مولانا سید ذو الفقار احمد قاسمی نروری
پیدائش14 دسمبر 1940(1940-12-14)ء
وفات10 جولائی 2010(2010-07-10)ء
قلمی نامذو الفقار احمد
پیشہعالم، صوفی، نقاد، محقق
زباناردو، عربی، ہندی
قومیتپرچم بھارت بھارتی
موضوعتحقیق و اصلاح

نام و نسب

ترمیم

ذو الفقار احمد بن حاجی حافظ مختار احمد بن حافظ ریاض احمد، آخر تک آپ کے خاندان کو سادات حسنی اے انتساب کا شرف حاصل ہے۔

تاریخ و جائے پیدائش

ترمیم

نرور سے 40 کلومیٹر دور تحصیل "کریرا" میں مورخہ 14 دسمبر 1940ء بروز سنیچر آپ کی ولادت ہوئی۔

آپ کا وطن مالوف نرور ہے جو تاریخی حیثیت سے بھیب اہمیت کا حامل ہے اور جائے وقوع کے اعتبار سے بھی پرکیف و پر سکون ہے، اس کے دو طرف پہاڑ اور تیسری سمت دریائے سندھ بہتا ہے، یہ بستی سادات کی بستی ہے۔[1]

تعلیم و تربیت

ترمیم

محدث جلیل نے ہندی و انگریزی مڈل تک تعلیم حاصل کی پھر شیخ الاسلام حسین احمد مدنی نے آپ کے والد بزرگوار سے فرمایا:

" آپ ابھی اپنے بڑے بیٹے ذو الفقار کو دیوبند مدرسہ میں داخل کر دیں، ان کے والد صاحب نے عرض کیا، ہمارے علاقہ میں اس طرح کا ماحول نہیں ہے، لوگ سمجھیں گے کہ ماں کے مر جانے کے بعد انھیں سنبھال نہ سکا تو، تو یتیم خانہ میں چھوڑ دیا اور دیوبند بہت بڑی جگہ ہے، میں دور دراز کا رہنے والا فقیر آدمی میرا بچہ وہاں داخل کراؤں، ہم تو دیہاتی لوگ ہیں اور بچہ اسکول میں آٹھویں جماعت میں پڑھ رہا ہے، آپ دعا فرمائیں" یہ سب سن کر شیخ الاسلام نے فرمایا: "امتحان دلا کر دیوبند لے آؤ داخلہ ہو جائے گا، آپ ہمارے مہمان رہیں گے، اللہ کے دین کے لیے وقف کرو".

ادھر بات آئی گئی ہو گئی، ادھر حضرت شیخ الاسلام نے خود حیکم الاسلام سے فرمایا کہ دار العلوم کے روز اول سے آج تک گوالیار کے علاقہ سے کوئی طالب علم نہی آیا ہے، ہم نے مختار احمد نامی ایک صاحب سے اپنا بچہ دار العلوم میں داخل کرنے کے لیے کہا ہے، لیکن وہ دیہات کے رہنے والے ہیں، دار العلوم کی عظمت سے سہمے ہوئے، آپ اس پتہ پر پیشگی داخلہ یا منظوری نامہ ارسال فرمادیں، تاکہ وہ ہمت کرس کیں اور ان کا حوصلہ بڑھے۔ منظوری کا خط حضرت کے گھر پہنچا، آپ دیوبند پہنچے اور حضرت شیخ الاسلام کی زیر نگرانی دینیات کی تعلیم فارسی سے لے کر دورۂ حدیث شریف تک مکمل فرمائی۔[2]

اساتذۂ کرام

ترمیم

شیخ الحدیث مولانا فخر الدین

مولانا فخر الحسن

مولانا سید انظر شاہ کشمیری

مولانا معراج الحق

علامہ نصیر احمد خان

تلامذۂ کرام

ترمیم

آپ نے تقریباً نصف صدی تک فلاح دارین ترکیسر میں درس و تدریس اور اپنے فیض بے کراں سے تشنگانِ علم و فضل کو سیراب کیا، اس طویل عرصہ میں آپ کی آغوش تربیت سے جو چوٹی کے علما تربیت پاکر نکلے ان میں سے کچھ کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔

مولانا یوسف صاحب ٹنکاروی(شیخ الحدیث فلاح دارین ترکیسر )

مولانا غلام محمد وستانوی ( رئیس جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا)

قاری صدیق صاحب سانسرودی ( فلاح دارین ترکیسر )

مولانا اقبال صاحب مدنی ندوی ( فلاح دارین ترکیسر )

مولانا قاری احمد علی فلاحی ( مہتمم و شیخ الحدیث مدرسہ فیض سلیمانی، موٹی نرولی)

مولانا احمد صاحب ٹنکاروی( فلاح دارین ترکیسر )

مولانا صلاح الدین صاحب سیفی فلاحی ( فلاح دارین ترکیسر )

مولانا اقبال صاحب ٹنکاروی (مہتمم دار العلوم مالی والا بھروچ)

ان کے علاوہ دیگر بہت سے جلیل القدر ممتاز علما نے حضرت کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔[3]

علوم اسلامیہ میں مقام

ترمیم

آپ کے علم میں وسعت تھی، فقہ، حدیث، تفسیر، علم کلام اور ادب حتی کہ تاریخ سے بھی گہری وابستگی تھی، اس کا اندازہ تو ان کتابوں سے ہوتا ہے جو آپ نے تقریباً اپنے پینتالیس سالہ دور تدریس میں پڑھائی ہیں، اگرچہ اخیر زمانہ تدریس کی ساری مشغولیت حدیث شریف کی خدمت کے لیے وقف تھی اور آپ سے صرف صحیحین ہی متعلق رہیں، تاہم آپ کو مہارت دوسرے فنون سے بھی گہری تھی اور اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے آپ کے خلف رشید حضرت مفتی جنید صاحب مد ظلہ فرماتے ہیں: دوران تعلیم ایم پی کے اکابر علما میں ان کا زیادہ تعلق شہر بھوپال کے سابق قاضی حضرت مولانا سید عابد علی وجدی الحسینی سے رہا، کئی سفر اور کئی کئی روز کا قیام ان سے صرف ملاقات و صحبت کے لیے ہوا، انھوں نے فقہ میں مہارت کی طرف توجہ دلائی، فراغت کے بعد افتاء کا بھی مشورہ دیا تھا، لیکن والد صاحب کا رجحان ہر فن سے مناسبت رکھنے کا تھا، جسے بعد میں مستفیدین نے ضرور محسوس کیا ہوگا (در یسیر: 22) نیز آپ نے فلاح دارین کے فارم میں جو استاد کے تعارف کے لیے خاص ہے اس میں اس سوال کے جواب میں کہ "آپ کو کس فن سے خصوصی دلچسپی ہے؟" لکھا ہے کہ "فن تفسیر" سے.[4]

اخلاق و عادات

ترمیم

تقوی و خشیت الہی، تواضع، زہد و استغناء، توکل علی اللہ، تقشف، مجاہدہ و قربانی، اخفا حال، اکابر و مشائخ سے گہرا تعلق و محبت، بے پناہ غم خواری و غم گساری، قیام لیل کا غایت اہتمام، غایت درجہ حزم و احتیاط اور ان جیسی انمول خوبیوں کے آپ مالک تھے۔

وفات و تدفین

ترمیم

16 ربیع الآخر 2 اپریل 2010 شب جمعہ میں جناب کی طبیعت علیل ہو گئی، پہلے شفاء ہسپتال ترکیسر پھر کامریج اور اس کے بعد بڑودہ کے ایک ہسپتال میں بھرتی کیا گیا، طبیعت میں نشیب و فراز آتے گئے، چنانچہ 19 ربیع الآخر (5 اپریل) بروز پیر تقریباً دوپہر 12 بجے اچانک ایک اور قلب کا حملہ جو جان لیوا ثابت ہوا، انتقال کے بعد صاحبزادۂ محترم مولانا جنید احمد صاحب مد ظلہ اور گھر کے دیگر افراد کے مشورہ پر بڑودہ سے آبائی وطن (نرور، ضلع شیو پوری، ایم پی) منتقلی کا فیصلہ کیا گیا اور 20 ربیع الآخر صبح 6 بجے وطن پہنچ کر تقریباً 9:30 کو حضرت کے آبائی قبرستان میں والد مرحوم کے جوار میں تدفین عمل میں آئی۔

تصنیفات

ترمیم

(1) نیکی کا موسم: یہ مختصر سا رسالہ فکر آخرت، ترغیب خیر، مواضع بر و صلاح اور عبادت کے سنہرے اور قیمتی مواقع کو غنیمت جاننے پر مشتمل ہے۔

(2) مہمان رسول ﷺ: جس میں طلبہ عظام کی عظمت، ان کا انداز تربیت اور بہت سے امور پر گفتگو ہے۔

(3) دینی مکالمے: جس میں صفائی اور اسلام، لباس اور اسلام، داڑھی اور اسلام، قربانی اور اسلام، پردہ اور اسلام، تصویر اسلام، سود اور اسلام، کمیونزم اور اسلام، شیعیت اور اسلام، طاعون اور اسلام، جہیز اور اسلام، شراب اور اسلام اور قمار اور اسلام کے علاوہ بہت سے حساس مضامین کو انتہائی شستہ و شگفتہ زبان میں مکالماتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

(4) حج سیکھیے، حج کیجئے: عشق و محبت کے سفر حج کو اس کتاب کے ذریعہ اتنا آسان بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ اسے پڑھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ دیدار محبوب سے کس قدر آسانی کے ساتھ اور کتنی جلدی سرفرازی نصیب ہو گئی۔

(4) دمکتے موتی چمکتے تارے: یہ کتاب 40 منتخب احادیث مبارکہ پر مشتمل ہے۔

(5) اولاد کی پرورش: اولاد کی تربیت کے اصول حسین پیرائے میں اس کتاب میں ذکر کیے گئے ہیں۔

(6) کشکول: یہ کتاب در حقیقت ان کی زندگی کا حاصل مطالعہ، اکابر علما کے حکمت بھرے ملفوظات اور خود صاحب کتاب کے درس و بیان میں ان کی زبان سے بیان شدہ شریعت کے اسرار و حکم، تحقیق، اسلام کے اصول و فروع پر ہونے والے عقلی سوالات کے تشفی بخش جوابات، تفسیری نکات اور بہت سی علمی اصناف کے جواہر پارے اپنے اندر رکھتی ہے۔

(7) مدارس و مکاتب اسلامیہ کے رہنما اصول۔

(8) برطانیہ میں مقیم مسلمانوں سے کچھ مفید باتیں، مفید مشورے۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرہ حضرت مولانا سید ذو الفقار احمد قاسمی نروری: 25
  2. تذکرہ ص:30
  3. تذکرہ ص: 32
  4. در یسیر ص: 22
  5. تذکرہ از ص 34 تا ص 104