مونی محسن
مونی محسن (پیدائش: 1963ء) ایک برطانوی پاکستانی مصنفہ ہیں جو لندن، برطانیہ میں مقیم ہیں۔ [5][6] وہ فرائڈے ٹائمز کے لیے طویل عرصے سے طنزیہ کالم ' ایک سماجی تتلی کی ڈائری' لکھنے اور اسی نام سے ایک کتاب لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔[7][8]
مونی محسن | |
---|---|
مونی محسن | |
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 1963ء |
قومیت | پاکستان |
بہن/بھائی | |
رشتے دار | جگنو محسن (بہن)، نجم سیٹھی (بہنوئی)، علی سیٹھی (بھانجا)، میرا سیٹھی (بھانجی)، |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ کیمبرج |
پیشہ | کالم نگار، ناول نگار، مصنفہ[1][2] |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [3] |
کارہائے نمایاں | کالم نگار دا فرائیڈے ٹائمز[4] ، دا گارڈیئن، "ڈائری آف آ سوشل بٹر فلائی" کتاب کی مصنفہ |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیممونی محسن پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہوئیں اور یہیں پلی بڑھیں اور خود کو "تعلیم یافتہ، مغرب زدہ " خاندان سے تعبیر کرتی ہیں۔ جب جنرل ضیاء الحق 1977 میں آمریت کے اقتدار میں آئے تو، مونی محسن کے کنبے نے نئے، شدت پسند پاکستان میں کم راحت محسوس کرنا شروع کردی، جہاں امن پسند شہریوں کے خلاف سیاسی جبر معمول بن گیا۔ اس کے باوجود مونی نے لاہور میں ہی رہنے کا انتخاب کیا۔ مونی محسن نے انگلینڈ کے ایک بورڈنگ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے 16 سال کی عمر میں پاکستان چھوڑ دیا تھا اور بعد میں کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، جہاں انھوں نے بشریات اور آثار قدیمہ کی تعلیم حاصل کی۔ 1988 میں جنرل ضیاء کی موت کے بعد، وہ زیادہ فیصلہ کن طور پر پاکستان واپس آئیں اور ملک کے پہلے آزاد میگزین " دا فرائیڈے ٹائمز" کے لیے کام کرنا شروع کیا، جہاں وہ فیچر ایڈیٹر کی صف میں شامل ہوگئیں۔ [9]
مونی محسن کی بہن، جگنو محسن، ایک آزاد میگزین، " دی فرائیڈے ٹائمز " کی پبلشر ہیں۔[10] مونی، گلوکار علی سیٹھی اوراداکارہ میرا سیٹھی کی خالہ ہیں۔[11][12][13] مونی محسن اب اپنا وقت لاہور اور لندن کے مابین گزارتی ہیں، جہاں وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔
مونی محسن کو اکثر ادبی میلوں کے پینل میں مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ زینت ہارون راشد تحریری انعام برائے خواتین کے ججوں کے پینل میں شامل تھیں۔[14][15][16][17][18][19]
اشاعتیں
ترمیممونی محسن دو ناولوں کی مصنفہ[20] ہیں : "دی اینڈ آف انوسینسس" (2006) [21][22][23] اور "ٹینڈر ہکس" عرف "ڈیوٹی فری" (2011) ،[24][25] اور دوکالموں کے مجموعہ پہ مشتمل کتب کی مصنفہ ہیں: " ایک سماجی تتلی کی ڈائری (2008)" [26][27][28] اور تتلی کی واپسی (2014)۔ [29] ان کی تحریریں " ٹائمز آف انڈیا"،[30] " دی گارڈین، "[31] پراسپیکٹ ،[32] " دی نیشن[33] " 1843 میگزین) دی اکانومسٹ) ، [34] بوسٹن ریویو[35] ، این پی آر[36] ، ہیرالڈ (پاکستان)[37] اور دیگر جگہوں پہ شائع ہو چکی ہیں۔
مونی محسن ایک فری لانس صحافی کے طور پر کام کر رہی ہیں اور طبقات، سیاست، ثقافت، معاشرے اور طرز زندگی کے بارے میں لکھتی ہیں۔ [5][38][39]
- ↑ "Life of Ahmed"۔ The Friday Times۔ 19 July 2019۔ 18 جنوری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020
- ↑ The Newspaper's Correspondent (23 February 2013)۔ "A galaxy of literary stars"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb16595312r — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ Moni Mohsin۔ "Partition Stories"۔ The Friday Times
- ^ ا ب Zahrah Mazhar (7 February 2014)۔ "No fluttering about: Moni Mohsin may be a social butterfly but she stings like a bee"۔ The Express Tribune (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 ستمبر 2020
- ↑ Aroosa Shaukat (24 February 2013)۔ "Lahore Literary Festival (LLF) 2013: 'The key is to write about what you know'"۔ The Express Tribune (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 ستمبر 2020
- ↑ "Yale Club of London - Mixing It Up: Marvin Rees and Moni Mohsin, In Conversation"۔ www.yale.org.uk۔ 17 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020
- ↑ "Moni Mohsin | Emirates Airline Festival of Literature"۔ 14 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020
- ↑ Rakhshanda Jalil (5 February 2011)۔ "Stinging butterfly"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)
- ↑ Emily Wax (28 November 2007)۔ "How Pakistan's Satirists Poke Fun, Politically"
- ↑ Maniza Naqvi (5 March 2018)۔ "Pakistani English fiction's search for approval and recognition"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی)
- ↑ "Ali Sethi - His Biography, Life, Education, Career, Music and Writings"۔ Parhlo
- ↑ Images Staff (12 June 2020)۔ "Mira Sethi's book will hit shelves in April 2021"۔ Images (بزبان انگریزی)
- ↑ "Former hostage to address Sharjah book fair"۔ gulfnews.com (بزبان انگریزی)
- ↑ Dawn Books And Authors (3 March 2013)۔ "LAHORE LITERARY FESTIVAL: Writing from the edge"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ "Writing to build a better world"۔ gulfnews.com (بزبان انگریزی)
- ↑ "The Writing Prize In Honour Of The Woman Who Set Up Pakistan's National Women's Guard"۔ Mashion (بزبان انگریزی)۔ 15 December 2019
- ↑ "'Zeenat Haroon Rashid Writing Prize For Women' announced"۔ The News Tribe۔ 11 March 2019۔ 12 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020
- ↑ Images Staff (12 March 2019)۔ "This new competition is celebrating writing by Pakistani women"۔ Images (بزبان انگریزی)
- ↑ "English writing by Pakistani women"۔ The Daily Star (بزبان انگریزی)۔ 23 August 2008
- ↑ "Writing prize for women to honour Women's National Guard stalwart Zeenat Haroon Rashid"۔ Daily Times۔ 12 March 2019۔ 09 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020
- ↑ From InpaperMagazine (13 March 2011)۔ "COVER STORY: 'Every story dictates its own style — Moni Mohsin'"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ "The End of Innocence, by Moni Mohsin"۔ The Independent (بزبان انگریزی)۔ 22 June 2006
- ↑ "Gossip girl"۔ Daily Times۔ 3 February 2011
- ↑ Irfan Husain (25 July 2011)۔ "Miro, Moni Mohsin and Sondheim"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ "'The Diary of a Social Butterfly' — social commentary wrapped in humour"۔ Daily Times۔ 24 November 2018
- ↑ "Five books to read as we struggle to survive the lockdown"۔ Daily Times۔ 8 May 2020
- ↑ Sauleha Kamal (3 April 2018)۔ "Pakistani English novel's ceaseless quest for identity"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی)
- ↑ Mamun M. Adil (21 September 2014)۔ "REVIEW: The Return of the Butterfly by Moni Mohsin"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ "Moni Mohsin Blog"۔ Times of India Blog
- ↑ "Moni Mohsin | The Guardian"۔ the Guardian (بزبان انگریزی)
- ↑ "Moni Mohsin"۔ 17 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020
- ↑ "Moni Mohsin"۔ The Nation
- ↑ "Moni Mohsin"۔ 1843
- ↑ "Boston Review — Moni Mohsin: State of Emergency"۔ www.bostonreview.net۔ 12 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020
- ↑ "A Life-Changing Book With A Fierce, Feisty Heroine"۔ NPR.org (بزبان انگریزی)
- ↑ Moni Mohsin (3 February 2017)۔ "Je suis Chauburji: Development matters but not more than heritage"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی)
- ↑ "Lahore Literature Festival: Organisers hope festival triggers revival of culture"۔ The Express Tribune (newspaper)۔ 17 February 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 ستمبر 2020
- ↑ "Let's not forget our roots"۔ Daily Times۔ 18 November 2018