میاں محمد عبد اللہ اپنے وقت کے کامل پیر میاں احمد دین کے بڑے صاحبزادے تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔ آپ نے جید اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی۔ آپ سخی عنایت اللہ قادری کے ہاتھ بیعت ہوئے لیکن اپنے والد ماجد پہلے خلیفہ تھے۔ آپ نے گیارہ سال ویرانوں اور جنگلوں میں اللہ کی عبادت اور مجاہدوں میں گزارے۔ آپ صاحب کشف اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے میاں عبد الغنی آپ کے جانشین ہوئے۔
میاں محمد عبد اللہ قادری
دیگر ناملال شاہ، ٹوپیاں والی سرکار
ذاتی
پیدائش(1890ء)
وفات(26 دسمبر 1973ء)
مذہباسلام
والدین
دیگر ناملال شاہ، ٹوپیاں والی سرکار
سلسلہقادریہ
مرتبہ
مقامگوجرانوالہ
دورانیسیویں، بیسویں صدی
پیشرومیاں احمد دین ، سخی عنایت اللہ قادری
جانشینمیاں عبد الغنی

ولادت ترمیم

آپ کا اسم گرامی محمد عبد اللہ اور لقب ٹوپیاں والی سرکار اور لال شاہ تھا۔ آپ کی ولادت 1890ء میں میاں احمد دین کے گھر ہوئی۔ آپ کی پیدائش محلہ طوطیانوالہ گلی نلکے والی نزد گھنٹہ گھر چوک گوجرانوالہ میں ہوئی۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔

تعلیم و تربیت ترمیم

میاں محمد عبد اللہ کے والد ماجد میاں احمد دین اپنے وقت کے کامل فقیر تھے۔ قرآن مجید کی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ حدیث اور تفسیر کی تعلیم اس وقت کے جید عالم دین اور جامعہ محمدیہ کے شیخ الحدیث مولانا علاؤ الدین صدیقی سے پڑھی۔ آپ کی تعلیم پر والد صاحب نے خصوصی توجہ فرمائی اور اس وقت کے بہترین اساتذہ مہیا کیے۔ میاں محمد عبد اللہ کو اردو، پنجابی، عربی، فارسی اور انگریزی زبان پر مکمل دسترس حاصل تھی۔

بیعت ترمیم

میاں محمد عبد اللہ کے والد ماجد میاں احمد دین عالی سرکار وقت کے کامل ولی ہونے کے باوجود اپنے بیٹے کو بیعت کے لیے اپنے پیر و مرشد احمد دین صدیقی کے پاس لے گئے۔ احمد دین صدیقی نے آپ کو بیعت نہیں کیا بلکہ آپ کو اپنے خلیفہ اور والد ماجد کے پیر بھائی سخی عنایت اللہ قادری کے پاس بھیج دیا۔ میاں محمد عبد اللہ سخی عنایت اللہ قادری کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت ہوئے۔ سخی عنایت اللہ قادری نے آپ کو بیعت فرما کر اسم ذات کی تلقین کی۔ سخی عنایت اللہ قادری نے پانچ انگلیوں سے لفظ اللہ بنا کر آپ کو دیکھایا اور مرشد نے آپ کو فرمایا کہ اپنا وجود اور ہستی کو مٹا کر اس اسم کی پرورش کرو۔ یہاں تک کہ تیرا وجود ظلی و دہمی فنا ہو جائے اور اسم باقی رہے جائے۔ مرشد نے مزید آپ سے کہا کہ اب میرے پاس تربیت کے لیے نہیں آنا یہی ایک ملاقات کافی و شانی ہے، البتہ اپنے والد گرامی کو مرشد حقیقی سمجھنا۔ اس ملاقات کے بعد آپ ویرانوں اور جنگلوں میں چلے گئے جہاں آپ نے گیارہ سال گزارے۔ ان سالوں میں مجاہدے فرمائے۔ اس زمانے میں آپ کی ذات سراپا کرامت تھی۔ کسی سے کچھ طلب نہ کرتے جو کہتے غیب سے ظہور میں آ جاتا۔

شادی خانہ آبادی ترمیم

جب میاں محمد عبد اللہ گیارہ سال بعد واپس گھر لوٹے تو والد گرامی نے شادی کا خیال ظاہر کیا۔ آپ نے الامرفوق الادب کے تحت منظور کر لیا۔ اس سے پہلے آپ کے چھوٹے بھائی میاں برکت علی کی شادی ہو چکی تھی۔ آپ کے لیے رشتہ آپ کے استاد محترم علاؤ الدین صدیقی نے ڈھونڈا۔ آپ کی شادی اہل حدیث مکتب فکر کے عالم دین مولوی مولا بخش کی بھتیجی سے طے پائی۔

سجادہ نشینی ترمیم

میاں محمد عبد اللہ کے والد ماجد نے طویل عمر پائی اور 1948ء میں وفات پائی۔ بوقت وصال آپ کو طلب کیا۔ آپ کو سینے سے لگایا اور بھینجا اور تمام مریدین بشمول انسان و جنات کو آپ کی اطاعت کا حکم دیا۔ آپ اپنے والد کے بعد اپنے والد گرامی کے جانشین ہوئے اور سجادگی کا حق ادا کیا۔

طریقہ تعلیم ترمیم

میاں محمد عبد اللہ کا طریقہ تعلیم رواج کے مطابق نہیں تھا۔ آپ ایک نگاہ سے تمام حجابات اٹھا دیتے تھے۔ علم الیقین عین الیقین اور حق الیقین ایک ہی نگاہ سے بخش دیا کرتے تھے۔

وفات ترمیم

میاں محمد عبد الله نے وصال سے چالیس دن پہلے ہی کھانا پینا اور بولنا ترک کر دیا تھا۔ استغراق کی حالت میں شدت آ گئی تھی مگر ہوش میں رہتے تھے۔ اگر کوئی بندہ سوال پوچھا تو ٹھیک ٹھیک جواب دیتے تھے۔ اس کے علاوہ بالکل نہیں بولتے تھے۔ زیادہ وقت خاموشی میں ہی گزارتے تھے۔ میاں محمد عبد اللہ کے پوتے میاں مشتاق احمد کہتے ہیں کہ جب میاں جی کی حالت زیادہ استغراق والی ہوئی تو حافظ کرم دین ہمارے گھر تشریف لائے۔ انھوں نے والدہ محترمہ کو کہا آپا جی یوں لگ رہا ہے کہ میاں جی کا وقت وصال قریب آ گیا ہے۔ آپ میاں جی سے درخواست کریں کہ اپنا کوئی نائب مقرر کر دیں تا کہ ہم آپ کے بعد ان کو دیکھیں یا کوئی وصیت ہی فرما دیں۔ والدہ محترمہ نے کہا کہ حافظ صاحب ہم میں تو اس کی جرات نہیں ہے آپ خود ہی پوچھ لیں۔ حافظ کرم دین نے پھر خود ہی کہا کہ میاں جی آپ اپنا کوئی نائب مقرر فرما دیں تا کہ ہم آپ کے بعد ان سے رجوع کریں۔ یہ باتیں سنتے ہی میاں محمد عبد اللہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئے اور تمام لوگوں کو بڑے غور سے دیکھا۔ آپ کے بھائی میاں برکت علی اور آپ کی تمام اولاد اور مریدین بھی موجود تھے۔ آپ نے جلال میں آ کر فرمایا کہ حافظ صاحب جو چیز میرے پاس ہے آپ سب میں سے کوئی بھی اس کا اہل نہیں ہے اور نا اہل کو میں یہ نسبت نہیں دے سکتا۔ جو چیز میرے سینے میں ہے۔ میرے ساتھ میری قبر میں ہی جائے گی۔ میری اولاد میں سے کوئی آئے گا اور وہ میری قبر سے ہی اخذ کریگا۔ آخری وقت میں آپ بالکل ہوش میں تھے نہ طبیعت خراب ہوئی اور نہ ہی بے ہوشی ہوئی۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ میاں جی کیا حال ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ تمام لوگ باہر چلے جاؤ۔ جگہ کھلی کر دو کہ فرشتے آگئے ہیں۔ پیچھے ہٹ جاؤ فرشتوں کو آگے آنے دو۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ فرمایا کہ فرشتے تو آ گئے ہیں مگر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں آئے۔ تھوڑی دیر بعد آپ کے چہرہ پرمسکراہٹ آگئی اور فرمایا کہ سرکار آ گئے ہیں۔ آپ نے اپنے دونوں بازو اوپر اٹھائے اور اپنے منہ۔سے کلمہ پڑھا۔ اسی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔

  • انا للہ وانا الیہ راجعون ○

یہ 26 دسمبر 1973ء کا دن تھا۔ میاں محمد عبد اللہ کی نماز جنازہ مفتی غلام فرید ہزاروی نے پڑھائی۔ نماز جنازہ پڑھانے کے بعد مفتی صاحب نے کہا جس نے کسی ولی اللہ کو نہیں دیکھا تو آؤ دیکھ لو۔ آپ کا مزار محلہ محمد نگر گلی نمبر 9 مسجد میاں محمد عبد اللہ والی نزد کارخانہ لالہ ادریس جناح روڈ گوجرانوالہ میں مرجع خلائو ہے۔ آپ کا عرس ہر سال 12 دسمبر کو آستانہ عالیہ قادریہ میں منایا جاتا ہے۔

اولاد ترمیم

میاں محمد عبد اللہ کے تین بیٹے تھے۔

  1. میاں عبد الرحمن
  2. میاں محمد صدیق
  3. میاں عبد الغنی

کرامات ترمیم

میاں محمد عبد اللہ ایسی بزرگ ہستی تھی جنھوں نے اپنی تمام زندگی اللہ رب العزت کی یاد میں گزار دی۔ ایسے ہی اولیاء اللہ اپنی زندگی میں بھی اور بعد از وصال بھی لوگوں کو فیض یاب کرتے ہیں۔ آپ کی بہت کرامات ہیں جن میں چند درج ذیل ہیں۔

صاحب کشف ترمیم

میاں محمد عبد اللہ کے پوتے میاں مشتاق احمد کہتے ہے کہ میاں جی بہت صاحب کشف بزرگ تھے۔ ایک مرتبہ میں آپ کے حضور حاضر خدمت تھا۔ آپ کے پاؤں دبا رہا تھا کہ میاں جی نے اچانک کہا چھوڑ دو، پیچھے ہٹو ہمیں کوئی دیکھ رہا ہے۔ میں نے پاؤں فوراً چھوڑ دیے۔ اچانک باہر تانگہ رکنے کی آواز آئی۔ ہم نے دیکھا کہ ایک بزرگ اندر تشریف لے آئے۔ یہ بزرگ خانقاه حضرت میاں میر لاہوری قادری کے سجادہ نشین تھے۔ آپ لاہور سے میاں جی کو ملنے کے لیے تشریف لائے تھے۔

دلی مراد ترمیم

میاں محمد عبد اللہ کے پاس اکثر و بیشتر لوگ حاضر خدمت ہوتے اور اپنی دنیاوی حاجات لے کر آتے اور با مراد لوٹتے۔ ایک دن ایک عورت آپ کے پاس دعا کی غرض سے حاضر ہوئی اور خاموش بیٹھی رہی ۔ منہ سے کچھ نہ کہا۔ میاں جی کے پاس اس وقت کچھ بتاشے پڑے ہوئے تھے۔ آپ نے اس عورت سے کہا کہ یہ لوبتاشے کھا لو۔ اس نے ایک بتاشہ کھایا۔ آپ نے کہا اور کھا لو۔ وہ کھاتی رہی آپ نے پوچھا کہ کتے کھائے ہیں؟ اس نے کہا کہ تین کھائے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اللہ کے حکم سے تین ہی بیٹھے ہو گے۔ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ اللہ کے فضل وکرم سے تین ہی بیٹے ہوئے۔

جنات کی بارات ترمیم

میاں عبد الرحمن کی زوجہ محترمہ بیان کرتی ہے کہ میرے سسر میاں محمد عبد اللہ ایک دفعہ مجھے میکے سے لینے کے لیے آئے۔ چونکہ اس وقت زیادہ تر سفر پیدل ہوتا تھا۔ میں ان کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی کہ آپ نے مجھے فرمایا مجھ سے دس قدم کے فاصلے پر میرے ساتھ ساتھ چلتی رہو اور دیکھو آگے آنے کی کوشش نہ کرنا۔ میں ذرا مصروف ہونے جارہا ہوں۔ میں بے خیالی میں چلتی چلتی آپ کے کچھ قریب ہو گئی۔ اسی دوران میں کیا دیکھتی ہوں کہ کوئی بارات ہے۔ ہزاروں لوگوں میاں جی کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ جن میں بڑے بڑے لمبے قد والے لوگ ہیں، کچھ کے قد چھوٹے اور شکلیں بڑی عجیب و غریب تھیں۔ کچھ کے قد گھنٹہ گھر کے ٹاور کے برابر تھے۔ کچھ دیر تو میں یہ منظر دیکھتی رہی مگر زیادہ دیر نہ دیکھ سکی اور گر کر بے ہوش ہو گئی۔ گھر آ کر بڑا تیز بخار ہو گیا۔ بعد میں میاں جی نے فرمایا کہ منع کیا تھا کے قریب مت آنا۔ جو منظر تم نے دیکھا وہ جنات کی بارات تھی۔

چوہدری پر کرم نوازی ترمیم

چوہدری غلام محمد (گجرات) کہتے ہے کہ ایک مرتبہ حضرت میاں محمد عبد اللہ ہمارے گاؤں تشریف لائے۔ میں حسب معمول آپ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ میں نے خوشگوار موڈ دیکھ کر کہا کہ آج مجھے بھی کچھ خاص چیز عنایت فرمائیں۔ میاں جی نے فرمایا کہ اچھا۔ پھر آپ نے اپنا دائیں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور فرمایا کہ آنکھیں بند کرلو۔ میں نے اپنے آپ کو خانہ کعبہ میں موجود پایا اور میں نے طواف کعبہ کیا پھر منظر تبدیل ہو گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں مسجد نبوی میں ہوں اور درود و سلام پڑھ رہا ہوں پھر پہلے آسمان سے دوسرے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچا۔ اسی دوران حافظ کرم دین جو آپ کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ میاں جی کا ہاتھ دبایا اور کہا کہ حضرت آپ غلام محمد کو فقیر نہ بنانا یہ یہاں کا زمیندار اور چوہدری ہے۔ سارا نظام دھرم بھرم اور خراب ہو جائے گا۔ اچانک میاں جی نے اپنا دست مبارک میرے سر سے ہٹا دیا۔ ہاتھ مبارک کا ہٹنا تھا کہ میری ساری کیفیت کافور ہو گئی۔ اس بات پر میں ساری عمر حافظ صاحب سے ناراض رہا کہ میری اللہ رب العزت کے ہاں حضوری ہونے لگی تھی آپ نے یہ کیا کر دیا۔ حافظ صاحب نے مجھے بتایا کہ چوہدری صاحب یہ فقیری میٹھی کھیر نہیں ہوتی یہ کانٹوں، دکھوں اور مصیبتوں سے بھرا راستہ ہے۔ اگر آپ فقیر ہو جاتے تو یہاں کے تمام معاملات گڑ بڑ ہو جاتے۔

نیا دل لگانا ترمیم

میاں محمد عبد اللہ کے بیٹے میاں محمد صدیق کو ایک مرتبہ دل کی تکلیف ہو گئی۔ ڈاکٹروں سے چیک کروایا تو انھوں نے کہا کہ آپ کے دل کی شریانیں بند ہیں۔ جن کا علاج بغیر آپریشن سے ممکن نہیں ہے۔ آپریشن کے لیے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ دو دن بعد آپ آپریشن والے کمرے میں سوئے ہوئے تھے کہ اچانک اٹھ کر گھر والوں کو کہنے لگے چلو اپنے گھر چلیں۔ گھر والے حیران ہو گئے کہ آپ کا تو دل کا آپریشن ہے اور آپ گھر جانے کی بات کر رہے ہیں۔ میاں محمد صدیق نے کہا کہ میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے والد محترم میاں محمد عبدالله تشریف لائے ہیں۔ انھوں نے میرا سینہ اپنی انگشت سے چاک کیا۔ میرے دل کو باہر نکالا اور فرمایا کہ یہ خراب ہو گیا لاؤ نیا لگا دیتے ہیں۔ میرے سینے پر دوبارہ ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ صدیق اب تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ گھر چلے جاؤ۔ اس کے بعد چالیس سال تک میاں محمد صدیق زندہ رہے اور انھیں دل کی کوئی تکلیف نہ ہوئی۔

جھوٹا مقدمہ ترمیم

میاں محمد صدیق کے بیٹے میاں صلاح الدین جب جدہ میں کام کرتے تھے وہاں کی انٹیلی جنس نے غلط فہمی کی بنا پر ان کو گرفتار کر لیا۔ جھوٹا مقدمہ کر کے تھکڑیاں لگا کر جیل میں بند کر دیا۔ خواب میں میاں صلاح الدین کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے دادا جان میاں محمد عبد االلہ تشریف لائے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ تم ہم کو بھول گئے ہو۔ آپ کو بھولنا نہیں چاہیے تھا۔ مگر چلو خیر کوئی بات نہیں۔ ہم نے آپ کو بری کر دیا۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئے تو انٹیلی جنس والوں نے معمولی تفتیش کی اور انھیں باعزت بری کر دیا۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. اولیائے گوجرانوالہ مولف میاں علی رضا صفحہ 204 تا 226