مولانا جان محمد لاہوری
مولانا جان محمد لاہوری (پیدائش: 1779ء – وفات: 5 نومبر 1851ء ) سکھ سلطنت کے شہر لاہور کے نامور عالم، خطیب اور واعظ گو محدث تھے۔برصغیر میں لاہور کو علم و کمال کے اعتبار سے ہمیشہ ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے، یہاں کے علما میں جن بزرگوں نے تیرہویں صدی ہجری میں اپنے کمالاتِ علمی کی وجہ سے شہرت پائی، اُن میں مولانا جان محمد لاہوری کی شخصیت نمایاں نظر آتی ہے۔
مولانا جان محمد لاہوری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1779ء سیالکوٹ |
وفات | 5 نومبر 1851ء (71–72 سال) لاہور |
عملی زندگی | |
پیشہ | خطیب ، عالم ، محدث ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، عربی ، اردو |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمپیدائش اور خاندان
ترمیممولانا جان محمد کی پیدائش 1779ء میں شہر سیالکوٹ میں ہوئی۔ مولانا کی زندگی کے ابتدائی سالوں او ر تعلیم و اساتذہ سے متعلق معلومات کتب ہائے تذکرہ میں موجود نہیں۔ دادا کا نام ولی اللہ اور والد کا نام محمد غوث تھا۔ زندگی کا ابتدائی دور کن حالات میں گزار؟ اِس کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ کن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی؟ اخذِ علم کے لیے کہاں کہاں اور کن کن شہر قصبوں کا سفر کیا اور کس استاد سے کون کونسی کتب پڑھیں؟ کن حضرات سے کسبِ فیض کے مواقع میسر آئے؟۔ یہ سب معلومات اب پردۂ اَخفاء میں ہیں جن کا کچھ پتا نہیں چلتا۔[1]
اولاد
ترمیمآپ کے دو فرزند تھے جن کا ذِکر کنہیا لال ہندی نے تاریخ لاہور میں کیا ہے: مولانا فیض محمد جوعلوم دینیہ کے ماہر تھے اور اپنے والد کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے، دوسرے مولانا محمد فضل تھے جو والد کے علمی جانشین ہوئے اور علم طب میں بھی دستگاہ رکھتے تھے۔[2][3]
وفات
ترمیممولانا جان محمد لاہوری کی وفات تقریباً 72 سال کی عمر میں بروز بدھ 10 محرم الحرام 1268 ھ مطابق 5 نومبر 1851ء کو لاہور میں ہوئی۔[4]
بحیثیت واعظ و خطیب
ترمیم- مزید پڑھیں: سکھ سلطنت، کنہیا لال ہندی
مولانا جان محمد سیالکوٹ کی سکونت ترک کرکے لاہور آگئے اور ہیں آباد ہوئے۔ اندرون لاہور، کشمیری بازار کی ایک مسجد (نور محمد ایمان والا) میں درسِ خطابت میں مصروف ہو گئے۔ بے حد مؤثر وعظ کہتے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ آپ کے مواعظ حَسَنہ سے متاثر ہوکر باقاعدہ صوم و صلٰوۃ کے پابند ہوئے۔ مؤرخ لاہور رائے بہادر کنہیا لال ہندی نے جو مولانا کے ہم عصر بھی تھے‘ نے لکھا ہے کہ: ’’ واعظِ شیریں بیان مولوی جان محمد لاہوری، اپنے وعظ کی سحربیانی سے قلوب و اذہان کو مسحور کر دیا کرتے تھے ۔ آپ سکھوں کے عہد میں کشمیری بازار کی مسجد کے خطیب مقرر ہوئے۔ اُس زمانے میں یہ ایک وسیع مسجد تھی، جس میں ہزاروں لوگ جمعہ کا خطبہ سننے آتے تھے۔ ایک دفعہ جمعہ کا وعظ سننے کے لیے مسجد کا متولی نور محمد ایمان والا بھی آیا۔ وعظ سے اِس قدر متاثر ہوا کہ اپنی دستار اور قیمتی کوٹ اُتار کر مولوی صاحب کو پیش کیا اور نماز سے فراغت کے بعد آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی عظیم الشان حویلی میں لے گیا‘ اور اپنے اہل و عیال کو دوسرے مکان میں منتقل کرکے ساری حویلی مع ساز و سامان کے آپ کے حوالے کردی۔ مولوی جان محمد صاحب تا حینِ حیات اِسی حویلی میں قیام پزیر رہے۔ بعد میں یہ حویلی آپ کی اولاد کے نام منتقل ہو گئی‘‘۔[5]
مزید دیکھیے
ترمیمکتابیات
ترمیم- کنہیا لال ہندی: تاریخ لاہور، مطبوعہ لاہور۔
- محمد اسحاق بھٹی: فقہائے ہند، جلد 6، مطبوعہ دارالنَوادر، لاہور، 2013ء