ابوسعید خدری

محدث، راوی

ابو سعید الخدری بڑے عالم، احادیث کے ماہرصحابی ہیں۔

ابوسعید خدری
(عربی میں: أبو سعيد الخدري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 612  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 693 (80–81 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت Black flag.svg خلافت راشدہ
Umayyad Flag.svg سلطنت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث،  فوجی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ،  علم حدیث  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ احد،  غزوہ خیبر،  غزوہ حنین،  غزوہ تبوک،  فتح مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسبترميم

سعد نام، ابوسعید کنیت خاندان خدرہ سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے سعد بن مالک بن سنان بن عبید بن ثعلبہ بن الجبر(خدرہ) ابن عوف بن حارث بن خزرج والدہ کا نام انیسہ بنت ابی حارثہ تھا، وہ قبیلہ عدی بن نجار سے تھیں۔ دادا (سنان) شہید کے لقب سے مشہور اوررئیس محلہ تھے چاہ بصہ کے قریب اجرد نام قلعہ ان کی ملکیت تھا، اسلام سے پیشترقضا کی۔ باپ نے ہجرت سے چند سال قبل عدی بن نجار میں ایک بیوہ سے نکاح کیا تھا جو پہلے عمان اوہی کی زوجیت میں تھیں، ابو سعیدانہی کے بطن سے تولد ہوئے یہ ہجرت سے ایک برس پیشتر کا واقعہ ہے۔

اسلامترميم

مدینہ میں تبلیغ اسلام کا سلسلہ بیعت عقبہ سے جاری تھا، خود انصار داعی اسلام بن کر توحید کا پیغام اپنے قبیلوں کو پہنچاتے تھے۔ مالک بن سنان نے اسی زمانہ میں اسلام قبول کیا، شوہر کے ساتھ بیوی بھی اسلام لائیں، اس لیے ابو سعیدنے مسلمان ماں باپ کے دامن میں تربیت پائی۔

غزوات میں شرکتترميم

ہجرت کے پہلے برس مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہوئی حضرت ابوسعیدؓ نے اس کے کاموں میں شرکت کی [3] غزوہ احد میں باپ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے حضور میں گئے اس وقت 13 برس کا سن تھا رسول اللہ ﷺ نے سر سے پاؤں تک دیکھا کمسن خیال کرکے واپس کیا، مالک نے ہاتھ پکڑ کر دکھایا کہ ہاتھ تو پورے مرد کے ہیں تاہم آپ نے اجازت نہ دی۔ اس معرکہ میں رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا تو مالک نے بڑھ کر خون پونچھا اورادب کے خیال سے زمین پرپھینکنے کی بجائے پی گئے ،آنحضرتﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص کو ایسے شخص کے دیکھنے کی خواہش ہو جس کا خون میرے خون سے آمیز ہوا ہو تو مالک بن سنان کو دیکھے اس کے بعد نہایت جانبازانہ لڑکر شہادت حاصل کی۔ باپ نے کوئی جائداد نہیں چھوڑی تھی، ان کی شہادت سے بیٹے پر کوہ الم ٹوٹ پڑا، فاقہ کشی کی نوبت آگئی، پیٹ پر پتھر باندھا،ماں نے کہا رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ، آج انہوں نے فلاں شخص کو دیا ہے تم کو بھی کچھ دیں گے، پوچھا گھر میں ہے،وہاں کیا دھراتھا، اس لئے خدمت اقدس میں پہنچے اس وقت آپ خطبہ دے رہے تھے کہ جو شخص ایسی حالت میں صبر کرے خدا اس کو غنی کردے گا، یہ سن کر دل میں کہا میری یاقوتہ( اونٹنی کا نام تھا) موجود ہے پھر مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سوچ کر چلے آئے،لیکن رسول اللہ ﷺ کی زبان سے جو کچھ نکلا تھا پورا ہوکر رہا،رازق عالم نے باب رزق کھولدیا، یہاں تک کہ تمام انصار سے دولت وثروت میں بڑھ گئے۔

احد کے بعد مصطلق کا غزوہ پیش آیا، اس میں شریک ہوئے اس کے بعد غزوۂ خندق ہوا، اس وقت وہ پندرہ سال کے تھے، عمر کی طرح ایمان کا بھی شباب تھا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میدان میں داد شجاعت دی۔ صفر8ھ میں عبد اللہ بن غالب لیثی لشکر لے کر فدک روانہ ہوئے یہ بھی ساتھ تھے عبد اللہ نے تمام لشکر کو تاکید کی کہ خبردار متفرق نہ ہونا اوراس مصلحت کے لیے برادری قائم کرنے کی ضرورت ہوئی حویصہ جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے ان کے بھائی بنائے گئے برادری کا نتیجہ عمدہ صورت میں نمودار ہوا۔[4] ربیع الثانی 9ھ میں علقمہ بن مخرر ایک سریہ کے ساتھ بھیجے گئے یہ بھی فوج میں تھے ۔تھے عبداللہ بن حذافہ نے اسی غزوہ میں صحابہؓ کو آگ میں کودنے کا حکم دیا تھا، لیکن دراصل ان کا یہ منشا نہ تھا ،وہ نہایت خوش مزاج آدمی تھے طبیعت مذاق کی عادی تھی لوگوں نے اس کو صحیح سمجھ کر کودنا چاہا تو خود روکا کہ میں تم سے مذاق کررہا تھا۔ [5]

اسی سلسلہ میں ایک سریہ جس میں ۳۰ آدمی شامل تھے اور دار قطنی کی روایت کے بموجب ابو سعیدؓ اس کے امیر تھے کسی مقام کی طرف روانہ ہوا، ایک جگہ پڑاؤ تھا، قریب کے گاؤں والوں سے کہلا بھیجا کہ ہم تمہارے مہمان ہیں، انہوں نے ضیافت کرنے سے انکار کیا، اتفاق سے سردار قبیلہ کو بچھونے ڈرنک مارا، لوگوں نے بہت علاج کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا، بعض نے مشورہ دیا کہ صحابہ کے پاس جاؤ ان کو شاید کچھ علاج معلوم ہو ؛چنانچہ وہ لوگ آئے اور واقعہ بیان کیا، بعض روایتوں میں تصریح ہے کہ حضرت ابو سعیدؓ نے فرمایا میں جھاڑ سکتا ہوں لیکن ۳۰ بکری اجرت ہوگی انہوں نے منظور کرلیا، آپ نے جاکر سورہ الحمد پڑھی، اورزخم پر تھوک دیا، وہ شخص بالکل اچھا ہوگیا اور بے تکلف چلنے پھرنے لگا اور ان لوگوں نے بکریاں لیکر مدینہ کا رخ کیا، سب کو تردد تھا کہ ان کا لینا جائز ہے کہ نہیں ،آخر یہ رائے ٹھہری کہ خود آنحضرتﷺ سے پوچھا جائے آپ نے پورا واقعہ سن کر تبسم کیا اورفرمایا تم کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ رقیہ کا کام دیتی ہے؟ پھر کہا تم نے ٹھیک کیا، اس کو تقسیم کرلو اور میرا بھی حصہ لگانا۔[6] ان غزوات کے علاوہ حدیبیہ،خیبر،فتح مکہ حنین،تبوک اورطاؤس میں بھی ان کی شرکت کا پتہ چلتا ہے ؛ لیکن چونکہ ان میں ان کا کوئی قابل ذکر کام نہیں ہے،صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عہد نبوت کے 12 غزوات میں ان کو شرف شرکت حاصل تھا۔ ۔[7]

عہد نبوت کے بعد مدینہ ہی میں قیام رہا، عہد فاروقی وعثمانی میں فتویٰ دیتے تھے، حضرت علیؓ کے زمانے میں جنگ نہروان پیش آئی اس میں نہایت جوش سے حصہ لیا، [8] فرماتے تھے کہ ترکوں کی بہ نسبت خوارج سے لڑنا زیادہ ضروری جانتا ہوں [9] یزید کے مطالبہ بیعت کے وقت جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ فرمایا تو اورصحابہؓ کی طرح ابو سعید خدریؓ نے بھی یہ خیر خواہانہ مشورہ دیا تھا کہ آپ یہیں تشریف رکھیں، [10] مگر حضرت امام حسین علیہ السلام نے نہ مانا۔ ۶۱ھ میں یزید کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اہل حجاز نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے ہاتھوں پر جو رسول اللہ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے تھے، بیعت کی ،حضرت ابو سعیدؓ بھی ان میں تھے۔ ۶۳ھ میں اہالیان حرم رسول اللہ ﷺ نے علانیہ یزید سے فسخ بیعت کرکے حضرت عبداللہ ابن حنظلہ الغسیل انصاری کے ہاتھ پر بیعت کی،لشکر شام سے مقابلہ پیش آیا، جس میں اہل مدینہ کو ہزیمت ہوئی؟ اورحضرت عبداللہؓ نہایت جانبازی سے لڑکر مارے گئے اس وقت عجیب تشویش اوراضطراب کا عالم تھا، مدینہ کا گلی کوچہ خون سے لالہ زار تھا مکان لوٹے جارہے تھے،عورتیں بے ناموس کی جارہی تھیں اوروہ مقام جس کو رسول اللہ ﷺ نے مکہ کی طرح حرام کیا تھا، اہل شام کے ہاتھوں قتل وغارت گری کا مرکز بنا ہوا تھا۔

صحابہؓ سے یہ بے حرمتی دیکھی نہیں جاتی تھی اس لئے حضرت ابو سعید خدریؓ پہاڑ کے ایک کھوہ میں چلے گئے تھے، لیکن یہاں بھی پناہ نہ تھی،ایک شامی بلائے بے درماں کی طرح پہنچ گیا اوراندر اتر کر تلوار اٹھائی انہوں نے بھی دھمکانے کی خاطر تلوار کھینچ لی وہ آگے بڑھا، حضرت ابو سعیدؓ خدری نے یہ دیکھ کر تلوار رکھدی اور یہ آیت پڑھی:" لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (مائدہ:۲۸) "( اگر تم مجھے مارنے کو ہاتھ بڑھاؤ گے تو میں تمہارے مارنے کو تیار نہ ہوں گا، کیوں کہ میں خدائے رب العالمین کا خوف کرتا ہوں )شامی یہ سن کر پیچھے ہٹا اورکہا خدا کے لئے بتائیے آپ کون ہیں، فرمایا ابو سعید خدری،بولا،رسول اللہ ﷺ کے صحابی ،کہا ہاں یہ سن کر غار سے نکل کر چلا گیا۔ [11]

غار سے مکان آئے تو یہاں عام داروگیر تھی،شامی ابن دبجہ کے پاس پکڑ لے گئے اس نے یزید کی خلافت پر بیعت لی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو معلوم تھا انہوں نے جاکر کہا میں نے سنا ہے آپ نے دو امیروں کی بیعت کی ہے؟ فرمایا : ہاں پیشترابن زبیرؓ سے کی تھی پھر شامی پکڑ لے گئے اوریزید کی بیعت کی،ابن عمرؓ نے کہا اسی کا مجھے خوف تھا، کہا بھائی؟ کیا کرتا ؟ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ انسان کے شب وروز کسی امیر کی بیعت میں گذرنے چاہیئں،ابن عمرؓ نے کہا لیکن میں دو امیروں کی بیعت پسند نہیں کرتا۔

وفاتترميم

64ھ میں جمعہ کے دن وفات پائی، بقیع میں دفن کیے گئے ،اس وقت بہت عمر رسیدہ تھے، ہاتھوں میں رعشہ تھا، لوگوں نے عمر کا تخمینہ 74 سال کیا ہے ؛ لیکن علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ86 برس کی عمر تھی۔

اولادترميم

دو بیویاں تھیں،ایک کا نام زینب بنت کعب بن عجزہ تھا جو بعض کے نزدیک صحابیہ تھیں دوسری ام عبداللہ بنت عبداللہ مشہور تھیں اور قبیلہ اوس کے خاندان معاویہ سے تھیں اولاد کے نام یہ ہیں عبدالرحمن،حمزہ ،سعید

حلیہترميم

حلیہ یہ تھا،مونچھیں باریک کٹی ہوئی،داڑھی میں زرد خضاب

علم وفضلترميم

حضرت ابو سعید خدریؓ اپنے عہد کے سب سے بڑے فقیہ تھے [12] قرآن مجید ایک قاری سے پڑھا تھا، انصار کے کئی حلقہ درس قائم تھے جن میں علمائے انصار درس دیتے تھے،حضرت ابو سعیدؓ کی طالب علمی کا ابتدائی زمانہ تھا،لوگوں کے پاس بدن کے کپڑے تک نہ تھے، ایک دوسرے کی آڑ میں چھپ چھپ کر بیٹھتے تھے ایک روز رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اس وقت قاری قرأت کررہا تھا آپ کو دیکھ کر خاموش ہوگیا آپ سب کے پاس بیٹھ گئے اور اشارہ کیا کہ لوگ دائرہ کی شکل میں بیٹھیں ؛چنانچہ سب حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے، اس تمام جماعت میں صرف حضرت ابو سعیدؓ کو آنحضرتﷺ پہچانتے تھے۔ [13]

حدیث وفقہ رسول اللہ ﷺ اورصحابہ سے سیکھی تھی خلفائے اربعہ اورحضرت زید بن ثابتؓ سے روایتیں کیں۔ کثرت سے حدیثیں یاد تھیں، ان کی مرویات کی تعداد ۱۱۷۰ ہے ان صحابہ اورممتاز تابعین کے نام نامی جنہوں نے ان سے سماع حدیث کیا تھا یہ ہیں: زید بن ثابتؓ،عبداللہ بن عباسؓ، انس ؓبن مالکؓ، ابن عمرؓ، ابن زبیرؓ، جابرؓ،ابوقتادہؓ ،محمود بن لبیہؓ،ابو الطفیلؓ،ابوامامہؓ بن سہل، سعید بن مسیبؓ، طارق بن شہابؓ ،عطاء ،مجاہد، ابوعثمان،منہذی، عبید بن عمیر، عیاض بن ابی سرح، بشر بن سعید، ابو نضرہ، سعید بن سیرین عبداللہ بن محریز، ابو المتوکل ناجی وغیرہم۔ آپ کا حلقہ درس آدمیوں سے ہر وقت معمور رہتا تھا، جو لوگ کوئی خاص سوال کرنا چاہتے تو بہت دیر سے موقع ملتا۔ [14]

اوقات درس کے علاوہ بھی اگر کوئی شخص کچھ دریافت کرنا چاہتا تو جواب سے مشرف فرماتے ایک مرتبہ حضرت ابن عباسؓ نے اپنے بیٹے علی اور غلام عکرمہ کو بھیجا کہ ابو سعیدؓ سے حدیث سن کر آؤ،اس وقت وہ باغ میں تھے،ان لوگوں کو دیکھ کر ان کے پاس آکر بیٹھے اور حدیث بھی بیان کی۔ [15] روایت حدیث کے ساتھ سماع کی نوعیت بھی ظاہر فرمادیتے تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ نے کسی سے ایک حدیث سنی تھی، وہ ابو سعیدؓ سے راوی تھا، ابن عمرؓ اس کو لیکر ان کے پاس گئے اور پوچھا اس شخص نے فلاں حدیث آپ سے سنی ہے کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی تھی؟ فرمایا بصر عینی وسمع اذنی یعنی میری آنکھوں نے دیکھا اورکانوں نے سنا۔ [16] ایک راوی قزعہ کو ایک حدیث بہت پسند آئی،انہوں نے بڑھ کر پوچھا کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کو سنا تھا، اس سوال پر حضرت ابو سعیدؓ کو غصہ آگیا فرمایا تو کیا میں بے سنے بیان کررہا ہوں،ہاں میں نے سنا تھا۔ جس حدیث کے الفاظ پر اعتماد نہ ہوتا اس کے بیان میں احتیاط کرتے تھے،ایک مرتبہ ایک حدیث، روایت کی،لیکن رسول اللہ ﷺ کا نام نہیں لیا، ایک شخص نے پوچھا یہ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے؟ فرمایا میں بھی جانتا ہوں۔ [17]

اخلاق وعاداتترميم

نہایت حق گو تھے،فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حق گوئی کی تاکید کرتے سنا تھا، لیکن کاش نہ سنا ہوتا، [18] ایک مرتبہ اس حدیث کا جس میں حق گوئی کی تاکید تھی، ذکر چھیڑا تو روکر کہا کہ حدیث تو ضرور سنی،لیکن عمل بالکل نہ ہوسکا۔ [19] امیر معاویہؓ کے عہد میں بہت سی نئی باتیں پیدا ہوگئی تھیں، حضرت ابو سعیدؓ سفر کرکے ان کے پاس گئے اورتمام خرابیاں گوش گذار کیں۔ [20] ایک مرتبہ انہی سے انصار کے متعلق گفتگو آئی تو کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو تکلیفوں پر صبر کرنے کا حکم دیا، امیر نے کہا تو صبر کیجئے۔ ایک مرتبہ مروان سے فضیلت صحابہؓ کی حدیث بیان کی وہ بولا کیا جھوٹ بکتے ہو زید بن ثابتؓ اوررافع بن خدیجؓ بھی اس کے تخت پر بیٹھے تھے، ابو سعیدؓ نے کہا ان سے پوچھو،لیکن یہ کیوں بتائیں گے ایک کو صدقہ کی افسری سے معزول ہونے کا خوف ہوگا دوسرے کو ڈر ہوگا کہ جنبش لب سے ریاست قوم چھنتی ہے، یہ سن کر مروان نے مارنے کو درہ اٹھایا، اس وقت دونوں بزرگوں نے ان کی تصدیق کی۔

اسی طرح مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز سے قبل خطبہ پڑھا ایک شخص نے اٹھ کر ٹوکا کہ دونوں باتیں خلاف سنت ہیں، بولا کہ اگلا طریقہ متروک ہوچکا ہے، حضرت ابو سعیدؓ نے فرمایا چاہے کچھ ہو مگر اس نے اپنا فرض ادا کردیا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ جو شخص امر منکر دیکھے تو اس کو ہاتھ سے دفع کرنا چاہئیے اگر اس پر قدرت نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی نہیں تو کم از کم دل سے ضرور برا سمجھے۔ [21] امر بالمعروف کے ولولہ کا یہ حال تھا کہ یہی مروان ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گذرا، اس میں ابو سعیدؓ بھی شریک تھے دیکھا تو دونوں جنازہ کے لئے نہیں اٹھے،فرمایا اے امیر! جنازہ کے لئے اٹھ کیونکہ رسول اللہ ﷺ اٹھا کرتے تھے یہ سن کر مروان کھڑا ہوگیا۔ [22] جب مصعب بن زبیرؓ مدینہ کے حاکم مقرر ہوئے تو عیدالفطر میں دریافت فرمایا کہ نماز اورخطبہ میں آنحضرتﷺ کا عمل کیا تھا، فرمایا خطبہ سے قبل نماز پڑھاتے تھے؛ چنانچہ مصعبؓ نے اس دن اسی قول پر عمل کیا۔ [23] ایک مرتبہ شہر بن حوشب کو سفر طور کا خیال دامن گیر ہوا، وہ ملاقات کو آئے،ابو سعیدؓ نے ان سے کہا تین مسجدوں کے علاوہ اورکسی مقدس مقام کے لئے شدرحال کی ممانعت ہے۔ [24] ابن ابی صعصہ ازنی کو جنگل پسند تھا ان کو ہدایت کی کہ وہاں زور سے اذان دیا کریں کہ تمام جنگل نعرہ تکبیر سے گونج اٹھے۔ نہی عن المنکر کی یہ کیفیت تھی کہ ان کی بہن متواتر بغیر کچھ کھائے پئے روزے رکھتی تھیں،آنحضرتﷺ نے ایسے روزوں کی ممانعت فرمائی ہے،حضرت ابو سعیدؓ ان کو ہمیشہ منع کرتے تھے۔

سنت کے پورے متبع تھے، حضرت ابوہریرہؓ ایک مسجد میں نماز پڑھایا کرتے تھے وہ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے یا کسی سبب سے نہ آسکے تو ابو سعیدؓ خدری نے امامت کی ان کے طریقہ نماز سے لوگوں نے اختلاف کیا، انہوں نے منبر کے پاس کھڑے ہوکر کہا میں نے جس طرح رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑہتے دیکھا ہے اس طرح پڑھائی باقی تمہارے طریقہ کی مخالفت تو اس کی مجھے بالکل پرواہ نہیں۔ مزاج میں برد باری اور تحمل تھا،ایک مرتبہ پاؤں میں درد ہوا پیر پر پیر رکھے لیٹے تھے کہ آپ کے بھائی نے آکر اسی پاؤں پر ہاتھ مارا جس سے درد بڑھ گیا، انہوں نےنہایت نرم لہجہ میں کہا ،تم نے مجھے تکلیف پہنچائی،جانتے تھے کہ درد ہے جواب ملا ہاں لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس طرح لیٹنے سے ممانعت فرمائی ہے۔ مگر ناحق باتوں پر غصہ بھی آجاتا تھا،ایک مرتبہ حج پر جارہے تھے ایک درخت کے نیچے قیام ہوا، ابن صیاد بھی جس کے دجال ہونے میں خود آنحضرتﷺ کو شبہ تھا اسی درخت کے نیچے ٹھہرا تھا، ان کو برا معلوم ہوا، لیکن خاموش رہے ،اس نے خود اپنی مظلومیت کی داستان سنائی ان کو رحم آگیا؛ مگر جب اس نے ایک خلاف واقعہ دعویٰ کیا تو بگڑ کر فرمایا: تبالک سائر الیوم۔ سادگی اوربے تکلفی فطرت ثانیہ تھی ،ایک جنازہ میں بلائے گئے سب سے اخیر میں پہنچے لوگ بیٹھ چکے تھے ان کو دیکھ کر اٹھے اورجگہ خالی کردی، فرمایا یہ مناسب نہیں انسان کو کشادہ جگہ میں بیٹھنا چاہئیے چنانچہ سب سے الگ کھلی جگہ پر جاکر بیٹھے۔ ابو سلمہؓ سے یارانہ تھا، ایک مرتبہ انہوں نے آوازدی یہ چادر اوڑھے نکل آئے ،ابو سلمہؓ نے کہا ذرا باغ تک چلیے، آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں؛چنانچہ یہ ساتھ ہولئے۔[25] اس واقعہ میں یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ ابو سلمہؓ تابعی اور وہ صحابی ہیں اس کے ماسوا ابو سلمہؓ کو شرف تلمذ بھی حاصل ہے۔ یتیموں کی پرورش کرتے تھے، لیث اورسلیمان بن عمرو بن عبدالعتواری انہیں کے تربیت یافتہ تھے۔ [26] ہاتھ میں چھڑی لیتے تھے ،پتلی چھڑیاں زیادہ پسند تھیں، کھجور کی شاخیں لاتے اوران کو سیدھا کرکے چھڑی بناتے، یہ بھی رسول اللہ ﷺ کا اتباع تھا۔ [27]

حوالہ جاتترميم

  1. عنوان : Абу Саид аль-Худри
  2. عنوان : Абу Саид аль-Худри
  3. ( مسند احمد بن حنبل:۳/۵)
  4. طبقات ابن سعد،صفحہ:91،حصہ مغازی
  5. (مسند: /۶۷،وابن سعد)
  6. (بخاری:۱/۲۵۱)
  7. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد1صفحہ38 نعیمی کتب خانہ گجرات
  8. (مسند :۳/۵۶)
  9. (مسند:۳۳)
  10. (تاریخ الخلفاء،سیوطی)
  11. (اصابہ:۳/۸۵،وطبری:۴۱۸،حالات ۶۳ھ)
  12. (اصابہ،جلد۳،تذکرہ ابو سعید خدری)
  13. (مسند:۳/۶۳)
  14. (مسند:۳/۳۵)
  15. (مسند:۳/۹۰،۹۱)
  16. (مسند:۳/۹۰،۹۱)
  17. (مسند:۲۹)
  18. (مسند:۵)
  19. (مسند:۶۱)
  20. (مسند:۸۴)
  21. (مسند:۳/۱۰)
  22. (مسند:۳/۱۰)
  23. (مسند:۳/۴۷،۹۷)
  24. (مسند:۹۳)
  25. (مسند:۳/۶۰)
  26. (مسند:۳/۶۰)
  27. (مسند:۳/۶۰)