میر مستحسن خلیق
میر مستحسن خلیق اردو کے بڑے مرثیہ گو شاعر، میر حسن دہلوی کے فرزند اور میر ببر علی انیس کے والد تھے۔ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ فیض آباد اور لکھنؤ میں تعلیم پائی۔ سترہ برس کی عمر میں مشق سخن شروع کی۔ ابتدا میں اپنے والد میر حسن کو اپنا کلام دکھایا، پھر انھیں کے ایما پر غلام علی ہمدانی مصحفی کے شاگرد ہو گئے۔ مصحفی نے خلیق کی فرمائش پر اپنا تذکرہ ہندی لکھا۔ میر خلیق کی آمدنی کم تھی اس لیے غزلون کی فروخت کرکے اپنا کام چلاتے تھے۔ پہلے غزل کہتے تھے، پھر مرثیہ گوئی اختیار کی اور اس میں کافی نام کمایا۔ ان کے معاصرین میں میر ضمیر اور دلگیر تھے لیکن اصل مقابلہ ضمیر سے رہا۔ دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے، جس کا نتیجہ مرثیہ کی ترقی کی صورت میں نکلا۔ میر خلیق نے صفائیِ زبان اور صحتِ محاورہ پر بہت توجہ کی اور لفظی مناسبات کے مقابلہ میں درد و اثر پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مرثیہ کو قدیم رنگ سے علاحدہ کر کے اس میں جدتیں پیدا کیں اور اس طرح مرثیہ کو شاعری کی ایک مؤقر صنف بنا دیا۔ مرثیہ کے فن میں خلیق کی استادی مُسلم ہے۔ ان کے بیشتر مراثی غیر مطبوعہ ہیں۔ البتہ 19 مریوں کا مجموعہ 1998ء میں شائع ہو چکا ہے۔[1]
میر مستحسن خلیق | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1766ء فیض آباد |
وفات | سنہ 1844ء (77–78 سال) فیض آباد |
اولاد | میر انیس |
والد | میر حسن دہلوی |
عملی زندگی | |
استاذ | غلام علی ہمدانی مصحفی |
پیشہ | شاعر |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ جامع اردو انسائیکلوپیڈیا (جلد-1 ادبیات)، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،2003ء، ص 229