میرانی بند بلوچستان کے ضلع کیچ میں تربت سے مغرب کی طرف 43کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہ بند پرویز مشرف کے دور حکومت میں بنایا گیا۔ ڈیم کی تعمیر کا کام جون 2001ء میں شروع ہوا اور اکتوبر 2006ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اس کا افتتاح نومبر 2006ء میں پرویز مشرف نے کیا۔ 5.8 ارب روپے مالیت کا میرانی ڈیم منصوبہ 33ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا۔ یہ ڈیم دریائے دشت پر میرانی گورم کے مقام پر بنایا گیا ہے۔ دریائے دشت دریائے نہنگ اور دریائے کیچ سے مل کر بنتا ہے۔ دریائے نہنگ ایرانی مکران سے نکل کر ناصر آباد کے مقام کور ھواران پر آکر دریائے کیچ سے مل جاتا ہے دریائے کیچ 4604اسکوائز میل پر واقع ہے اور دریائے نہنگ 3360اسکوئر پر واقع ہیں ان دونوں دریاؤں کا ٹوٹل کیچ منٹ ایریا تقریباً 17200 کلومیٹر ہے دونوں دریا بارانی دریا ہیں اور ان میں صرف بارشوں کی صورت میں پانی آتا ہے۔

میرانی بند
Mirani Dam
درجہاستعمال میں
مالکحکومت پاکستان

میرانی ڈیم کا تصور سب سے پہلے انگریز حکمرانوں نے پیش کیا۔ انگریز دوسری جنگ عظیم میں میرانی گورم پر ایک ڈیم تعمیر کرکے اپنے خوراک کی ضروریات پورا کرنا چاہتے تھے لیکن علاقے کا سروے کرنے کے بعد انگریز حکمرانوں نے اپنے خیال کو موخر کر دیا کیونکہ ان کے مطابق میرانی گورم پر ڈیم تعمیر کرنے سے اس کے فائدے سے نقصانات زیادہ تھے لہٰذا انگریزوں نے میرانی گورم سے لے کر ساحلی شہر جیوانی تک مختلف فاصلوں پر چار ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔ انگریز کے چلے جانے کے بعد پاکستان حکومت نے 1956ء میں انگریز سروے کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ علاقے کو سروے کرکے 80فٹ بلند ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جو بعد میں حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے موخر کر دیا گیا۔ پھر 80کی دہائی میں سابقہ سویت اتحاد نے میرانی ڈیم تعمیر کرنے میں دلچسپی ظاہر کی جس پر حکومت پاکستان رضا مندی ظاہر کی۔ بعد میں روسی حکومت نے پاکستان کو یہ مشورہ دیتے ہوئے منصوبہ واپس لے لیا کہ اس ڈیم کے فائدے کی مقابلے نقصانات زیادہ ہیں۔ پرویز مشرف حکومت نے 2001ء میں نیسپاک کمپنی کے سروے کے بعد 80 فٹ کی بجائے 127 فٹ بلند ڈیم تعمیر کرنے کا ٹھیکا ڈسکان کمپنی کو دے دیا۔ مقامی لوگوں سے مشاورت نہ کرنے پر علاقے کے لوگ سراپا احتجاج بن گئے۔ اس دوران یونین کونسل نودز ناصر آباد اور بالیچہ کے علاوہ تحصیل دشت کے تمام یونین کونسلز کی عوام نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو علاقے کی تباہی سے تعبیر کیا جبکہ حکومت اور کمپنی کی جانب سے لوگوں کی احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ سب سیاسی دکان داری چمکانے کی کوششیں ہیں۔ دوسری جانب حکومت اور کمپنی نے عوام کو یہ تسلیاں دیں کہ ڈیم کا پانی 244 فٹ سے اوپر نہیں جائے گا جبکہ انگریز ،روسی اور حکومت پاکستان کی 1956 کے سروے کے مطابق 80فٹ کی بلندی سے علاقے کا شمالی حصہ ڈوب جانے کا خطرہ تھا لیکن کمپنی نے 127فٹ بلند ڈیم تعمیر کرنے کے بعد یہ موقف اختیار کیا کہ بیک فلو پانی 244لیول سے آگے نہیں بڑھے گی لیکن 26جون 2007ء میں زبردست بارشوں کے بعد ڈیم میں پانی کی سطح 270 فٹ تک جا پہنچی جس کے باعث بند کے عقبی علاقے میں ہزاروں ایکڑ اراضی زیر آب آگئی جس سے متعدد افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔

نگار خانہ

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم