مونا محمود نژاد (انگریزی: Mona Mahmudnizhad) (10 ستمبر 1965ء-18 جون 1983ء) ایرانی نزاد بھائی مذہب کی ماننے والی خاتون تھی جسے 9 دیگر افراد کے ساتھ 1983ء میں بہائی مذہب کو ماننے اور اس کی تشہیر کے جرم میں شیراز، ایران میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔[1][2][3]

مونا محمود نژاد

معلومات شخصیت
پیدائش 10 ستمبر 1965(1965-09-10)
عدن  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات جون 18، 1983(1983-60-18) (عمر  17 سال)
شیراز، ایران
وجہ وفات پھانسی  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت ایرانی
عملی زندگی
پیشہ معلمہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت بہائیت کی تبلیغ اور عقیدہ کی وجہ سے سزائے موت

ان پر سرکاری طور پر نوجوانوں کو صہیونیت کی جانب ورغلانے کا الزام تھا (کیونکہ بہائی عالمی مرکز اسرائی میں واقع ہے۔)[4] 2001ء میں غیر منافع بخش تنظیم کی تشکیل ہوئی جس کا مقصد بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینا ہے۔ اس تنظیم کا نام مونا کے نام پر رکھا گیا۔

بچپن ترمیم

محمود نژاد کی ولادت 10 ستمبر 1965ء میں ہوئی۔ ان کی والدہ یاد اللہ اور والد فخر الدین محمود نژاد تھے۔ انھوں نے اپنے مذہب کی تدریس کی خاطر ایران کو الوداع کہا اور یمن جا بسے۔[5] 1969ء میں یمن نے تمام غیر ملکیوں کا باہر نکال دیا اور محمود نژاد واپس ایران آگئے۔ انھوں نے دو سال اصفہان، 6 ماہ کرمانشاہ اور 3 سال تبریز میں گزارے اور بالآخر پورا خاندان 1974ء میں شیراز میں آباد ہو گیا۔ اس دوران میں ان کے والد چھوٹے موٹے آلات کی مرمت کر کے عوزی روٹی کماتے رہے اور بہائی مذہب پر عمل کرتے رہے۔[5]

گرفتاری، قید اور موت ترمیم

ایران میں مسلسل بہائیوں پر ظلم ہوتا رہا اور 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد ظلم مزید بڑھ گیا۔[1][6] 23 اکتوبر 1982ء کو شام 7:30 بجے عوامی انتظامیہ نے چار افراد کو محمود نژاد کے گھر بھیجا اور گھر کی تلاشی شروع کر دی اور بہائی مسلک کی کتابیں اور دیگر مواد تلاش کرنے لگے۔ وہ مونا اور اس کے والد کو بھی گرافتار کر کے لے گئے۔ دونوں کے ہاتھ باندھ دیے گئے اور شیراز کے سپاہ قید خانہ میں بند کر دیا گیا۔ وہاں دونوں کا الگ الگ جگہ رکھا گیا جہاں وہ کل 38 دن قید رہے۔[5] 29 نومبر 1982ء کو مونا کو دیگر 5 بہائیوں کے ساتھ سپاہ سے عادل آباد منتقل کر دیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد انھیں اسلامی انقلابی عدالت میں پش کیا گیا جہوں ان کے تفتیش کی گئی اور واپس مقید کر دیا گیا۔[5] کئی دنوں تک تفتیش کا سلسلہ چلتا رہا اور محمود نژاد مجرم قرار پائے اور انھیں پھانسی کی سزا ہوئی۔[3] پھانسی کے وقت صدر ریاستہائے متحدہ امریکا رونالڈ ریگن نے ان کی معافی کی اپیل کی مگر نا منظور ہوئی اور مونا سمیت دس خواتین کو 18 جون 1983ء کی رات پھانسی دے دی گئی۔[2] مونا محمود نژاد کے علاوہ دس عورتوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:[5]

  • نصرت یلدائی، 54 سال
  • عزت جنمی اشراقی، 50 سال
  • رویا اشراقی، 23 سال، عزت کی دختر
  • طہیری سیاووشی، 32 سال
  • زرین موقیمی، 28 سال
  • شیرین دلواند، 25 سال
  • اختر ثابت، 19 سال
  • سیمین صبری، تقریباً 20 سال
  • مہاشد نیرومند، 28 سال

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب Friedrich W. Affolter (2005)۔ "The Specter of Ideological Genocide: The Baháʼís of Iran" (PDF)۔ War Crimes, Genocide and Crimes Against Humanity۔ 1 (1): 59–89۔ 27 نومبر 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ  "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 نومبر 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2020 
  2. ^ ا ب Reuters (1983-06-20)۔ "Iran reportedly executes 16 Baha'is in secret"۔ New York Times 
  3. ^ ا ب Sandy Mullins (2007)۔ "Mona Mahmudnizhad"۔ Bella Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2007 
  4. NOEL GRIMA (03 اگست 2008) 'Mona's Dream' may be directed by Mario Philip Azzopardi, perhaps not in Malta آرکائیو شدہ 2012-03-01 بذریعہ وے بیک مشین، The Malta Independent
  5. ^ ا ب پ ت ٹ The Story of Mona: 1965–1983۔ Thornhill, Canada: Baháʼí Canada Publications۔ 1985 
  6. International Federation for Human Rights (2003-08-01)۔ "Discrimination against religious minorities in Iran" (PDF)۔ fdih.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2006