی حضرت خضر (علیہ السلام) جرأت کے ساتھ اپنے علم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان موازنہ کرتے نظر آتے ہیں۔ تا ہم مجموعہ کمالات نبوت رسالت کے اعتبار سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقام خضر (علیہ السلام) کے مقام سے بہت بلند ہے کیونکہ وہ خدا کے نبی ہیں اور جلیل القدر رسول بھی ‘ صاحب شریعت بھی ہیں اور صاحب کتاب بھی اور رسولوں میں بھی اولوالعزم رسول ہیں پس حضرت خضر (علیہ السلام) کا وہ جزئی جو علم تکوین کے اسرار سے تعلق رکھتا تھا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جامع علم تشریعی پر فائق نہیں ہو سکتا۔ اور تیسری بات کے متعلق صحیح رائے علمائے محققین ہی کی ہے جو اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کو حیات ابدی حاصل نہیں ہے اور وہ اپنی طبعی عمر کے بعد وفات پاچکے ‘ اس لیے کہ قرآن مجید میں تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو حیات ابدی عطا نہیں فرمائی ‘ اور اس کے لیے اس دنیا میں ” موت “ ایک امر حق ہے ‘ چنانچہ ارشاد ہے : { وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ } [9] ” اور (اے محمد ) ہم نے تجھ سے پہلے بھی کسی بشر کو حیات ابدی عطا نہیں کی۔ “ نیز قرآن عزیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم نے ہر ایک نبی سے یہ عہد و میثاق لیا ہے کہ جب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوگی تو تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ہو اس کا فرض ہوگا ‘ کہ وہ اس رسول پر ایمان بھی لائے اور اس کی مدد بھی کرے ‘ چنانچہ تمام انبیا و رسل نے اس کا اقرار کیا اور ان کے اور خدا کے درمیان شہادت و میثاق محکم و مضبوط ہوا۔ { وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖیْنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ } [10] ” اور جب اللہ نے نبیوں سے میثاق و عہد لیا کہ میں نے جو کچھ تم کو کتابیں اور علم دیا ہے پھر آوے تمھارے پاس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ سچا بتائے تمھارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے ؟ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا ؟ بولے ہم نے اقرار کیا ‘ فرمایا تو اب گواہ رہو ‘ اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں۔ “ پس اگر حضرت خضر (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو ان کا فرض تھا کہ وہ علی الاعلان حاضر خدمت ہو کر آپ پر ایمان لاتے اور تمام غزوات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اعانت و امداد کرتے ‘ مگر کسی صحیح روایت سے ان باتوں میں سے کسی ایک بات کا بھی ثبوت نہیں ملتا ‘ حالانکہ غزوہ بدر و حنین وغیرہ میں جبرائیل امین اور ملائکہ کی اعانت و امداد تک کی تصریحات موجود ہیں۔ قرآن عزیز کی ان آیات کے علاوہ صحیحین (بخاری و مسلم) کی حسب ذیل روایت بھی اس عقیدہ کی تردید کرتی ہے کہ خضر (علیہ السلام) اب تک زندہ ہیں :
کیا خضر ؑ اب تک زندہ ہیں
ترمیم” حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللّٰہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک شب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اس رات کو تم نے دیکھا ؟ یہ واضح رہے کہ آج جو شخص بھی بقید حیات ہے ‘ ایک صدی گزرنے پر ان میں سے ایک بھی زمین پر زندہ باقی نہیں رہے گا۔ “ ١ ؎ اس صحیح حدیث کی پیش گوئی کے مطابق بھی حضرت خضر (علیہ السلام) کی حیات ابدی کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی ‘ اور نہ ان کا استثناء کسی روایت سے ثابت ہوتا ہے ‘ حالانکہ یہ روایت صحیحین کے علاوہ مختلف طریقوں سے دوسری کتب حدیث میں بھی منقول ہے۔ اسی لیے مشہور محدث حافظ ابن قیم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رضی اللّٰہ عنہ) سے ایک بھی صحیح روایت ایسی منقول نہیں ہے جس سے حضرت خضر (علیہ السلام) کے زندہ ہونے کا ثبوت ملتا ہو ‘ بلکہ اس کے برعکس آیات قرآنی اور صحیح روایات ان کی موت کی تائید کرتی ہیں۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن جوزی، امام بخاری، قاضی ابو یعلی حنبلی، ابو طاہر بن الغباری، علی بن موسیٰ الرضا، ابو الفضل مریسی، ابو طاہر بن العبادی، ابوالفضل بن ناصر، قاضی ابوبکر بن العربی، ابوبکر محمد بن الحسن جیسے جلیل القدر محدثین و مفسرین ان کی موت ہی کے قائل ہیں۔ لہٰذا حیات خضر (علیہ السلام) کے متعلق جن علما نے اجماع نقل کیا ہے وہ قطعاً بے سند ہے بلکہ مشہور مفسر ابو حیان اندلسی نے دعوائے اجماع کے خلاف یہ دعویٰ کیا ہے کہ جمہور کا مسلک یہی ہے کہ خضر (علیہ السلام) زندہ نہیں ہیں۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے کرائی جن کا نام خضر (علیہ السلام) تھا ان کو بعض اسرار تکوینیہ کا وہ علم عطا ہوا تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نہیں دیا گیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شان حضرت خضر سے کہیں زیادہ ہے حضرت خضر (علیہ السلام) کا تذکرہ جس انداز سے قرآن مجید نے کیا ہے اس سے یہی راجح نظر آتا ہے کہ وہ نبی تھے ‘ تاہم بہتر یہ معلوم ہوتا ہے اس معاملہ کو قرآن عزیز نے جس طرح مجمل رکھا ہے ہم صرف اسی پر یقین رکھیں اور اس سے آگے اپنی تحقیق کو دخل نہ دیں حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے اور چونکہ ان کی حیات ابدی کے لیے کوئی شرعی اور تاریخی دلیل موجود نہیں ہے اس لیے بلاشبہ وہ بھی اپنی عمر طبعی کو پہنچ کر واصل الی اللہ ہوئے۔ حضرت خضرؑ کے واقعہ کے متعلق اور بھی بہت سی عجیب و غریب روایات تفسیر و تاریخ کی کتابوں میں منقول ہیں ‘ محققین کی نگاہ میں وہ سب موضوع اور بے اصل ہیں ‘ اور اسرائیلیات سے ماخوذ ‘ اس لیے ناقابل اعتماد ہیں۔
مجمع البحرین
ترمیم” مجمع البحرین “ دو دریاؤں کے سنگم کو کہتے ہیں یہاں کون سے دو دریا اور ان کا سنگم مراد ہے ؟ اس کے متعلق مفسرین اور ارباب سیرت سے مختلف اقوال منقول ہیں مگر ان میں سے کوئی قول بھی قول فیصل کی حیثیت نہیں رکھتا البتہ جن حضرات نے اس سے بحر روم اور بحر قلزم اور ان دونوں کا سنگم مراد لیا ہے وہ قرین قیاس ہے اور یہ ممکن ہے جس زمانہ کا یہ واقعہ ہے اس وقت ان دونوں میں ایساخط اتصال موجود ہو ‘ جس پر حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہا السلام) کے درمیان یہ واقعہ پیش آیا ہے اس لیے کہ خروج مصر اور میدان تیہ کے قیام کے دوران میں بظاہر انہی ہر دو سمندروں سے یہ واقعہ متعلق ہو سکتا ہے ‘ اور حضرت استاذ علامہ سید محمد انور شاہ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ یہ مقام وہ ہے جو آج کل عقبہ کے نام سے مشہور ہے۔ [11]