ندا فاضلی اردو کے مشہور شاعر، فلمی گیت کار اور مکالمہ نگار گذرے۔ ان کا پورا نام مقتدا حسن ندا فاضلی ہے۔ لیکن ندا فاضلی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش 12 اکتوبر، 1938ء کو دہلی میں ہوئی۔[1][2]

ندا فاضلی
ندا فاضلی (چنڈی گڑھ میں لی گئی تصویر - 28 جنوری، 2014)
پیدائشمقتدا حسن ندا فاضلی birth date 12 October 1938
دہلی
وفات08 فروری 2016ء
ممبئی
زباناردو
قومیتبھارتی
اہم اعزازات2013 – پدم شری اعزاز؛ حکومتِ بھارت

ابتدائی زندگی

ترمیم

ندا فاضلی دہلی میں پیدا ہوئے۔گوالیارمیں تعلیم پائی۔ ان کے والد ایک شاعر تھے۔ تقسیم کے بعد ان کے والدین اور خاندان کے افراد پاکستان چلے گئے، لیکن فاضلی بھارت ہی میں رہ گئے۔[3]

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم
 
مشہور اردو شاعر ندا فاضلی 28 جنوری،2014ء کو چندی گڑھ میں منعقدہ جشنِ ہریانہ میں نظم سناتے ہوئے

بچپن میں ہندو مندر سے ایک بھجن کی آواز سنی اور شاعری کی طرف مرغوب ہوئے۔ انسانیت پر انھوں نے شاعری کی[4] اس دور میں مرزا اسداللہ خاں غالب، میر تقی میر سے متاثر ہوئے، میرا اور کبیر سے بھی۔ انھوں نے ایلئیٹ، گگول، اینٹن چکوف (انتون چیخوف) اور ٹکاساکی کو بھی پڑھا اور اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا اضافہ کیا۔

بالی وڈ

ترمیم
 
ندا فاضلی۔

ابتدائی دنوں میں وہ ملازمت کی تلاش میں ممبئی آئے اور دھرم یُگ (رسالہ) اور بلٹز کے لیے لکھتے رہے۔ ان کا شاعرانہ لہجہ لوگوں کو پسند آیا اور فلم بنانے والوں کی نظر ان پر پڑی ساتھ ساتھ ہندی اور اردو ادب والوں کی۔ مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔

کئی گلوکاروں نے اور غزل گانے والوں نے ان کی غزلیں، نظمیں اور گیت گائے، جس سے ان کو شہرت ملی۔

ان کے شہرہ یافتہ غزلوں میں، " دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونہ ہے، مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سوناہے" مشہور ہے۔

فلمی گیتوں میں "آ بھی جا" ( سُر - زندگی کا نغمہ)، تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے ( فلم - آپ تو ایسے نہ تھے) "ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے" (فلم - سر فروش) وغیرہ بہت مشہور ہوئے ۔

کیریر

ترمیم

انھوں نے 1960ء کے دور کے شعرا پر تنقیدی مضامین لکھے لکھے، جس کا عنوان “ملاقاتیں“ تھا۔

فبالی وڈ (بالی وڈ)کے فلم ہدایتکار کمال امروہی نے ندا فاضلی سے مل کر کہا کہ فلم رضیہ سلطانہ کے لیے گیت لکھیں، جب کہ یہ گیت جاں نثار اختر کو لکھنا تھا، لیکن اسی دوران میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ انھوں نے اس فلم کے دو نغمے لکھے اور کافی مشہور بھی ہوئے (1983ء)۔ اس طرح انھوں نے فلمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر پائے۔[5]

ان کے مشہور فلمی نغموں میں فلم آپ تو ایسے نہ تھے، گڈیا، شامل ہیں۔ انھوں نے کئی ٹی۔ وی۔ سیرئیلس کے لیے بھی نغمے اور گیت لکھے۔ سائلاب، نیم کا پیڑ، جانے کیا بات ہوئی اور جیوتی کے لیے ٹائٹل نغمے لکھے۔

گلوکارہ کویتا سبرامنیم اور جگجیت سنگھ نے بھی غزلیں گائیں اور کئی البم بھی بنے۔

حال ہی میں انھوں نے بی۔ بی۔ سی۔ ہندی ویب سائٹ کے لیے کئی عصری معاملات اور ادب پر مضامین لکھے۔[6] یہ اکثر اپنی گفتگو میں مرزا اسد اللہ خان غالب کا ذکر کیا کرتے ہیں۔[7]

فلسفیانہ سوچ

ترمیم

ندا فاضلی شاعری اور ان کے ما ورائے عوام الناس اظہاریے کے پس پردہ ان کی گہری اور کچھ حد تک ہٹ کر سوچ تھی۔ مثلًا ان کے گھر میں گنیش کی ایک مورتی تھی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ تنہائی وہ اس مجمسمے سے ہم کلام ہوتے ہیں، لوگ اس پر تعجب کرتے مگر یہ بجائے خود ان کی سوچ اور حرکت و عمل کا محرک ہے۔

وفات

ترمیم

اردو کے مشہور شاعر ندا فاضلی کی وفات 8 فروری 2016 کو ممبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔[8][9]

انداز اور لہجہ

ترمیم

ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے

--- ندا فاضلی - فلم سرفروش کے لیے لکھی ایک غزل کا شعر۔

ان کی شاعری فنکاروں جیسی ہے۔ یہ جب اپنا کلام لکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی مصور کی تصویر ہے یا پھر کسی موسیقی کار کی موسیقی۔[10][11]

1969ء میں انھوں نے اپنا مجموعہ کلام 1969ء میں شائع کروایا۔ ان کے کلام میں بچپن، غم انگیزی، فطری عناصر، زندگی کا فلسفہ، انسانی رشتے، گفت اور فعل میں تفریق وغیرہ موضوعات پائے جاتے ہیں۔[12]

مذہبی رواداری - کوشش

ترمیم

تقسیم ہند سے بالکل اتفاق نہیں کرنے والے فاضلی، مذہب کے نام پر فسادات، سیاست دانوں اور فرقہ پرستوں پر جم کر تنقید کرتے ہیں۔[13] 1992 کے فسادات کے دوران، تحفظی وجوہات کی بنا پر انھوں نے اپنے ایک دوست کے گھر پناہ لی تھی۔[14] مذہبی رواداری پر کام کرنے کے لیے انھیں بہت سارے اعزازات ملے۔ انھوں نے اب تک 24 کتابیں لکھیں۔ مہاراشٹر حکومت کی جانب سے میر تقی ایوارڈ ملا۔ مختلف صوبائی حکومتوں کے ٹکسٹ بکس میں ان کی سوانح اور تخلیقات بھی ہیں۔[15] [توضیح درکار] [16]

کام کی فہرست

ترمیم

انتخاب شاعری

ترمیم
  • لفظوں کا پُل
  • مور ناچ
  • آنکھ اور خواب کے درمیان میں
  • کھویا ہوا سا کچھ
  • شہر میرے ساتھ چل
  • زندگی کی طرف
  • سب کا ہے ماہتاب
  • شہر میں گاؤں(کلیات)

انتخاب نثر

ترمیم
  • ملاقاتیں
  • دیواروں کے بیچ
  • دیواروں کے باہر
  • چہرے
  • دنیا میرے آگے

ایوارڈ اور اعزازات

ترمیم
  • 1998 – ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ
  • 2003 - سٹار سکرین ایوارڈ برائے بہترین نغمہ نگار - فلم “سُر“ کے لیے۔
  • 2003 - بالی وڈ مووی ایوارڈ برائے بہترین نغمہ نگار - فلم ‘سُر‘ کے گیت ‘آبھی جا‘ کے لیے۔
  • 2013 – پدم شری اعزاز؛ حکومت بھارت۔[17]

فلموگرافی

ترمیم

ندا فاضلی نے ذیل کی فلموں کے لیے گیت لکھے۔

  • رضیہ سلطان
  • تمنا (فلم) - گھر سے مسجد ہے ۔
  • سُر دی میلاڈی آف لائف۔
  • اس رات کی صبح نہیں۔
  • نا خدا (فلم-1981)
  • آپ تو ایسے نہ تھے (فلم)
  • یاترا
  • سرفروش (فلم) - ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے۔
  • سُر (فلم) - آ بھی جا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Citizens decry petty politics"۔ The Times of India۔ 10 نومبر 2009۔ 04 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  2. "When writing poetry becomes a 'business'"۔ The Hindu۔ 6 اگست 2007۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  3. "Urdu poet Nida Fazli describes Ajmal Kasab as angry young man similar to Big B of 70s"۔ Indiatvnews.com۔ 12 جنوری 2013۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  4. "Gazal Live performance by Ustad Rajkumar Rizvi & Nida Fazli"۔ Reachouthyderabad.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  5. The author has posted comments on this article (24 ستمبر 2013)۔ "Noted Urdu poet Nida Fazli exhorts people to be human – The Times of India"۔ Timesofindia.indiatimes.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  6. "यादों का एक शहर۔.۔"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جولائی 2010 
  7. "Ghalib's legacy lives on even after 211 years"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 30 دسمبر 2008۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  8. Writer Nida Fazli Dies In Mumbai - उर्दू के मशहूर शायर निदा फाजली का मुंबई में निधन - Amar Ujala
  9. मशहूर शायर निदा फ़ाज़ली नहीं रहे - BBC News हिंदी
  10. "Without women empowerment, I dont see the world developing Nida Fazli"۔ Thenews.com.pk۔ 9 اکتوبر 2013۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  11. "kasab and amitabh bachchan compared by nida fazli 10031566"۔ Jagran.com۔ 12 جنوری 2013۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  12. 16 جون 2014 Rate Story (16 جون 2014)۔ "Wordsmith Nida Fazli at his lyrical best"۔ Filmfare.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  13. Ankur Sharma (14 جنوری 2013)۔ "मैंने अमिताभ को कसाब नहीं कहा: निदा फाजली – Oneindia Hindi" (بزبان ہندی)۔ Hindi.oneindia.in۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  14. "Punjab News Live, Headlines, Channel Live, Online, Live | Sikh News Ludhiana News- Noted Poet Nida Fazli to visit city on ستمبر 22"۔ City Air News۔ 20 ستمبر 2013۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2020 
  15. http://www.outlookindia.com/news/article/Didnt-Compare-Amitabh-With-Kasab-Nida-Fazli/786834%7Ctitle=Didn't Compare Amitabh With Kasab: Nida Fazli
  16. "Nida Fazli | Ek Fankaar"۔ Ekfankaar.wordpress.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2015 
  17. "Padma Awards"۔ pib۔ 27 جنوری 2013۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جنوری 2013 

بیرونی روابط

ترمیم