گوالیار
گوالیار (انگریزی: Gwalior) ہے جو بھارت میں واقع ہے۔ اس کی مجموعی آبادی 1,901,981 پر مشتمل ہے، یہ گوالیار ضلع میں واقع ہے۔[1]
عرفیت: مدھیہ پردیش کا سیاحتی مرکز The City of Scindia The City of Rishi Galav & Tansen Nagari | |
ملک | بھارت |
ریاست | مدھیہ پردیش |
خطہ | Gird |
ضلع | گوالیار |
قائم از | راجا سورج سین |
وجہ تسمیہ | Saint Gwalipa |
حکومت | |
• میئر | سمیکشا گُپتا (منتخبہ 15 دسمبر 2009)بھارتیہ جنتا پارٹی |
• گولیار کلکٹر | Mr. P. Narahari |
• میونسپل کمیشنر | ونود شرما |
رقبہ | |
• کل | 780 کلومیٹر2 (300 میل مربع) |
رقبہ درجہ | 15th |
بلندی | 196 میل (643 فٹ) |
آبادی (2011) | 1,901,981 (Including Morar, Lashkar, Gwalior West, Malanpur, Maharajpur etc) |
• کثافت | 5,478/کلومیٹر2 (14,190/میل مربع) |
• Population rank | 11th |
زبانیں | |
• دفتری | ہندی، مراٹھی زبان اور انگریزی |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC+5:30) |
ڈاک اشاریہ رمز | 474001 to 474055 (HPO) |
ٹیلیفون رمز | 0751 |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | MP-07 |
انسانی جنسی تناسب | .948 مذکر/مؤنث0 |
Literacy | 87.20%% |
Avg. summer temperature | 31 °C (88 °F) |
Avg. winter temperature | 15.1 °C (59.2 °F) |
ویب سائٹ | City Website |
محل وقوع
دار الحکومت دہلی سے تقریباً تین سو تیس اور بھوپال سے تقریباً چار سو تیس کلو میٹر کی دوری پر، وسط ہند میں واقع اس گوالیار شہر کی تاریخی و ثقافتی نقوش صدیوں پر محیط ہیں، ہڑپہ تہذیب سے ملتے جلتے آثار قدیمہ کی روشنی میں یہاں ہزاروں سال قبل مسیح انسانی وجود اور تہذیبی ترقی کا پتہ چلتا ہے۔
گوالیار کی بنیاد و وجہ تسمیہ
تاریخی روایت کے مطابق پانچویں صدی عیسوی میں راجہ سورج پال کو جب "گوالی" نامی ایک رشی کے ہاتھوں جذام کے مرض سے شفایابی ملی تو اس سے خوش ہو کر اس کے نام کے ساتھ لفظ "ار" (بمعنی گوشہ) کو ملا کر اس خطے کا نام "گوالی ار" رکھا، جو بعد میں گوالیار بولا جانے لگا۔
پال خاندان کا عہد اقتدار اور پریہار گھرانے کا راج
راجہ سورج پال کے بعد تقریباً بارہویں صدی کے نصف تک گوالیار یکے بعد دیگرے اسی خاندان کے ۸۳ راجاؤں کے زیر اقتدار رہا، پال حکومت کے دوران ہی ۱۰۲۱-۱۰۲۲ میں فاتح محمود غزنوی نے گوالیار قلعے پر یورش کی، لیکن راجہ کیرتی پال صلح کر کے بدستور بر سر اقتدار رہا۔ آخر کار ۱۱۲۸ع میں جب پال خاندان کے آخری راجہ تیج کرن اپنے بھانجے پریمال دیو پریہار کو اپنا راج کاج سونپ کر آمیر (راجھستان) چلا گیا اس وقت پريہار گھرانے کا راج شروع ہوا، ۱۱۹۶ راجہ سارنگ دیو پريہار کے عہد حکمرانی میں محمد غوری نے گوالیار کا رخ کیا، نتیجتاً راجہ سارنگ محمد غوری کی شرائط پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوا۔
گوالیار خاندان غلاماں کی سر پرستی میں
۱۲۰۰ ع میں راجہ سارنگ نے گوالیار کی زمام سلطنت دہلی میں بر سر اقتدار، سلطان قطب الدین ایبک کے سپرد کر دی،اس طرح گوالیار خاندان غلاماں کی سرپرستی میں آ گیا اور سلطان کے حکم کے مطابق شمس الدین التمش گوالیار کا امیر مقرر ہوا۔ سلطان کی وفات کے بعد جب التمش دہلی میں قیام پذیر ہوا تو ۱۲۲۳ میں راج منگل دیو نے حملہ کر گوالیار کا حکمران بن گیا، لیکن التمش نے پلٹ کر ایسی سخت یورش کی کہ پسپائی راج منگل کا مقدر بنی، التمش نے یہاں پانی کی کمی کو دیکھتے ہوئے جگہ جگہ کنویں اور باؤلیاں بنوائیں، اس کے بعد گوالیار تیرہویں صدی کے آخر میں شیر خان کے دور تک جو گوالیار پر اس خاندان کی طرف سے آخری امیر رہے، مسلسل اسی خاندان کے زیر انتظام رہا تا آنکہ دہلی میں خاندان غلاماں کا زوال ہو گیا۔
خلجی و تغلقی دور اور راجپوتوں کی حکومت کا قیام
جب خاندان غلاماں کا زوال آ گیا، تو خاندان خلجی نے دہلی پر اپنا اقتدار جمایا، ۱۲۹۵ میں جلال الدین گوالیار آیا اور یہاں مسافروں کے لیے راستوں میں سرائے بنوائے۔
اس کے بعد ۱۳۳۵ میں سلطنت دہلی پر تغلق خاندان کا اقتدار قائم ہوا تو گوالیار اُن کی نگرانی میں آ گیا، ۱۳۹۴ میں جب تغلق خاندان کی حکمرانی علاء الدین سکندر شاہ کے ہاتھ میں آئی تو اس نے چنبل علاقے کے راجہ دیو ورمن کے بیٹے ویر سنگھ کو گوالیار کی حکومت سونپ دی، اس طرح ۱۳۹۴ میں ویر سنگھ کے توسط سے یہاں باقاعدہ تومر راجپوتوں کی حکومت قائم ہو گئی، جو ۱۵۲۶ میں ایک طویل عرصے کے بعد راجہ وکرمادتیہ کی موت پر اختتام پذیر ہوئی۔
تومر خاندان کا دور گوالیار کے لیے علمی، سماجی، موسیقی اور ثقافتی ترقیات کا زمانہ رہا، اسی دور میں صوفیاء نے یہاں کا رخ کیا، انہوں نے لوگوں کو معرفت، وحدت و محبت کی تلقین کی، مسلم و ہندو ایک دوسرے کے نزدیک ہوئے، غرض یہ دور گوالیار کے لیے ایک خوش حال زمانہ رہا۔
گوالیار مغلیہ سلطنت کے عہد میں
۱۵۲۶ میں پانی پت کی جنگ میں ابراہیم لودھی کی شکشت کے بعد بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی، اس وقت گوالیار مغلیہ سلطنت کے زیر نگیں آیا لیکن چند ہی سالوں بعد جب ہمایوں کو شیر شاہ کے مقابلے شکست ہوئی تو گوالیار شیر شاہ اور اس کے بعد عادل شاہ کے قبضے میں چلا گیا، عادل شاہ کو شکست دے کر ہمایوں نے دوبارہ مغلیہ سلطنت کو بحال کر لیا۔
مراٹھا سلطنت کا قبضہ
۱۷۰۶ میں اورنگزیب رح کے انتقال کے بعد مغل سلطنت کمزور ہو گئی، اس لیے ۱۷۵۴ میں مراٹھا سردار وٹھل راؤ کے حملے کے وقت مغل قلعے دار نے گوہد کے رانا بھیم سنگھ کو گوالیار قلعہ سونپ دیا، لیکن ۱۷۵۵ میں مراٹھا سپہ سالار رگھو ناتھ راؤ نے رانا کو شکست دے کر گوالیار اپنے قبضے میں لے لیا۔
اس کے بعد ۱۷۶۱ میں پانی پت جنگ کی افرا تفری کے دوران گوہد کا راجہ لوکیندرا سنگھ گوالیار قلعہ پر قابض ہوگیا۔
گوالیار پر سندھیا خاندان کا راج
۱۷۶۵ میں مہاراجہ مہا دجی سندھیا نے گوالیار قلعے پر فتح حاصل کی، یہیں سے گوالیار پر با قاعدہ سندھیا راج کا آغاز ہوا جو آزادی ہند تک بدستور جاری رہا۔ اس وقت ریاست گوالیار شمال میں اتر پردیش کی سرحد اور جنوبی اطراف میں بشمول خطۂ مالوہ، مہاراشٹرا کی سر حد تک وسیع و عریض تھی۔
صوبے سے ضلع تک کا سفر
آزادی کے بعد ۱۹۴۸ میں مرکزی حکومت نے گوالیار اور مالوہ کے علاقوں کو شامل کر کے مدھیہ بھارت صوبہ قائم کیا، جیواجی راؤ سندھیا اس کے گورنر مقرر ہوئے، لیکن پھر چند سالوں بعد ہی جب ۱۹۵۶ میں بھوپال، اندور اور گوالیار کو ملا کر مدھیہ پردیش صوبے کی تشکیل کی گئی تو گوالیار جو اب تک صوبہ کی شکل میں مخلتف حکومتوں کا مرکز بنتا رہا تھا، ایک ضلعے میں تبدیل ہو گیا، اس طرح تاریخ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے گوالیار آج بھی صوبہ مدھیہ پردیش میں اپنی قدیم تہذیب و تاریخ کی بدولت اپنی امتیازی شان کے ساتھ زندہ و تابندہ ہے۔
مزید دیکھیے ترمیم
حوالہ جات ترمیم
ویکی ذخائر پر گوالیار سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |