میر ضمیر

اردو زبان کے شاعر

میر ضمیر (پیدائش: 1775ء— وفات: 5 اکتوبر 1855ء) اردو زبان کے دبستان لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے شاعر تھے۔

میر ضمیر
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1775ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیض آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 اکتوبر 1855ء (79–80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ریاست اودھ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

نام میر مظفر حسین تھا جبکہ تخلص ضمیر تھا۔ اردو ادب کی دنیا میں میرضمیر کے نام سے مشہور ہوئے۔والد کا نام میرقادر حسین تھا۔ ناصر، نساخ اور لالہ سری رام نے والد کا نام میرقادر علی بتایا ہے جو صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ کتب ہائے تذکرہ میں غلام علی ہمدانی مصحفی کا تذکرہ سب سے قدیم ہے اور اِس تذکرے میں مصحفی نے نام میرضمیر لکھا ہے۔ اِسی تذکرہ میں مصحفی نے میرضمیر کے والد کا نام قادر حسین خان لکھا ہے۔ خان کا خطاب غالباً اعزاز کے طور پر پایا ہوگا کیونکہ میرضمیر سید تھے۔ مصحفی اور ناصر نے میرضمیر کے آبائی علاقے اور جائے پیدائش کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ محسن اور نساخ کا یہ بیان ہے کہ وہ لکھنؤ کے باشندے تھے۔ ثابت لکھنؤی کہتے ہیں کہ میرضمیر سلطانپور کے قریب پنگھوڑہ نامی علاقے کے باشندے تھے جو ضلع گوڑگاؤں میں ہے۔ اُن کے والد میاں الماس علی خاں (متوفی 1223ھ) کے مصاحب و ملازم تھے۔ جب نواب آصف الدولہ نے فیض آباد سے دار الحکومت لکھنؤ منتقل کیا تو میرضمیر اپنے والد کے ہمراہ لکھنؤ آکر مقیم ہوئے۔ یہ واقعہ 1189ھ ہے۔ لیکن ثابت لکھنؤی نے یہ نہیں لکھا کہ اُس وقت میرضمیر کی عمر کتنی تھی؟۔[1] اکبرحیدری (مصنف میرضمیر تحقیقی مطالعہ) نے حقائق سے ثابت کیا ہے کہ میرضمیر کی پیدائش 1191ھ مطابق 1777ء میں ہوئی۔

وفات

ترمیم

میرضمیر کا اِنتقال لکھنؤ میں نواب واجد علی شاہ کے دورِ حکومت میں 23 محرم 1272ھ مطابق 5 اکتوبر 1855ء کو ہوا۔ سوم کی مجلس میں اُن کے بھانجے میر تفضل حسین ابرؔ نے یہ قطعہ پڑھا تھا:

رونق فزائے معنی ٔ رنگیں بیاں اُٹھاسر تاج شاعراں فصیح جہاں اُٹھا
پژمردگی سی گلشن پہ چھا گئیجب سے ضمیر بلبل ہندوستاں اُٹھا

مرزا سلامت علی دبیر (متوفی 6 مارچ 1875ء) نے یہ قطعہ پڑھا:

آفاق سے اُستادِ یگانہ اُٹھامضموں کے جواہر کا خزانہ اُٹھا
اِنصاف کا نوحہ ہی یہ بالائے زمیںسر تاج فصیحانِ زمانہ اُٹھا

شاعری

ترمیم

میرضمیر نے شعرگوئی کا آغاز دس برس کی عمر سے کیا۔ مثنوی مظہرالعجائب میں ایک شعر میں یہ ثبوت ملتا ہے کہ:

یہ جو ہے بندۂ فقیر حقیرکمتریں ذاکر حسین ضمیر
شعر کہنے کا اِس کو شوق ہواسن دہ سالگی سے ذوق ہوا

میرضمیر نے ابتدائی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا تھا اور اِس فن میں انھوں نے شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی (متوفی 1824ء) سے استفادہ کیا تھا۔ مصحفی انھیں سرآمد صلحائے عالی مقدار اور ذوفنون کہتے تھے۔[2]

مزید دیکھیے

ترمیم
  1. میرضمیر تحقیق مطالعہ، صفحہ 6۔
  2. اکبر حیدری: میرضمیر تحقیق مطالعہ، صفحہ 9۔