جانثار اختر

ساہتیہ اکادمی اعزاز یافتہ مصنف
(جاں نثار اختر سے رجوع مکرر)

جاں نثار اختر (ولادت: 18 فروری 1914ء - وفات: 19 اگست 1976ء) ایک معروف ترقی پسند شاعر اور نغمہ نگار تھے

جانثار اختر
معلومات شخصیت
پیدائش 14 فروری 1914ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گوالیار   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 اگست 1976ء (62 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد جاوید اختر ،  سلمان اختر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  غنائی شاعر ،  نغمہ نگار ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ   (برائے:Khak-e-Dil ) (1976)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات[2]  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت

ترمیم

جانثار اختر 18 فروری 1914ء کو گوالیار (بھارت) میں پیدا ہونے۔ ان کے والد مضطر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں شاعر تھے۔

تعلیم

ترمیم

جانثار اختر نے میٹرک کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ یہاں سے انھوں نے بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگریاں لیں۔

پہلی ملازمت

ترمیم

جانثار اختر نے وکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے کام کیا۔

پہلی بارخانہ آبادی

ترمیم

1943ء میں جانثار اختر کی شادی اسرار الحق مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سراج الحق سے ہو گئی۔ ان کے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر 1945ء اور 1946ء میں پیدا ہوئے۔

دوسری ملازمت

ترمیم

آزادی کے بعد جانثار اختر نے بھوپال کا رُخ کیا اور یہیں کے حمیدیہ کالج میں اردو اور فارسی کے شعبوں کی ذمے داری سنبھالی۔ یہیں سے وہ تحریک ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوئے اور اپنی بلندآور شخصیت کی وجہ سے اس تحریک کے صدر بنے۔

ممبئ کا رُخ

ترمیم

1949ء میں جانثار اختر نے تدریس سے استعفیٰ دیا۔ وہ ممبئی چلے گئے۔ ممبئی آنے کے ان کے دو عزائم تھے: ایک فلمی نغمہ نگاری اور دوسرا اپنے شعری مجموعوں کی اشاعت۔ ممبئی میں وہ ملک راج آنند، کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی اور دیگر ترقی پسند ادیبوں سے جاملے تھے۔ جانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’نذر بتاں‘‘، ’’سلاسل‘‘،’’جاوداں‘‘،’’پچھلی پہر‘‘،’’گھر آنگن‘‘،اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔’’خاک دل‘‘پر انھیں 1976میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ جانثار اختر نے مجموعی طور پر 151فلمی گیت لکھے۔ انھوں نے زیادہ تر سی رام چندر،اوپی نیر اور خیام جسے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ 1976ء میں وہ رضیہ سلطان فلم کے نغمے اپنی زندگی کے آخری فلم کے طور پر لکھے تھے۔

پہلی بیوی کا سانحہ ارتحال اوردوسری بارخانہ آبادی

ترمیم

1953ء میں جانثار کی اہلیہ صفیہ کا انتقال ہوا۔ صفیہ کے جانثار اختر کے نام خطوط کے مجموعوں کوجانثار نے 1955میں شائع کیا۔ یہ مجموعے دو عنوانوں سے ’’حرف آشنا‘‘اور ’’زیر لب‘‘ چھاپے گئے تھے۔ ستمبر 1956ء میں جانثار اختر نے خدیجہ طلعت نامی خاتون سے شادی کر لی تھی۔

شاعری کے اہم عناصر

ترمیم

جانثار کی شاعری میں عمومًا رومانیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ گاہے گاہے اشتراکی نظریات سے بھی متاثر معلوم ہوتے ہیں۔

نمونہ کلام

ترمیم
  • "اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
  • کچھ شعر فقط اُن کو سنانے کے لیے ہیں"

انتقال

ترمیم

جانثار اختر کا انتقال 19 اگست 1976ء میں ہوا تھا۔[3]

حوالہ جات

ترمیم