ناراین سیتارام پھڈکے
ناراین سیتارام پھڈکے (1894ء–1978ء) مراٹھی کے ناول نگار، افسانہ نگار، اولین انشائیہ نگار اور ناقد تھے۔
ناراین سیتارام پھڈکے | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 اگست 1894ء [1] کرجت |
وفات | 22 اکتوبر 1978ء (84 سال)[2] پونے |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | مراٹھی |
اعزازات | |
پدم بھوشن (1962) |
|
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمان کا جنم 4 اگست 1894ء کو ضلع احمدنگر کے مقام کرجت میں ہوا۔ ناسک، بارسی اور پونے میں ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے پونے ہی میں ثانوی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بی اے کرنے کے بعد 1916ء میں ایم۔ اے کیا۔ 1920ء میں مہاتما گاندھی کی تحریک عدم تعاون میں حصہ لینے کے لیے کالج کی ملازمت سے استعفے دے دیا اور "کیسری" (مراٹھی) اور "مراٹھا" (انگریزی) اخبار میں مدیر معاون کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ بعد میں سیاست سے کنارہ کش ہوکر دوبارہ تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور دہلی، حیدرآباد، ناگپور اور کولہاپور کے کالجوں میں فلسفہ و منطق اور نفسیات کے پروفیسر رہے۔ کولہاپور کے راجا رام کالج سے 1949ء میں سبکدوشی اختیار کی۔
دوران ملازمت ہی انھوں نے ماہنامہ"رتناکر" (1925ء) اور ہفتہ وار "بھنکار" (1940ء) کا اجرا کیا۔ 1951ء میں انجلی پرکاشن کے نام سے اشاعتی ادارہ قائم کیا اور انجلی کے نام سے رسالہ جاری کر کے سال میں دو بار یعنی بسنت اور دیوالی کے موقع پر اس کی خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کرتے رہے۔ ان کے ناول اسی رسالے میں چھپتے رہے۔
پھڈکے اولین ادبی تخلیق ایک کہانی "موم کا نقش" تھی جو اس وقت کے اہم اور مقبول رسالے "کیول لوکل" (1912ء) میں شائع ہوئی۔ ان کا پہلا ناول "اللہ اکبر" (1917ء) میری کوریلی کے نوال "ٹیمپرل پاور" سے ماخوذ تھا لیکن آگے چل کر انھوں نے ناول نگاری کو اپنا خاص میدان بنایا اور غیر معمولی طبع زاد لکھ کر مراٹھی میں رومانی ناول نگاری کے عید کی بنیاد ڈالی۔ "قلابہ کی ڈنڈی"(1925ء)، "جادوگر" (1928ء)، "دولت" (1929ء)، "اٹک کے پار"(1931ء) اور "نرنجن" (1932ء)، جیسے ناولوں میں رومانی کشمکش، بیان کی کشش، کردار نگاری کی صفائی اور ذہانت بھری مکالمہ نگاری کے سہارے انھوں نے قارئین کا وسیع حلقہ پیدا کر لیا۔ اس کے بعد "ادھار" (1935ء)، "پرواسی" (1937ء) اور "آخری بغاوت" میں انھوں نے رومان کے ساتھ فکر کو جوڑا نیز سنجیدہ موضوعات کو برتنا شروع کیا اور مہاراشٹر کی بعض تاریخی شخصیتوں کو اپنے ناولوں میں اجاگر کیا۔ آزادی کے بعد انھوں نے جدید ہندوستان کی سیاسی تحریکات کو بنیاد بنا کر جو ناول لکھے ان میں 1942ء کی "ہندوستان چھوڑ دو تحریک" پر مبنی "جھنجھاوت" (1948ء) اور کشمیر کی جنگ آزادی پر مبنی "جہلم" (1948ء) خاصے مشہور ہوئے۔ ان کے دیگر ناولوں میں "رتو سنہار" (1958ء)، "کوہوکوہو" (1960ء) اور "ایک تھا یوراج"(1961ء) قابل ذکر ہیں۔ ان کا آخری ناول "ہیمو بھوپالی" رسالہ "انجلی" کے دیوالی نمبر (1978ء) میں شائع ہوا۔ ان کے ایک ناول "کلنک شوبھا" (1937ء) پر مراٹھی میں فلم بھی بنی تھی۔
پھڈکے نے افسانے بھی لکھے اور ان کی کہانیوں کے پچیس سے زیادہ مجموعے منظرعام پر آئے۔ جن کا ایک انتخاب "باون کشی" کے نام سے 1962ء میں شائع ہوا۔ ان کے ناولوں کے علاوہ افسانوں کے بھی ترجمے انگریزی اور ہندوستان کی دیگر زبانوں میں ہوئے ہیں مگر بہ حیثیت افسانہ نگار ان کی شناخت زیادہ نمایاں نہیں ہو سکی۔ مراٹھی میں ادب لطیف کے رحجان اور انشائیہ نگاری کے بانی کی حیثیت سے بھی پھڈکے کو اہم مقام حاسل ہے۔ ان کے ذوق لطیف اور رنگین اسلوب کی نمایاں جھلکیاں ان کے انشائیوں میں نظر آتی ہیں۔"سرگوشیاں"(1933ء)،"نئی سرگوشیاں" (1937ء) اور "دھوئیں کے مرغولے"(1941ء) ان کے انشائیوں کے اہم مجموعے ہیں۔
پھڈکے ادب برائے ادب کے قائل تھے۔ اپنے نقطہ نظر کی اشاعت و وضاحت کے لیے انھوں نے تنقیدی مضامین اور کتابیں لکھیں۔ کلٹن ہیملٹن کی "دی آرٹ آف فکشن" کے زیر اثر لکھی گئی کتاب "پرتھباسادھنا" (1931ء)اور "مختصر افسانہ نگاری، اصول اور تکنیک" (1952ء) میں ان کا نظریہ ادب کھل کے سامنے آیا۔ اس کے علاوہ "ساہتیہ آنی سنسار" (1937ء) اور"پرتھباولاس" (1966ء) میں انھوں نے اپنے موقف کو واضح کرنے اور منوانے کی پرزور کوشش کی جو بہت کامیاب بھی رہی اور ان کی تحریروں سے مراٹھی میں "ادب برائے ادب" اور "ادب برائے زندگی" کے نظریات کا تفاوت اور تناظر روشن اور مستحکم ہو گیا اور ادبی دنیا دو مستقل گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان میں ادب برائے ادب کے حامل گروہ کے سب سے اہم نمائندے پھدکے کے معاصر ناول نگار وشنوسکھارام کھانڈیکر تھے۔ جب کہ ادب برائے ادب کے قائل گروہ کے سرخیل خود پھڈکے تھے۔
پھڈکے نے سوانحی کتب بھی لکھی اور ترتیب دی ہیں۔ ان کی مرتبہ کتاب "بابوراو پینٹر: ویکتی آنی کلا" (1954ء) کے علاوہ مستقل تصانیف میں "کرلوسکر: ویکتی آنی کلا" (1964ء)، "ناٹیہ اچاریہ کھاڈلکر" (1972ء) اہم ہیں۔ ان میں مذکورہ شخصیتوں اور ان کے کارناموں کا ناقدانہ جائزہ پھڈکے کے انداز تحریر کے سبب یادگار ہو گیا ہے۔
ان کی خودنوشتوں میں "میری خدمت ادب کی یادیں" (1943ء)اور "میرا جیون: ایک ناول" (1969ء) خاصی مقبول ہوئیں۔ ان کے علاوہ "میں اور میرے ناول" اور "مراٹھی انشائیے کا خالق کون؟" کے ذریعے انھوں نے اپنی ناول نگاری اور انشائیہ نگاری کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ان میدانوں میں اپنی اولیات کو واضح کیا ہے۔ 1940ء میں رتنا گیری میں منعقدہ مہاراشٹریہ ساہتیہ سمیلن کی صدارت کا اعزاز انھیں دیا گیا تھا۔ 1962ء میں وہ "پدم بھوشن" کے خطاب سے نوازے گئے۔ اکتوبر 1978ء کو پونے میں ان کا انتقال ہوا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: آرون سوارٹز — او ایل آئی ڈی: https://openlibrary.org/works/OL4565866A?mode=all — بنام: Narayan Sitaram Phadke — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ مصنف: آرون سوارٹز — او ایل آئی ڈی: https://openlibrary.org/works/OL4639041A?mode=all — بنام: Narayan Sitaram Phadke — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017