محمد عابد حسین دیوبندی

دار العلوم دیوبند کے بانی و مہتممِ اول

سید محمد عابد حسین دیوبندی (1250ھ/1834ء – 1331ھ/1913ء) برصغیر کے ایک ممتاز صوفی اور دار العلوم دیوبند کے بانی اراکین میں سے تھے۔ وہ دار العلوم دیوبند کے پہلے مہتمم تھے اور تین مرتبہ اس منصب پر فائز رہے۔ ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے برصغیر میں دینی مدارس کے قیام اور اصلاحِ معاشرہ میں نمایاں کردار ادا کیا۔

حاجی

سید محمد عابد دیوبندی
دار العلوم دیوبند کے پہلے مہتمم
برسر منصب
1866 - 1867
پیشرو"نیا عہدہ"
جانشینرفیع الدین دیوبندی
دار العلوم دیوبند کے تیسرے مہتمم
برسر منصب
1869 - 1871
پیشرورفیع الدین دیوبندی
جانشینرفیع الدین دیوبندی
دار العلوم دیوبند کے پانچویں مہتمم
برسر منصب
1890 - 1892
پیشرورفیع الدین دیوبندی
جانشینفضل حق دیوبندی
ذاتی
مذہباسلام
ذاتی
پیدائش1250ھ / 1834ء
وفات27 ذی الحجہ 1331ھ / 27 نومبر 1913ء
دیوبند، برطانوی ہند
مذہباسلام
شہریتمغلیہ سلطنت (1834 – 1857)
برطانوی ہند (1857 – 1912)
فرقہسنی
فقہی مسلکحنفی
معتقداتماتریدی
طریقتچشتیہ صابریہ
بانئدار العلوم دیوبند
مرتبہ
استاذامداد اللہ مہاجر مکی اور کریم بخش رامپوری

ابتدائی، تعلیمی و روحانی زندگی

ترمیم

ولادت، نام اور خاندانی پس منظر

ترمیم

سید محمد عابد حسین دیوبندی 1250ھ مطابق 1834ء کو دیوبند، مغلیہ ہند میں پیدا ہوئے۔[1] [2] ان کا تعلق سادات رضویہ سے تھا، جو علمی اور روحانی خدمات کے لیے معروف تھے۔ ان کے آبا و اجداد علمی و دینی سرگرمیوں میں ممتاز تھے اور شریعت کی پابندی کے لیے مشہور تھے۔[3]

ان کا اصل نام محمد عابد تھا اور ان کا نسب یہ تھا: محمد عابد ابن عاشق علی ابن قلندر بخش ابن جان عالم ابن محمد عالم ابن محمد جمیل ابن محمد اسماعیل ابن محمد ابراہیم بن سعد اللہ ابن محمود قلندر ابن سید احمد ابن سید فرید ابن وجیہ الدین ابن علاء الدین ابن سید احمد کبیر ابن شہاب الدین ابن حسین علی ابن عبد الباسط ابن ابو العباس ابن اسحاق عندلیب المکی ابن حسین علی ابن لطف اللہ ابن تاج الدین ابن حسین ابن علاء الدین ابن ابی طالب ابن ناصر الدین ابن نظام الدین حسین ابن موسیٰ ابن محمد العرج ابن ابی عبد اللہ احمد بن موسیٰ مبرقع ابن محمد تقی ابن موسیٰ علی رضا ابن موسیٰ کاظم ابن جعفر صادق ابن محمد باقر ابن زین العابدین ابن حسین ابن علی۔[3]

ابتدائی تعلیم

ترمیم

سات سال کی عمر میں انھوں نے قرآن اور فارسی زبان کی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی گئے، لیکن والد کی صحت کی خرابی کے باعث انھیں دیوبند واپس آنا پڑا۔ والد کے انتقال کے بعد ان کا تعلیمی سلسلہ مکمل نہ ہو سکا۔[4]

بیعت و خلافت

ترمیم

دوران تعلیم ہی ان کا رجحان تصوف کی جانب بڑھا۔ بارہ برس کی عمر میں وہ مولانا ولایت علی سے بیعت ہو گئے تھے۔ پھر انھوں نے میاں جی کریم بخش رام پوری سے تعلقِ بیعت قائم کیا، ان سے تزکیہ و سلوک کے مراحل طے کرتے رہے اور ان کی طرف سے اجازتِ بیعت و خلافت سے نوازے گئے۔[5] ان کے علاوہ انھیں شاہ محمد امام قادری مدراسی،[6] موضع سوندھ، ضلع گڑگاؤں (موجودہ ضلع میوات، ہریانہ) کے شاہ راج خان قادری (متوفی: 1306ھ مطابق 1889ء)[7] اور امداد اللہ مہاجر مکی کی طرف سے بھی اجازتِ بیعت و خلافت حاصل تھی۔[8] ان کے اجل خلفا میں محمد انور دیوبندی (متوفی: 1312ھ) تھے۔[9][10]

عملی زندگی

ترمیم

قیامِ دار العلوم دیوبند

ترمیم

سید عابد حسین دیوبندی دار العلوم دیوبند کے بانیوں میں سے ایک تھے۔[11] دار العلوم دیوبند کے قیام کا خواب سب سے پہلے انھوں نے دیکھا اور اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے انھوں نے بھرپور کوشش کی۔ 15 محرم 1283ھ (31 مئی 1866ء) کو مسجد چھتہ دیوبند کے صحن میں مدرسہ کا افتتاح ہوا۔ ابتدائی دنوں میں عوامی چندہ اکٹھا کرنے کی مہم انھوں نے خود شروع کی۔ ایک دن سفید رومال میں چند روپے رکھ کر انھوں نے لوگوں سے چندے کی درخواست کی اور اسی کوشش سے دار العلوم کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ عوامی چندے کا یہ منفرد نظام نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ دینی تعلیم کے لیے ایک مستحکم بنیاد فراہم کی۔[12] وہ سب سے پہلے شخص تھے، جنھوں نے جامع مسجد سے "مدرسہ" کے الگ کرنے سے متعلق بقیہ اراکین تاسیسی سے کیا تھا اور رائے دیا تھا کہ "مدرسہ" کو جامع مسجد میں برقرار رہنا چاہیے۔[13] انھوں نے بعد میں اپنی رائے بدل لی اور وہ دوسرے شخص تھے، جنھوں نے دار العلوم دیوبند کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا، پہلا پتھر میاں جی منے شاہ نے رکھا تھا۔[14] جس زمین پر مدرسہ دیوبند کی نئی عمارت تعمیر کی گئی تھی، اس کی خرید و فروخت انھیں کے نام تھی۔[11]

مجلسِ شوریٰ و منصبِ اہتمام دار العلوم دیوبند

ترمیم

سید محمد عابد حسین دیوبندی نے تین مرتبہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ پہلی مرتبہ 15 محرم 1283ھ (1866ء) سے رجب 1284ھ (1867ء) تک اس منصب پر فائز رہے، لیکن حج کے ارادے کے باعث مستعفی ہو گئے۔ دوسری بار 1286ھ (1869ء) سے 1288ھ (1871ء) تک یہ منصب سنبھالا۔ اس دوران جامع مسجد دیوبند کی تعمیر بھی ان کی نگرانی میں ہوئی، تاہم مصروفیات کے باعث یہ ذمہ داری دوبارہ رفیع الدین دیوبندی کے سپرد کردی گئی۔ تیسری بار 1306ھ (1888ء) میں انھیں دار العلوم کا مہتمم مقرر کیا گیا اور وہ شعبان 1310ھ (1893ء) تک اس عہدے پر فائز رہے۔[15][16][17][18] وہ دار العلوم دیوبند کی مدتِ آغاز یعنی 1283ھ مطابق 1866ء سے 1310ھ مطابق 1892ء تک اس کی مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے۔[19][20][21][22]

جامع مسجد دیوبند

ترمیم

سید محمد عابد حسین دیوبندی نے عبد الخالق دیوبندی کے ہمراہ قیامِ دار العلوم دیوبند کے وقت 1283ھ مطابق 1866ء میں جامع مسجد کی بنیاد رکھی تھی اور چار سال بعد 1286ھ (مطابق 1869ء یا 1870ء) میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی تھی۔[23]

وفات

ترمیم

27 ذی الحجہ 1331ھ مطابق 27 نومبر 1913ء کو 81 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔[1][24][25] انھیں دارالعلوم دیوبند کے شمال میں قبرستان قاسمی کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔ ان کا مزار ’’مزار عابدی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔[24][25]

حوالہ جات

ترمیم

مآخذ

ترمیم
  1. ^ ا ب اسیر ادروی (1994)۔ تذکرہ مشاہیر ہند: کاروان رفتہ (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: دار المؤلفین۔ ص 145
  2. رضوی 1981، صفحہ 164
  3. ^ ا ب عبد الحفیظ رحمانی (2007)۔ بانی دار العلوم دیوبند اور تاریخی حقائق۔ لوہرسن، سنت کبیر نگر: دار الکتاب۔ ص 9
  4. اشتیاق احمد قاسمی (جنوری 2000)۔ نواز دیوبندی (مدیر)۔ سوانح علمائے دیوبند۔ دیوبند: نواز پبلی کیشنز۔ ج 2۔ ص 218
  5. قاسمی 2000، صفحہ 218–220، 229
  6. قاسمی 2000، صفحہ 229–230
  7. نذیر احمد دیوبندی (1915)۔ تذکرۃ العابدین امداد العارفین۔ دہلی: لالہ ٹھاکر داس پرنٹر۔ ص 67، 191–192
  8. قاسمی 2000، صفحہ 243
  9. عزیر الرحمن نہٹوری (جولائی 1967)۔ تذکرہ مشائخ دیوبند (دوسرا ایڈیشن)۔ بجنور: ادارۂ مدنی دار التالیف۔ ص 169
  10. مشتاق احمد ابٹھوی صابری (1978)۔ انوار العاشقین (دوسرا ایڈیشن)۔ بہاولپور؛ لاہور: صوفی فاؤنڈیشن؛ مکتبہ انوار اسلام۔ ص 137–138
  11. ^ ا ب اسیر ادروی (2015)۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی: حیات اور کارنامے۔ دار العلوم دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 132، 141
  12. محمد اللہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا ایڈیشن)۔ بھارت: شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 480–481۔ OCLC:1345466013
  13. سید محمد میاں دیوبندی (1946)۔ علمائے حق اور کے مجاہدانہ کارنامے۔ گلی قاسم جان، دہلی: الجمعیۃ بک ڈپو۔ ص 65–69
  14. دیوبندی 1946، صفحہ 79–80
  15. قاسمی 2020، صفحہ 481–482
  16. رضوی 1981، صفحہ 167
  17. دیوبندی 1946، صفحہ 75
  18. طاہر بن احمد القاسمی (جون 1928)۔ حبیب الرحمن عثمانی (مدیر)۔ "دار العلوم نمبر" (PDF)۔ ماہنامہ القاسم۔ دفتر القاسم، دار العلوم دیوبند۔ ج 4 شمارہ 1: 57–61، 68
  19. دیوبندی 1946، صفحہ 76
  20. قاسمی 2020، صفحہ 753
  21. القاسمی 1928، صفحہ 57، 68
  22. عبد الحئی حسنی (جون 1958ء)۔ دہلی اور اس کے اطراف (ایک سفرنامہ اور روزنامچہ انیسویں صدی کے آخر میں)۔ جامع مسجد، دہلی؛ لکھنؤ: کتب خانہ انجمن ترقی اردو؛ مکتبہ دار العلوم ندوۃ العلماء۔ ص 105
  23. سید محبوب رضوی (1972ء)۔ تاریخ دیوبند (دیوبند اور دار العلوم کے حالات) (دوسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: علمی مرکز۔ ص 205، 297–300 – بذریعہ ریختہ (ویب سائٹ)
  24. ^ ا ب قاسمی 2000، صفحہ 245
  25. ^ ا ب قاسمی 2020، صفحہ 486

کتابیات

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم