ایک قوم ، ذات

وجہ تسمیہ

ترمیم

مُوہانہ"صحیح لغت مُوہانھ"انگریزی حروفِ تہجی میں "MUHANA" پاکستان میں معروف سرائیکی زبان میں موہاݨا "سندھی میں موہاݨو"یا مُوہانو اور گلگت بلتستان میں مروچ یا مہون پکاری جانی والی برادری ذات (cast) ہے جسے اردو رسمُ الخط میں مُوہانہ لکھا جاتا ہے۔ جس کا معروف عرب ماہی گیر قبیلہ مُھّٙنا سے گہرا تعلق ہے جس کا اصل وطن شام اُردن اور فلسطین کی بحری پٹی سے ہے، مُوہانہ کو عربی زبان میں مُُھّٙنا "Muhanna"ہندوستان میں"MOHANA" اور امریکی ریاست اٹلانٹا میں"MOANA"لِِکھا اور پُکارا جاتاہے۔جبکہ برصغیرِ ہند و پاک اور بالخصوص پاکستان میں مُوہانہ لکھا جاتا ہے، جسے اردو معانی لُغت میں دریا کا دہانہ بھی کہا گیا ہے,

شاخیں

ترمیم

پاکستان میں مُوہانہ برادری کی تین مستند شاخیں ہیں۔

١۔حقیقی مُوہانہ۔جو قدیم سندھ کا باسی ہے جسے موہانڑو پکارا جاتا ہے

٢۔ملاح مُوہانہ۔یعنی کسی بھی قوم سے تعلق رکھنے والا کشتی بان

٣۔اعزازی لقب امیرالبحر یا میر بحر کہلانے والے مُوہانہ۔

اس کے علاوہ مچھلی پکڑنے بیچنے یا پالنے والے بھی پیشے کی نوعیت سے خود کو مُوہانہ کہلاتے ہیں مگر کسی مُستند تاریخی حیثیت سے ہر قوم موہانہ ثابت نہیں ہوتی۔

تاریخی حیثیت

ترمیم

قرینِ قیاس ہے کہ برصغیر میں دنیا کی سب سے قدیم اور تہذیب یافتہ دریافت شدہ آثار قدیمہ "موہنجودڑو" کا موہانہ ذات سے بڑا گہرا تعلق ہے، جیسا کہ موہانہ کا بنیادی تعلق دریاوں سے ہے اسی طرح دریائے سندھ کے کناروں پر آباد یہ قوم قدیم ترین تہذیب بھی مُوہانہ برادری کی داستانِ ماضی ہی ہے" اور قرین قیاس یہ بھی ہے کہ موہنجودڑو کا قدیم نام "موہانڑو جو دڑو"mohanro jo daro یا "موہان جو دڑو"mohan jo daro یعنی (موہانوں قوم کا ٹیلہ) بھی تصورکیاجاسکتاہے،بنیادی طور پر لفظ مُوہانہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے، ١۔مونہہ۔ یعنی چہرہ۔ ٢۔ہانہ یعنی چہرے کا سامنے کا حِصہ۔ جس کا پورا مطلب ہے مُونہہ والا دیگر معنوں میں سرائیکی زبان کے اعتبار سے عزت والا غیرت والا بھی منقول ہیں۔ مُوہانڑاں کے حوالے سے سرائیکی وسیب میں ضرب الامثل بھی "مشہور ہے، جیسے"مُوہاندرا جُوان"یعنی زور آور تگڑا یا لڑاکا آدمی وغیرہ،موہانجوداڑو کی تباہی کے بعد یہ قوم پوری دنیا میں کی بحری پٹیوں میں پھیل گئی جس میں بالخصوص بحیرہ عرب کے ساحلی علاقے سرِ فہرست ہیں۔۔! بعد ازیں یہ قوم خالص عربی کلچر کی بھی عکاس بنی۔عرب قوم چونکہ ایک غیرت مند اور غیور قوم جانی جاتی ہے اپنی ہزاروں سالہ پرانی جنگجوانہ روایات اور قبائلی نظام کی وجہ سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے" اور مُوہانہ یعنی مُھّٙنا جس کا عربی میں عمومی معنی نجات اور خوشی ہے، بالخصوص اس سے مراد نوح علہ السلام کی کشتی اور طوفان سے سلامتی بھی منقول ہے،(جس کی وجہ سے بحری پٹی اور دریاوں پر آباد مُوہانہ جو ملاح گیری کے قدیم ترین پیشے سے وابستہ ہوئے وہ کشتی بانی کو پیشہءِ پیغمبری جان کر اس پیشے کو عزت والا پیشہ بھی سمجھتے ہیں) اس عرب قبیلے کا قدیم ترین پیشہ ماہی گیری ہے ،جس کی باقیات پوری دنیا میں لفظ مُھّٙنا سے مِلتے جُلتے ناموں سے موجود ہیں!جو علاقائی زبان و قیام کی وجہ سے بدلتے رہے۔ اِسی وجہ سے مُوہانہ'عرب ممالک کے علاوہ ہند و پاک میں آباد ایک قدیم قبیلہ ہے جس کا عمومی مذہب اسلام ہے اور اس میں سب سے معروف۔سندھی مُوہانڑو۔سرائیکی مُوہانڑاں۔ملاح گیری کے پیشے سے وابستگی کی وجہ سے امیرالبحر۔یامیربہر۔ملاح۔وغیرہ کافی معروف ہیں۔"نیز۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی اپنے والد کی نسبت سندھ کے معروف موہانہ قبیلے کچھی مُوہانہ اور والدہ کی نسبت راجپوت قوم سے تعلق رکھتے تھے۔جس کا اظہار انھوں 1938 میں شملہ میں قیام کے دوران اپنے دوستوں سے گفتگو کے دوران از خود کیا تھا۔کہ ان کے والد کا تعلق موہانہ قبیلے سے ہے۔موہانہ قوم کی بنیادی پہچان کشتی بانی اور ماہی گیری ہی ہے، بر صغیر اور عرب مورخین کے اقتباسات کی روشنی میں یہ بات بھی کافی عیاں ہوتی ہے کہ سندھ کے ساحلوں میں ایک عرب مُھّٙنا تاجر جس کا نام ابو الحسن مُھّٙنا اور اعزاز امیر البحر تھا جس کے جہازی قافلے کو سندھ کے سمندری قزاقوں نے راجا داہر کی ایماء پر لوٹااور مسلم خواتین کو قید کر لیا جس کے سبب خلیة المسلمین نے سندھ کے راجا داہر کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور مُسلم مجاہدین کی رضاکار فوج محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ پر حملہ آور ہوئی جس میں چھ ہزار سے زائد عرب مُھنا قبائل کے نوجوان شامل تھے۔جو ابو الحسن مُھنا کے ہم پیشہ اور اس کے حامی قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔مُوہانہ ملاح بنیادی طور پر کئی ہزار سال اپنی زندگی کشتیوں پر پانی میں سمندروں اور دریاوں کے کناروں پر بسر کرتے رہے۔جبکہ اس جدید دور میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایشیا کی سب سے بڑی قدرتی جھل منچھر جو کم و بیش نو سو مربع کلومیٹر پر محیط ہے میں ہزاروں کی تعداد میں پانی سطح پر تیرتی کشتیوں کے گاؤں موجود ہیں۔ اِسی وجہ سے بنیادی تعلیم اور خشکی کی زندگی بالخصوص زندگی کے دیگر پیشوں سے بہت عرصہ نابلد رہے۔اور غیر ترقی یافتہ بھی رہے مگر اپنے اِسی پیشے کے سبب پوری دینا بھی گھومے اور نئی دنیائیں (سمندروں میں گھرے جزائر امریکا۔ آسٹریلیا۔ جاپان۔ انڈونیشیا' وغیرہ) بھی دریافت کیں۔معروف برطانوی ملاح کسٹوفر کولمبس ہی نے امریکا دریافت کیا۔تاہم 16ویں صدی عیسوی تک جب کشتیوں میں اِن کی آبادی اس قدر بڑھی کہ جینا مُحال ہو گیا' اِسی صورت کے پیش نظر یہ لوگ خشکی کی جانب تلاشِ رزق میں نِکلے اور سمندر اور دریا سے اپنی شکار کی ہوئی مچھلی کو شہروں کے بازاروں میں بیچنے سے انھیں شہری زندگی کے انداز و اطوار جاننے کا موقع مِلا۔اور تعلیم کی طرف رغبت بھی ہوئی۔برِصغیر میں بالخصوص۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب تعلیم عام ہوئی تو متعدد لوگوں نے تعلیم و ہنر حاصل کرنے کے بعد دیگرشعبوں اور پیشوں سے وابستگی اختیار کی اور شہری زندگی کی جانب مائل ہوئے اور مختلف شعبہ زندگی بھی اختیار کیے جن میں تجارت و زراعت سرِ فہرست ہیں۔ جبکہ اب بھی موہانہ قبائل کی کسیر تعداد کشتی بانی اور ماہی گیری کے قدیم پیشے سے وابستہ ہے ہندوستان میں مُوہانہ قبائل کے نام سے موسوم درجن سے زائد شہر اور قصبے مشہور ہیں مُوہانہ عرب جو بالخصوص بحیرہ عرب سے منسلک ممالک میں کثیر تعداد میں آباد ہیں وہ بھی اپنے اِسی قدیم پیشے کشتی بانی اور ماہی گیری سے منسلک ہیں اُنیسوی صدی کے اواخر میں یہ قبیلہ دنیاوی تعلیم کی طرف راغب ہوا اوربہت ہی اعلیٰ پائے کی شخصیات اس قبیلے سے پیدا ہوئی ہیں, جن میں فارسی، عربی، اردو، سرائیکی اورسندھی زبان کے معروف عالم دین مولوی حاجی احمد ملاح 1877ء کو گوٹھ کنڈی ضلع بدین میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے بدین میں مدرسہ مظہر العلوم قائم کیا اور قران پاک کا پہلا منظوم سندھی ترجمہ کیا جس کا نام نورالقران ہے۔ مولوی حاجی احمد ملاح کا انتقال 1969 کو بدین میں ہوا۔ ان کی وفات کے نو برس بعد 23 مارچ 1978 ء کو انھیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ 1981 ء میں انھیں جنرل محمد ضیا الحق نے قرآنی علوم کی اشاعت کے حوالے سے صدارتی اعزاز عطاء کیا'مولوی حاجی احمد ملاح گوٹھ کنڈی ضلع بدین میں آسودہ خاک ہیں۔ضلع رحیمیار خان کی تحصیل صادق آباد کے علاقہ بھونگ شریف کی تاریخی جامع مسجد کے سابق امام مولانہ مفتی عبد القادر السعیدی موہانہ مرحومؒ نے اپنے ہاتھ سے عرصہ چھ سال کی مدت میں مکمل قرآن پاک کا پہلا سراٸیکی ترجمہ تحریر فرماکر موہانہ قوم اور سراٸیکی وسیب کا سر فخر سے بلند کیا۔ سرائیکی ادب و شاعری کی اعلیٰٰ اور نامور شخصیات میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سرائیکی وسیب میں حضرت خواجہ غلام فرید کے بعد سرائیکی زبان کے معروف ترین شاعر جناب شاکر شجاع آبادی۔کاتعلق بھی موہانہ برادری سے ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب پروفیسر حبیب موہانہ؛بھی اپنی اعلیٰ تعلیمی خدمات کے عوض مُوہانہ برادری کا فخر ہیں۔آپ اردو انگریزی اور سرائیکی زبان کی متعدد اعلیٰ پائے کی کُُتب کے مُُصنف ہیں اور پروفیسر حبیب مُُوہانہ کی اعلیٰ ترین سرائیکی تصنیف الله لہیسی مُونجھاں سرائیکی ادب میں اِس قدر مُُمتاز ہے کہ اس کتاب کو سرائیکی ادب کے طور پر بطورِ نِصاب بہاؤالدین زکریا یونورسٹی ملتان میں ایم اے سرائیکی و ادب کے طُلبہ کو پڑھائی جاتی ہے۔عالمی سطح پر مُوہانہ برادری کی یکجہتی کے لیے کوشاں؛ اے جی عمر موہانہ؛

تنظیم سازی

ترمیم
  • "AG OMAR MUHANA"نے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موہانہ برادری کو منظم کرنے کے لٸیے دور جدید کے موہانہ قوم کے بانیان میں اپنا کردار خوب ادا کیا اور انٹرنیشنل موہانہ کمیونٹی اینڈ ڈویلپمنٹ فورم اور موہانہ فاؤنڈیشن پاکستان جیسی عالمی اورقومی وفلاحی آرگناٸزیشنز کی بنیاد ڈالی۔ گیارہ سے زائد ممالک میں تعلیم کے لیے مصروف "دی موہانہ فاؤنڈیشن" کے چئیر مین پروفیسرابراہیم مُھّنا۔پاکستان میں موہانہ فاؤنڈیشن پاکستان کے چٸیر مین پروفیسر حبیب موہانہ۔سندھ کے ضلع بدین سے رُکن سندھ اسمبلی حاجی تاج محمد ملاح سجاول سے تعلق رکھنے والے علی میر ملاح قابل ذکر ہیں، فی زمانہ اس قوم کی عالمی اور علاقائی نمائندہ تنظیمیں۔
  • (IMCDF)انٹرنیشنل مُوہانہ کمیونٹی اینڈ ڈویلپمنٹ فورم"
  • (MFP)مُوہانہ فاؤنڈیشن پاکستان"
  • (TMF)دی مُُھنافاونڈیشن سویٹزرلینڈ"
  • (PMI)پاکستان مُوہانہ اتحاد"
  • (SMF)سندھ ملاح فورم”
  • (AWO)امیرالبحرویلفئیرآرگنائزیشن سندھ"

عرب ممالک جن میں شام اردن اور فلسطین میں

  • (آل مھنا فی جبل العرب)

جبکہ مصر میں معروف سماجی تنظیم

  • (اولاد مھنا فی مصر الوطن العربی) وغیرہ۔

عالمی اور علاقائی سطح پر برادری کے ساتھ ساتھ انسانی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہیں۔