میر ناصرعلی دہلوی

اردو زبان کے دبستان دہلی کے مصنف، مقالہ نویس، مضمون نگار، ادیب

خان بہادر میر ناصر علی دہلوی (پیدائش: 1847ء — وفات: 1933ء) اردو زبان کے مضمون نگار، ادیب، مقالہ نویس اور محقق تھے۔

میر ناصرعلی دہلوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1847ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1933ء (85–86 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

خان بہادرمیرناصرعلی دہلوی کاشماراردوادب کے صاحب طرزانشاء پردازوں میں ہوتاہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں اردوادب کے ایسے نابغہ روزگاروں سے بہت کم واقفیت حاصل ہے اور معدودے چند نام، جوہمیں نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں یانجی محفلوں میں ان کا تذکرہ ہوتاہے، سے آگہی حاصل کرتے ہیں۔ہم نے ادب کے مطالعے میں ایک ظلم یہ بھی کیاہے کہ شعرا کو بہت زیادہ وقعت دی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں نثرنگاروں کووہ توجہ اوراہمیت نہیں دی ہے،جو انکاجائز حق ہے۔ اس ضمن میں ہمارے محققین اورناقدین نے بھی نثرنگاروں کے مقابلے میں شعرا کو بہت زیادہ اجاگرکیااورتنقیدکے میدان میں اپنی بیشترتوجہ شاعری کے محاسن ومعائب اورشعری تخلیقات کے سماجی ، سیاسی اورمعاشی محرکات کے تجزئے پر ْصرف کی ہے، جس کی وجہ سے نثرکے میدان میں میرناصرعلی دہلوی جیسی شخصیات کماحقہ ہماری توجہ حاصل نہ کرسکے۔

ذاتی زندگی:

میرناصرعلی نے 1847میں دہلی میں ایک ایسے خاندامیں آنکھ کھولی ، جہاں پشت ہاپشت سے علم و فضل کی روایت چلی آئی تھی۔آپ کے والد سید ناصرالدین محمد جلیل القدرعالم دین اورقران کے ساتھ ساتھ دیگرکتب تورات، زبوراورانجیل سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔1857کے فسادات کے دوران سید ناصرالدین محمد کوعیسائیت کی تبلیغ میں رکائوٹ پیداکرنے کے سبب انگریزحاکموں کے ہاتھوں بڑی اذیتیں اٹھانی پڑیں۔انکامطبع جلادیاگیا اورکتب خانہ ضبط کرلیاگیا۔ایسے حالات میں ان کے لیے دہلی میں رہناناممکن ہو گیا۔لہذا وہ اپنے دوصاحبزادوں ، جن میں ایک میرناصرعلی تھا، کو لے کر لکھنوچلے گئے۔میرناصرعلی کابچپن لکھنواوراسکے قرب وجوارمیں گذرا۔ جب دہلی کے حالات معمول پرآگئے تومولوی ناصرالدین اپنے بچوں سمیت واپس دہلی آگئے۔

تعلیم:

میرناصرعلی کے گھرکاماحول بھی دینی اورمذہبی تھا۔ ان کی تعلیم کاآغازبھی حسب روایت قرآن مجید سے ہوا۔ انھوں نے قرآن مجید اپنے والد سے پڑھااوربنیادی دینی علوم بھی والد صاحب سے حاصل کیے۔اس کے بعدعلم فقہ، حدیث ، درس نظامیہ ، دینیات اورمنطق کے علاوہ عربی اورفارسی بھی سیکھی۔گلستان سعد ی پڑھانے کے لیے آپ کے والد آپکوغالب کی خدمت میں لے گئے تھے، جس کاذکرمیرناصرعلی نے اس اندازسے کیاہے۔

" میرے والد ایک دفعہ مجھے غالب کی خدمت میں لے گئے اورعرض کی کہ اس لڑکے کاگلستان پڑھادیاکیجئے۔ غالب کہنے لگاکہ گلستان پڑھانی تومشکل ہے کہوتودوسری گلستان لکھ دوں"

میرناصرعلی کے والد کے پاس اکثرانگریزعالم اورپادری مذہبی بحث وتکرارکے لیے آیاکرتے تھے ۔ ان کی باتیں سن کر میرناصرعلی کو بھی انگریزی پڑھنے کاشوق پیداہوا۔ا س زمانے میں انگریزی پڑھنابے دین ہونے کے مترادف تھا۔اس لیے خاندان کے بزرگوں سے چھپ کر انھوں نے انگریزی پڑھناشروع کی۔والد کو جب معلوم ہواتومنع کرنے کی بہت کوشش کی مگرمیرناصرعلی نے انگریزی پڑھناجاری رکھااوربالآخردہلی کالج میں داخلہ مل گیا۔اپنی ذہانت اورمحنت کے بل بوتے پر دہلی کالج میں انٹرنس کے امتحان میں اول آئے اورطلائی تمغاحاصل کیا۔میرناصرعلی نے تاریخ اسلام کابھی خوب مطالعہ کیاتھااورعربوں کے زمانہ جاہلیت سے لے کر خلفائے راشدین اوراسکے بعدکے حالات سے پوری طرح واقف تھے۔فلسفہ سے خوب لگائوتھااوریونانی اوریورپی مفکرین کی کتب بھی پڑھی تھیں۔انگریزی ادب میں نظم کو پسند نہ کیا۔انکاخیال تھاکہ شاعری میں کوئی زبان ہماری شاعری کامقابلہ نہیں کرسکتی، البتہ انگریزی نثرکے مداح تھے۔

ملازمت:

میرناصرعلی محکمہ نمک میں ملازم رہے تھے اورمحکمہ تعلیم میں ہیڈماسٹرکے حیثیت سے بھی فرائض منصبی نبھائے تھے۔1898 میں حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں خان بہادرکے خطاب سے نوازاتھا۔اس کے علاوہ حکومت نے انھیں شیخوپورہ ، لائل پورمیں پانچ قطعہ اراضی بھی دی تھی۔

ادبی زندگی:

ادبی لحاظ سے بھی میرناصرعلی کامقام بہت بلندہے۔ وہ ایک عظیم انشاء پرداز، مضمون نگاراورصحافی تھے۔انھوں نے اپنے ادبی زندگی کاآغاز"تیرھویں صدی" نامی رسالے سے کیا،جس کااجراء انھوں نے 1870میں سرسید احمدخان کے رسالے " تہذیب الاخلاق " کے رد عمل میں کیا۔اس رسالے کے ذریعے اس نے سرسید کے بعض مذہبی، تعلیمی اورسماجی خیالات کو ہدف تنقید بنایا۔ انھوں نے ایک دن مطبع آکر مہتمم اوردفترکے منشی کو کہاکہ رسالے کو کہاں کہاں بھجواتے ہیں ، خصوصاً ان مقامات میں ضروربھجوائیں جہاں سے سرسید کے مدرسۃ العلوم کے لیے مالی معاونت ہوتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ میرناصرعلی سرسید سے کس قدرنظریاتی اختلاف رکھتے تھے۔سرسید اورمیرناصرعلی کے درمیان چپقلش کی ابتدا ایک مضمون" تیرھویں صدی اورتہذیب الاخلاق" سے ہوئی جو برسوں تک جاری رہی اوراس تنازعے کی اصل وجہ سرسید کی نیچرپرستی کے مقابلے میں عقل پرستی کے حق میں دلائل فراہم کرناتھی۔ اس زمانے میں سرسیدنے فلسفہ اورسائنس کے ذریعے مسلمانوں کے بہبودکاراستہ نکالنے کی کوشش کی اورادب میں حقیقت پسندی کوفروغ دیا، جس کے مقابلے میں میرناصرعلی دہلوی نے شاعرانہ اسلوب میں خیال آرائی اورحسن آفرینی کے جیتے جاگتے مرقعے پیش کیے۔"تیرھویں صدی"کے مضامین سے اردوادب میں نئے اورمتنوع طرزنگارش کی داغ بیل پڑی،جوعوام اوررخواص میں بے حدمقبول ہوئی۔ اس رسالے کانام بعد میں تبدیل کرکیــ"صلائے عام " رکھاگیاجوتقریباً25سال تک جاری رہا۔اس نئے اورمتنوع طرزفکر کو بعد میں دلگداز اورمخزن نے مزیدتقویت دی اوریوں اردوادب میں رونوی تحریک کے لیے راہیں ہموارہوگئیں۔یوں ہم بجاطورپر کہہ سکتے ہیں کہ اردونثرمیں رومانوی ادب کی بنیاد میرناصرعلی نے رکھی تھی اور "تیرھویں صدی" اس رجحان کانمائندہ رسالہ ہے۔

' {{{مضمون کا متن}}}

حوالہ جات

ترمیم
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔