ابوسعید خدری

محدث، راوی

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ (17ق.ھ / 64ھ) کا شمار ان اہلِ علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے جبال علم سمجھے جاتے تھے اور انہی کے چشمہ فیض سے متلاشیانِ علوم نبوت نے اپنی پیاس بجھائی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ابتداً مالی اعتبار سے کمزور اصحاب رسول کی صف میں شامل تھے، کیونکہ آپ کے والد مالک بن سنان رضی اللہ عنہ جنگ احد میں شہید ہوئے تو پیچھے کوئی جائیداد نہیں چھوڑی ،جس کی وجہ سے آپ پر فاقہ اور پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت آپڑی لیکن تھوڑے دنوں بعد اللہ تعالیٰ نے علومِ دین کے ساتھ ساتھ مال ودولت سے بھی نواز دیا۔[2] سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ علومِ نبوی کے بحر بیکراں تھے۔ آپ نے زیادہ تر اپنی زندگی علم حدیث اور فقہ کی اشاعت کے لیے وقف کر دی تھی، جس کی وجہ سے آپ کے حلقہ درس میں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اگر کسی کو کوئی خاص مسئلہ پوچھنا ہوتا تو دیر بعد موقع ملتا۔ [3] درس کے مخصوص اوقات کے علاوہ اگر کوئی سائل کچھ پوچھنا چاہتا تو جواب سے نواز دیتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے علی اور غلام عکرمہ کو بھیجا کہ ابو سعید رضی اللہ عنہ سے حدیث مبارک سن کر آؤ۔اس وقت آپ باغ میں تھے۔ ان حضرات کو دیکھ کر ان کے پاس آکر بیٹھے اور حدیث بھی بیان فرمائی۔علم وعمل کے پیکر سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بقول علامہ ذہبی رحمہ اللہ اپنی عمر عزیز کی 81 بہاریں اس دار الفناء میں گزار کر 74ھ میں جمعۃ المبارک کے دن دار البقاء کی طرف کوچ کرکے جنت البقیع میں نم کنومۃ العروس کا مصداق بن گئے۔ [4]

ابو سعید خدری انصاری
سعد بن مالک بن سنان
ابوسعید خدری
(عربی میں: أبو سعيد الخدري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 612ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 693ء (80–81 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث ،  فوجی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  علم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ احد ،  غزوہ خیبر ،  غزوہ حنین ،  غزوہ تبوک ،  فتح مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب ترمیم

سعد نام ، ابوسعید کنیت خاندان خدرہ سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے سعد بن مالک بن سنان بن عبید بن ثعلبہ بن الجبر (خدرہ) ابن عوف بن حارث بن خزرج والدہ کا نام انیسہ بنت ابی حارثہ تھا، وہ قبیلہ عدی بن نجار سے تھیں۔ دادا (سنان)شہید کے لقب سے مشہور اور رئیس محلہ تھے چاہ بصہ کے قریب اجرد نام قلعہ ان کی ملکیت تھا، اسلام سے پیشتر قضا کی۔ باپ نے ہجرت سے چند سال قبل عدی بن نجار میں ایک بیوہ سے نکاح کیا تھا جو پہلے عمان اوہی کی زوجیت میں تھیں، ابو سعید انہی کے بطن سے تولد ہوئے یہ ہجرت سے ایک برس پیشتر کا واقعہ ہے۔ [5]

اسلام ترمیم

مدینہ میں تبلیغ اسلام کا سلسلہ بیعت عقبہ سے جاری تھا، خود انصار داعی اسلام بن کر توحید کا پیغام اپنے قبیلوں کو پہنچاتے تھے۔ مالک بن سنان نے اسی زمانہ میں اسلام قبول کیا ، شوہر کے ساتھ بیوی بھی اسلام لائیں، اس لیے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمان ماں باپ کے دامن میں تربیت پائی۔ [6]

غزوات میں شرکت ترمیم

ہجرت مدینہ کے پہلے برس مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہوئی حضرت ابوسعیدؓ نے اس کے کاموں میں شرکت کی [7] غزوہ احد میں باپ کے ساتھ رسول اللہ کے حضور میں گئے اس وقت 13 برس کا سن تھا رسول اللہ نے سر سے پاؤں تک دیکھا کمسن خیال کرکے واپس کیا، مالک نے ہاتھ پکڑ کر دکھایا کہ ہاتھ تو پورے مرد کے ہیں تاہم آپ نے اجازت نہ دی۔ اس معرکہ میں رسول اللہ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا تو مالک نے بڑھ کر خون پونچھا اور ادب کے خیال سے زمین پرپھینکنے کی بجائے پی گئے ،آنحضرت نے فرمایا اگر کسی شخص کو ایسے شخص کے دیکھنے کی خواہش ہو جس کا خون میرے خون سے آمیز ہوا ہو تو مالک بن سنان کو دیکھے اس کے بعد نہایت جانبازانہ لڑکر شہادت حاصل کی۔ باپ نے کوئی جائداد نہیں چھوڑی تھی، ان کی شہادت سے بیٹے پر کوہ الم ٹوٹ پڑا، فاقہ کشی کی نوبت آگئی، پیٹ پر پتھر باندھا، ماں نے کہا رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ، آج انھوں نے فلاں شخص کو دیا ہے تم کو بھی کچھ دیں گے، پوچھا گھر میں ہے،وہاں کیا دھرا تھا، اس لیے خدمت اقدس میں پہنچے اس وقت آپ خطبہ دے رہے تھے کہ جو شخص ایسی حالت میں صبر کرے خدا اس کو غنی کر دے گا، یہ سن کر دل میں کہا میری یاقوتہ( اونٹنی کا نام تھا) موجود ہے پھر مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سوچ کر چلے آئے،لیکن رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے جو کچھ نکلا تھا پورا ہو کر رہا، رازق عالم نے باب رزق کھول دیا، یہاں تک کہ تمام انصار سے دولت و ثروت میں بڑھ گئے۔

غزوہ احد کے بعد مصطلق کا غزوہ پیش آیا، اس میں شریک ہوئے اس کے بعد غزوۂ خندق ہوا، اس وقت وہ پندرہ سال کے تھے، عمر کی طرح ایمان کا بھی شباب تھا رسول اللہ کے ساتھ میدان میں داد شجاعت دی۔ صفر میں عبد اللہ بن غالب لیثی لشکر لے کر فدک روانہ ہوئے یہ بھی ساتھ تھے عبد اللہ نے تمام لشکر کو تاکید کی کہ خبردار متفرق نہ ہونا اور اس مصلحت کے لیے برادری قائم کرنے کی ضرورت ہوئی حویصہ جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے ان کے بھائی بنائے گئے برادری کا نتیجہ عمدہ صورت میں نمودار ہوا ۔[8] ربیع الثانی میں علقمہ بن مخرر ایک سریہ کے ساتھ بھیجے گئے یہ بھی فوج میں تھے۔تھے عبد اللہ بن حذافہ نے اسی غزوہ میں صحابہؓ کو آگ میں کودنے کا حکم دیا تھا، لیکن دراصل ان کا یہ منشا نہ تھا ،وہ نہایت خوش مزاج آدمی تھے طبیعت مذاق کی عادی تھی لوگوں نے اس کو صحیح سمجھ کر کودنا چاہا تو خود روکا کہ میں تم سے مذاق کررہا تھا۔ [9]

اسی سلسلہ میں ایک سریہ جس میں 30 آدمی شامل تھے اور دار قطنی کی روایت کے بموجب ابو سعیدؓ اس کے امیر تھے کسی مقام کی طرف روانہ ہوا، ایک جگہ پڑاؤ تھا، قریب کے گاؤں والوں سے کہلا بھیجا کہ ہم تمھارے مہمان ہیں، انھوں نے ضیافت کرنے سے انکار کیا، اتفاق سے سردار قبیلہ کو بچھونے ڈرنک مارا، لوگوں نے بہت علاج کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا، بعض نے مشورہ دیا کہ صحابہ کے پاس جاؤ ان کو شاید کچھ علاج معلوم ہو ؛چنانچہ وہ لوگ آئے اور واقعہ بیان کیا، بعض روایتوں میں تصریح ہے کہ حضرت ابو سعیدؓ خدری نے فرمایا میں جھاڑ سکتا ہوں لیکن 30 بکری اجرت ہوگی انھوں نے منظور کر لیا، آپ نے جاکر سورہ الحمد پڑھی،اور زخم پر تھوک دیا، وہ شخص بالکل اچھا ہو گیا اور بے تکلف چلنے پھرنے لگا اور ان لوگوں نے بکریاں لے کر مدینہ کا رخ کیا، سب کو تردد تھا کہ ان کا لینا جائز ہے کہ نہیں ،آخر یہ رائے ٹھہری کہ خود آنحضرت سے پوچھا جائے آپ نے پورا واقعہ سن کر تبسم کیا اور فرمایا تم کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ رقیہ کا کام دیتی ہے؟ پھر کہا تم نے ٹھیک کیا، اس کو تقسیم کرلو اور میرا بھی حصہ لگانا۔[10] ان غزوات کے علاوہ حدیبیہ، خیبر ، فتح مکہ ، غزوہ حنین، غزوہ تبوک اور غزوہ طاؤس میں بھی ان کی شرکت کا پتہ چلتا ہے ؛ لیکن چونکہ ان میں ان کا کوئی قابل ذکر کام نہیں ہے،صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عہد نبوت کے 12 غزوات میں ان کو شرف شرکت حاصل تھا۔ ۔[11]

عہد نبوت کے بعد مدینہ ہی میں قیام رہا ، عہد فاروقی و عثمانی میں فتویٰ دیتے تھے، حضرت علیؓ کے زمانے میں جنگ نہروان پیش آئی اس میں نہایت جوش سے حصہ لیا، [12] فرماتے تھے کہ ترکوں کی بہ نسبت خوارج سے لڑنا زیادہ ضروری جانتا ہوں [13] یزید کے مطالبہ بیعت کے وقت جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ فرمایا تو اور صحابہؓ کی طرح ابو سعید خدریؓ نے بھی یہ خیر خواہانہ مشورہ دیا تھا کہ آپ یہیں تشریف رکھیں، [14] مگر حضرت امام حسین علیہ السلام نے نہ مانا۔ 61ھ میں یزید کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اہل حجاز نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے ہاتھوں پر جو رسول اللہ کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے تھے، بیعت کی ،حضرت ابو سعیدؓ بھی ان میں تھے۔ 43ھ میں اہالیان حرم رسول اللہ ﷺ نے علانیہ یزید سے فسخ بیعت کرکے حضرت عبداللہ ابن حنظلہ الغسیل انصاری کے ہاتھ پر بیعت کی ، لشکر شام سے مقابلہ پیش آیا ، جس میں اہل مدینہ کو ہزیمت ہوئی؟ اور حضرت عبد اللہؓ بن حنظلہ نہایت جانبازی سے لڑکر مارے گئے اس وقت عجیب تشویش اور اضطراب کا عالم تھا، مدینہ کا گلی کوچہ خون سے لالہ زار تھا مکان لوٹے جا رہے تھے،عورتیں بے ناموس کی جارہی تھیں اوروہ مقام جس کو رسول اللہ نے مکہ کی طرح حرام کیا تھا، اہل شام کے ہاتھوں قتل وغارت گری کا مرکز بنا ہوا تھا۔

صحابہؓ سے یہ بے حرمتی دیکھی نہیں جاتی تھی اس لیے حضرت ابو سعید خدریؓ پہاڑ کے ایک کھوہ میں چلے گئے تھے، لیکن یہاں بھی پناہ نہ تھی،ایک شامی بلائے بے درماں کی طرح پہنچ گیا اور اندر اتر کر تلوار اٹھائی انھوں نے بھی دھمکانے کی خاطر تلوار کھینچ لی وہ آگے بڑھا، حضرت ابو سعیدؓ خدری نے یہ دیکھ کر تلوار رکھدی اور یہ آیت پڑھی:" لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (مائدہ:28) "( اگر تم مجھے مارنے کو ہاتھ بڑھاؤ گے تو میں تمھارے مارنے کو تیار نہ ہوں گا، کیوں کہ میں خدائے رب العالمین کا خوف کرتا ہوں )شامی یہ سن کر پیچھے ہٹا اورکہا خدا کے لیے بتائیے آپ کون ہیں، فرمایا ابو سعید خدری،بولا، رسول اللہ کے صحابی ،کہا ہاں یہ سن کر غار سے نکل کر چلا گیا۔ [15]

غار سے مکان آئے تو یہاں عام داروگیر تھی،شامی ابن دبجہ کے پاس پکڑ لے گئے اس نے یزید کی خلافت پر بیعت لی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو معلوم تھا انھوں نے جاکر کہا میں نے سنا ہے آپ نے دو امیروں کی بیعت کی ہے؟ فرمایا : ہاں پیشتر عبد اللہ ابن زبیرؓ سے کی تھی پھر شامی پکڑ لے گئے اور یزید کی بیعت کی،ابن عمرؓ نے کہا اسی کا مجھے خوف تھا، کہا بھائی؟ کیا کرتا ؟ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ انسان کے شب وروز کسی امیر کی بیعت میں گذرنے چاہیئں،ابن عمرؓ نے کہا لیکن میں دو امیروں کی بیعت پسند نہیں کرتا۔ [16]

وفات ترمیم

64ھ میں جمعہ کے دن وفات پائی، بقیع میں دفن کیے گئے ،اس وقت بہت عمر رسیدہ تھے، ہاتھوں میں رعشہ تھا، لوگوں نے عمر کا تخمینہ 74 سال کیا ہے ؛ لیکن علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ86 برس کی عمر تھی۔ [6]

اولاد ترمیم

دو بیویاں تھیں،ایک کا نام زینب بنت کعب بن عجزہ تھا جو بعض کے نزدیک صحابیہ تھیں دوسری ام عبد اللہ بنت عبد اللہ مشہور تھیں اور قبیلہ اوس کے خاندان معاویہ سے تھیں اولاد کے نام یہ ہیں عبد الرحمن،حمزہ ،سعید [16][17]

حلیہ ترمیم

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ مبارک یہ تھا، مونچھیں باریک کٹی ہوئی، داڑھی میں زرد خضاب ۔

علم و فضل ترمیم

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فقیہ تھے [18] قرآن مجید ایک قاری سے پڑھا تھا، انصار کے کئی حلقہ درس قائم تھے جن میں علمائے انصار درس دیتے تھے، حضرت ابو سعیدؓ خدری کی طالب علمی کا ابتدائی زمانہ تھا،لوگوں کے پاس بدن کے کپڑے تک نہ تھے، ایک دوسرے کی آڑ میں چھپ چھپ کر بیٹھتے تھے ایک روز رسول اللہ تشریف لائے اس وقت قاری قرأت کر رہا تھا آپ کو دیکھ کر خاموش ہو گیا آپ سب کے پاس بیٹھ گئے اور اشارہ کیا کہ لوگ دائرہ کی شکل میں بیٹھیں ؛چنانچہ سب حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے، اس تمام جماعت میں صرف حضرت ابو سعیدؓ خدری کو آنحضرت پہچانتے تھے۔ [19]

حدیث وفقہ رسول اللہ اور صحابہ کرام سے سیکھی تھی خلفائے اربعہ اور حضرت زید بن ثابتؓ سے روایتیں کیں۔ کثرت سے حدیثیں یاد تھیں، ان کی مرویات کی تعداد 1170 ہے ان صحابہ اور ممتاز تابعین کے نام نامی جنھوں نے ان سے سماع حدیث کیا تھا یہ ہیں: زید بن ثابتؓ ، عبداللہ بن عباسؓ، انس ؓبن مالک، عبداللہ ابن عمرؓ ، عبداللہ ابن زبیرؓ، جابرؓ بن عبداللہ، ابو قتادہؓ ،محمود بن لبیہؓ، ابو الطفیلؓ، ابوامامہؓ بن سہل، سعید بن مسیبؓ، طارق بن شہابؓ ،عطاء ،مجاہد، ابو عثمان نہدی ، عبید بن عمیر ، عیاض بن ابی سرح، بشر بن سعید، ابو نضرہ، سعید بن سیرین عبد اللہ بن محریز، ابو المتوکل ناجی وغیرہم۔ آپ کا حلقہ درس آدمیوں سے ہر وقت معمور رہتا تھا، جو لوگ کوئی خاص سوال کرنا چاہتے تو بہت دیر سے موقع ملتا۔ [20]

بعض اوقات درس کے علاوہ بھی اگرکوئی شخص کچھ دریافت کرنا چاہتا تو جواب سے مشرف فرماتے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے اپنے بیٹے علی اور غلام عکرمہ کو بھیجا کہ ابو سعیدؓ سے حدیث سن کر آؤ،اس وقت وہ باغ میں تھے،ان لوگوں کو دیکھ کر ان کے پاس آکر بیٹھے اور حدیث بھی بیان کی۔ [21] روایت حدیث کے ساتھ سماع کی نوعیت بھی ظاہر فرما دیتے تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ نے کسی سے ایک حدیث سنی تھی، وہ ابو سعیدؓ سے راوی تھا، عبد اللہ ابن عمرؓ اس کو لے کر ان کے پاس گئے اور پوچھا اس شخص نے فلاں حدیث آپ سے سنی ہے کیا آپ نے رسول اللہ سے یہ حدیث سنی تھی؟ فرمایا بصر عینی وسمع اذنی یعنی میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا۔ [22] ایک راوی قزعہ کو ایک حدیث بہت پسند آئی،انھوں نے بڑھ کر پوچھا کیا آپ نے رسول اللہ سے اس کو سنا تھا، اس سوال پر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ آگیا فرمایا تو کیا میں بے سنے بیان کررہا ہوں،ہاں میں نے سنا تھا۔ جس حدیث کے الفاظ پر اعتماد نہ ہوتا اس کے بیان میں احتیاط کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک حدیث، روایت کی،لیکن رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں لیا، ایک شخص نے پوچھا یہ رسول اللہ سے روایت ہے؟ فرمایا میں بھی جانتا ہوں۔ [23][24]

اخلاق و عادات ترمیم

ابو سعید خدری نہایت حق گو تھے،فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ کو حق گوئی کی تاکید کرتے سنا تھا، لیکن کاش نہ سنا ہوتا، [25] ایک مرتبہ اس حدیث کا جس میں حق گوئی کی تاکید تھی، ذکر چھیڑا تو روکر کہا کہ حدیث تو ضرور سنی،لیکن عمل بالکل نہ ہو سکا۔ [26]امیر معاویہؓ کے عہد میں بہت سی نئی باتیں پیدا ہو گئی تھیں، حضرت ابو سعیدؓ خدری سفر کرکے ان کے پاس گئے اورتمام خرابیاں گوش گزار کیں۔ [27] ایک مرتبہ انہی سے انصار کے متعلق گفتگو آئی تو کہا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو تکلیفوں پر صبر کرنے کا حکم دیا، امیر نے کہا تو صبر کیجئے۔ ایک مرتبہ مروان سے فضیلت صحابہؓ کی حدیث بیان کی وہ بولا کیا جھوٹ بکتے ہو زید بن ثابتؓ اور رافع بن خدیجؓ بھی اس کے تخت پر بیٹھے تھے، ابو سعیدؓ نے کہا ان سے پوچھو،لیکن یہ کیوں بتائیں گے ایک کو صدقہ کی افسری سے معزول ہونے کا خوف ہوگا دوسرے کو ڈر ہوگا کہ جنبش لب سے ریاست قوم چھنتی ہے، یہ سن کر مروان نے مارنے کو درہ اٹھایا، اس وقت دونوں بزرگوں نے ان کی تصدیق کی۔

اسی طرح مروان بن حکم نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز سے قبل خطبہ پڑھا ایک شخص نے اٹھ کر ٹوکا کہ دونوں باتیں خلاف سنت ہیں، بولا کہ اگلا طریقہ متروک ہو چکا ہے، حضرت ابو سعیدؓ نے فرمایا چاہے کچھ ہو مگر اس نے اپنا فرض ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ سے سنا کہ جو شخص امر منکر دیکھے تو اس کو ہاتھ سے دفع کرنا چاہئیے اگر اس پر قدرت نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی نہیں تو کم از کم دل سے ضرور برا سمجھے۔ [28] امر بالمعروف کے ولولہ کا یہ حال تھا کہ یہی مروان ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گذرا، اس میں ابو سعیدؓ بھی شریک تھے دیکھا تو دونوں جنازہ کے لیے نہیں اٹھے،فرمایا اے امیر! جنازہ کے لیے اٹھ کیونکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھا کرتے تھے یہ سن کر مروان بن حکم کھڑا ہو گیا۔ [29] جب مصعب بن زبیرؓ مدینہ کے حاکم مقرر ہوئے تو عیدالفطر میں دریافت فرمایا کہ نماز اور خطبہ میں آنحضرت کا عمل کیا تھا، فرمایا خطبہ سے قبل نماز پڑھاتے تھے؛ چنانچہ مصعبؓ نے اس دن اسی قول پر عمل کیا۔ [30] ایک مرتبہ شہر بن حوشب کو سفر طور کا خیال دامن گیر ہوا، وہ ملاقات کو آئے،ابو سعیدؓ خدری نے ان سے کہا تین مسجدوں کے علاوہ اورکسی مقدس مقام کے لیے شدرحال کی ممانعت ہے۔ [31] ابن ابی صعصہ ازنی کو جنگل پسند تھا ان کو ہدایت کی کہ وہاں زور سے اذان دیا کریں کہ تمام جنگل نعرہ تکبیر سے گونج اٹھے۔ نہی عن المنکر کی یہ کیفیت تھی کہ ان کی بہن متواتر بغیر کچھ کھائے پئے روزے رکھتی تھیں، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے روزوں کی ممانعت فرمائی ہے،حضرت ابو سعیدؓ خدری ان کو ہمیشہ منع کرتے تھے۔

سنت کے پورے متبع تھے، حضرت ابوہریرہؓ ایک مسجد میں نماز پڑھایا کرتے تھے وہ ایک مرتبہ بیمار ہو گئے یا کسی سبب سے نہ آسکے تو ابو سعیدؓ خدری نے امامت کی ان کے طریقہ نماز سے لوگوں نے اختلاف کیا، انھوں نے منبر کے پاس کھڑے ہوکر کہا میں نے جس طرح رسول اللہ کو نماز پڑہتے دیکھا ہے اس طرح پڑھائی باقی تمھارے طریقہ کی مخالفت تو اس کی مجھے بالکل پروا نہیں۔ مزاج میں برد باری اور تحمل تھا،ایک مرتبہ پاؤں میں درد ہوا پیر پر پیر رکھے لیٹے تھے کہ آپ کے بھائی نے آکر اسی پاؤں پر ہاتھ مارا جس سے درد بڑھ گیا، انھوں نے نہایت نرم لہجہ میں کہا ،تم نے مجھے تکلیف پہنچائی، جانتے تھے کہ درد ہے جواب ملا ہاں لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس طرح لیٹنے سے ممانعت فرمائی ہے۔ مگر ناحق باتوں پر غصہ بھی آجاتا تھا،ایک مرتبہ حج پر جا رہے تھے ایک درخت کے نیچے قیام ہوا، ابن صیاد بھی جس کے دجال ہونے میں خود آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبہ تھا اسی درخت کے نیچے ٹھہرا تھا، ان کو برا معلوم ہوا، لیکن خاموش رہے ،اس نے خود اپنی مظلومیت کی داستان سنائی ان کو رحم آگیا؛ مگر جب اس نے ایک خلاف واقعہ دعویٰ کیا تو بگڑ کر فرمایا: تبالک سائر الیوم۔ سادگی اوربے تکلفی فطرت ثانیہ تھی ،ایک جنازہ میں بلائے گئے سب سے اخیر میں پہنچے لوگ بیٹھ چکے تھے ان کو دیکھ کر اٹھے اورجگہ خالی کردی، فرمایا یہ مناسب نہیں انسان کو کشادہ جگہ میں بیٹھنا چاہئیے چنانچہ سب سے الگ کھلی جگہ پر جاکر بیٹھے۔ ابو سلمہؓ سے یارانہ تھا، ایک مرتبہ انھوں نے آوازدی یہ چادر اوڑھے نکل آئے ،ابو سلمہؓ نے کہا ذرا باغ تک چلیے، آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں؛چنانچہ یہ ساتھ ہولئے۔[32] اس واقعہ میں یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ ابو سلمہؓ تابعی اور وہ صحابی ہیں اس کے ماسوا ابو سلمہؓ کو شرف تلمذ بھی حاصل ہے۔ یتیموں کی پرورش کرتے تھے، لیث اور سلیمان بن عمرو بن عبد العتواری انھیں کے تربیت یافتہ تھے۔ [33] ہاتھ میں چھڑی لیتے تھے ،پتلی چھڑیاں زیادہ پسند تھیں، کھجور کی شاخیں لاتے اوران کو سیدھا کرکے چھڑی بناتے، یہ بھی رسول اللہ کا اتباع تھا۔ [34][6]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب عنوان : Абу Саид аль-Худри
  2. (السنن الکبریٰ بیہقی ج2ص222،223)
  3. (مسند احمد ج3ص35)
  4. (مسند احمد بن حنبل ج3ص86)
  5. أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير - أبو سعيد بن مالك آرکائیو شدہ 2017-08-13 بذریعہ وے بیک مشین
  6. ^ ا ب پ تهذيب الكمال للمزي » سَعْد بن مَالِك بن سنان بن عُبَيْد بن ثعلبة بن عُبَيْد آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  7. ( مسند احمد بن حنبل:3/5)
  8. طبقات ابن سعد،صفحہ:91،حصہ مغازی
  9. (مسند: /67،وابن سعد)
  10. (بخاری:1/251)
  11. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد1صفحہ38 نعیمی کتب خانہ گجرات
  12. (مسند :3/56)
  13. (مسند:33)
  14. (تاریخ الخلفاء،سیوطی)
  15. (اصابہ:3/85،وطبری:418،حالات 63ھ)
  16. ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير - سعد بن مالك الخدري آرکائیو شدہ 2017-08-13 بذریعہ وے بیک مشین
  17. أبو نعيم الأصبهاني (1998)۔ معرفة الصحابة۔ الثالث (الأولى ایڈیشن)۔ دار الوطن۔ صفحہ: 1260 
  18. (اصابہ،جلد3،تذکرہ ابو سعید خدری)
  19. (مسند:3/63)
  20. (مسند:3/35)
  21. (مسند:3/90،91)
  22. (مسند:3/90،91)
  23. (مسند:29)
  24. سير أعلام النبلاء » الصحابة رضوان الله عليهم » أبو سعيد الخدري آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  25. (مسند:5)
  26. (مسند:61)
  27. (مسند:84)
  28. (مسند:3/10)
  29. (مسند:3/10)
  30. (مسند:3/47،97)
  31. (مسند:93)
  32. (مسند:3/60)
  33. (مسند:3/60)
  34. (مسند:3/60)