نودرہ

دارالعلوم دیوبند کی پہلی عمارت

نودرہ دار العلوم دیوبند کی تعمیر ہونے والی سب سے اولین عمارت ہے اور اس کا شہرہ دار العلوم دیوبند کی عمارتوں میں سب سے زیادہ ہے۔ طلبہ کا ایک ہجوم ہمہ وقت اس میں رہتا ہے۔ تعلیمی اوقات کے علاوہ چھٹی کے اوقات میں بھی طلبہ کی ایک تعداد اس میں محو مطالعہ رہتی ہے۔ طلبہ اس عمارت میں بیٹھ کر پڑھنے لکھنے کو ایک اعزاز اور شرف سمجھتے ہیں، جب یہاں بیٹھنے کو جگہ نہ ملے تو بیٹھنے کی خاطر نمبر لگاتے ہیں، خصوصاً امتحان داخلہ کے لیے طلبہ یہاں رات بھر جاگ کر مطالعہ و تکرار میں منہمک رہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس عمارت کی بنیاد دار العلوم دیوبند کے بانیوں نے رکھی تھی۔

سنگ بنیاد

ترمیم

2 ذی الحجہ 1292ھ بروز جمعہ دار العلوم دیوبند میں ایک بڑا جلسہ دستار بندی منعقد ہوا جو دار العلوم دیوبند کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ تھا۔ جلسہ جامع مسجد دیوبند میں ہوا۔ اس میں دار العلوم کی دس سالہ روداد اور مکمل رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ رشید احمد گنگوہی، محمد قاسم نانوتوی، محمد مظہر نانوتوی، احمد علی سہارنپوری، محمد یعقوب نانوتوی، سید محمد عابد دیوبندی نے اس میں شرکت کی اور عوامی خطاب بھی فرمائے۔

بعد نماز جمعہ کچھ بیانات ہوئے، اس کے بعد چند فارغین کی دستار بندی بھی ہوئی۔ اس کے بعد سارا مجمع جامع مسجد سے اٹھ کر وہاں پہنچا جہاں نودرہ کی بنیاد رکھی جانے والی تھی۔ اس عمارت کی سب سے پہلی اینٹ محدث احمد علی سہارنپوری کے ہاتھوں سے رکھوائی گئی ،اس کے بعد ایک ایک اینٹ رشید احمد گنگوہی، محمد قاسم نانوتوی اور محمد مظہر نانوتوی نے رکھی۔ یہ نام تو دار العلوم کی روداد میں درج ہیں۔ کتاب ارواح ثلاثہ کی روایت میں مزید دو نام میانجی منے شاہ اور سید محمد عابد دیوبندی (حاجی عابد حسین) کے بھی لکھے ہیں۔[1]

اکابر کا رد عمل

ترمیم

جب سنگ بنیاد رکھا جاچکا تو سب علما و اکابر نے دار العلوم دیوبند کی بقا و ترقی کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کی۔ محمد قاسم نانوتوی نے کہا :

عالم مثال میں اس مدرسہ کی شکل ایک معلق (لٹکی ہوئی) ہانڈی کے مانند ہے جب تک اس کا مدار توکل اور اعتماد علی اللہ پر رہے گا یہ مدرسہ ترقی کرتا رہے گا۔

اس واقعہ کو فضل الرحمن عثمانی دیوبندی نے درج ذیل اشعار میں نظم کیا ہے:

اس کے بانی کی وصیت ہے کہ جب اس کے لیے

کوئی سرمایہ بھروسے کا ذرا ہو جائے گاپھر یہ قندیل معلق اور توکل کا چراغ
یہ سمجھ لینا کہ بے نور و ضیا ہو جائے گا ہے توکل پر بنا اس کی تو بس اس کا معیں
ایک گر جائے گا، پیدا دوسرا ہو جائے گا

[2]

مادہ تاریخ

ترمیم

محمد یعقوب نانوتوی نے تعمیر کا مادہ تاریخ اشرف عمارات سے نکالا ، جس کے عدد 1293 ہوتے ہیں ، سنگ بنیاد کا سال اگرچہ 1292ھ کا تھا ، لیکن تعمیر کا آغاز 1293ھ میں ہوا ۔[2]

خواب

ترمیم

جس زمانہ یہ عمارت تعمیر ہوئی اس وقت رفیع الدین دیوبندی دار العلوم کے مہتمم تھے۔ انھوں نے خواب میں پیغمبر محمد کو دیکھا کہ فرما رہے ہیں "یہ عمارت تو بہت مختصر ہے"۔ یہ فرما کر خود اپنے سے ایک طویل و عریض نقشہ کھینچ کر بتلایا کہ ان نشانات پر تعمیر کی جائے۔ چنانچہ اسی کے مطابق بنیاد کھدوا کر تعمیر شروع کرائی گئی۔[3]

محل وقوع اور تعمیری کیفیت

ترمیم

آٹھ سال کی مدت میں 23000 روپئے کے صرف سے یہ عمارت نودرہ کے نام سے بن کر تیار ہوئی۔ اس عمارت کے دو درجہ ہیں اور ہر درجہ میں نو دروازے ہیں۔ اس کا طول 26 گز اور عرض 12 گز ہے۔ 1301ھ مطابق 1883ء کی روداد میں لکھا ہے کہ :

اس عمارت میں سادگی اور استواری کو مقدم رکھا گیا ہے اور اس کا نقشہ منجانب اللہ قلوب پر الہام ہوا تھا۔

نودرہ کی تعمیری خصوصیات کی نسبت روداد میں لکھا ہے:

اس کی تعمیر میں ہندوستانی اور انگریزی عمارتوں کا لطف موجود ہے، اس کی پشت پر ایک معدہ تالاب اور جانب جنوب سبزہ زار اور بجانب شمال باغ مدرسہ ہے۔ وسط صحن میں ایک مختصر اور نفیس چمن نہایت خوش نما جنگلے کے بیچ میں شگفتہ ہے اور جنگلے کے چاروں طرف گملوں میں ہر قسم کے مختلف الالوان پھولوں کے درخت موجود ہیں۔

نودرہ کے درمیانی حصہ کو احاطہ مولسری کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں مولسری کا ایک قدیم درخت موجود ہے۔ اسی نسبت سے یہ نام پڑ گیا۔[1] نیز جانب شمال اور جنوب میں اب سبزہ و باغ نہیں رہے، وہاں اب دوسری عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ شمال میں دفتر تعلیمات اور جنوب میں دیگر تعمیریں ہیں۔ موجودہ صدر دروازہ باب قاسم سے داخل ہوتے ہی باب امداد - جس میں دفتر اہتمام ہے- نظر آتا ہے۔ اسی کے سامنے نودرہ اور احاطہ مولسری دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ باہر دروازہ سے بھی نودرہ کی عمارت دکھائی دیتی ہے اور اگر دار الحدیث کے بھی دروازے کھول دیے جائیں تو باب الظاہر بھی نظر آتا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "آرکائیو کاپی"۔ 2018-09-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-08-29
  2. ^ ا ب تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 1 صفحہ 184
  3. تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 1 صفحہ 185